یہ رپورٹ قزاقستان میں ہمارے مندوب نے 7 گھنٹے انٹرنیٹ کی بندش کے بعد کل شام بھیجی ہے۔ ایک ہی رات میں گیس قیمتوں میں اضافے کے خلاف مظاہرے ایک عوامی بغاوت میں تبدیل ہو گئے ہیں جس کے نتیجے میں حکومت مستعفی ہو چکی ہے لیکن عوامی غم و غصہ رُکنے کا نام نہیں لے رہا۔
[Source]
4-5 جنوری کی درمیانی رات میں پورے قزاقستان کے مختلف شہروں میں سڑکوں پر کئی بڑے مظاہرے ہوئے۔ تحریک کا آغاز منگیستاؤ میں گیس کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف نئے سال کے دن مظاہرے سے ہوا، لیکن واقعات کا دھارا تیزی سے آگے بڑھا اور اب صورتحال عوامی بغاوت کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ اکتاؤ اور اکتوبے میں مظاہرین نے شہری اور علاقائی ”حاکمیت“ (انتظامیہ) کی عمارات پر قبضہ کرنے کی کوششیں کی ہیں۔ کئی شہروں میں سیکورٹی فورسز کے ساتھ شدید جھڑپیں ہوئیں جن کے نتیجے میں مظاہرین نے کامیابی کے ساتھ گرفتاریاں کرنے یا منتشر کرنے کی تمام کوششیں ناکام بنا دیں۔ کئی مقامات پر عوام کی جانب سے پولیس کے ساتھ تعلقات بنانے کی خبریں بھی موصول ہو رہی ہیں۔
سب سے زیادہ گھمبیر صورتحال الماتی میں ہے۔ شہر کے مختلف حصوں میں ساری رات سڑکوں پر جھڑپیں جاری رہیں جن میں پولیس اور فوج نے فلیش گرنیڈ، آنسو گیس شیل اور ربڑ کی گولیاں استعمال کیں۔ درجنوں پولیس گاڑیاں جلا دی گئیں اور کچھ ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مظاہرین نے کئی فوجی ٹرانسپورٹ گاڑیاں جلا دی ہیں۔
جدوجہد صرف سڑکوں تک ہی محدود نہیں ہے۔ بڑی صنعتوں کے محنت کشوں نے کام روک کر اپنے مطالبات بھی پیش کر دیئے ہیں۔ مغربی قزاقستان میں تیل اور گیس کی صنعتوں کے ساتھ ساتھ کان کنوں اور لوہے سے منسلک محنت کشوں میں بھی ہڑتال کا رجحان بڑھ رہا ہے۔
ریاست نے دیر سے متذبذب ردِ عمل دیا ہے جس میں کچھ مراعات اور مزید جبر شامل ہے۔ مانگیاتسو علاقے میں قدرتی گیس کی قیمتوں میں کمی کے ساتھ صدر توکائف نے حکومت کو برطرف کر دیا ہے اور کچھ اقدامات کا اعلان کیا ہے جن میں پیٹرول، ڈیزل، قدرتی گیس اور اہم اشیاء خوردونوش کی قیمتوں پر ریاستی ریگولیشن شامل ہے۔ اس نے مزید وعدہ کیا ہے کہ ریاست سماجی طورپر کمزور (غریب) گھرانوں کے کرایوں میں سبسڈی کے ”ممکنات پر غوروفکر“ کرے گی، اور یوٹیلٹی بلوں کو فریز کرنے کی ”ضرورت پر غوروفکر“ کرے گی اور۔۔لوگوں کے دیوالیہ ہونے کی صورتحال کے پیش نظر قانون سازی شروع کرے گی۔ لیکن توکائف نے اصرار کیا کہ ”وحدت پسندی، قانون کی بالادستی، ملکیتی حقوق کی پاسداری اور منڈی کی معیشت جیسے اصول ہماری ریاستی پالیسی کے اہم ترین ستون رہیں گے“۔
لیکن مراعات کے ساتھ قازق صدر جبر کی دھمکی دیتے ہوئے خبردار بھی کر رہا ہے کہ وہ ”دہشت گردوں“ سے ”سخت ترین انداز میں“ نبٹے گا۔ الماتی شہر، الماتی اور مانگیستاؤ علاقوں اور دارلحکومت میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے۔ کرفیو لاگو ہے اور کلیدی موبائل انٹرنیٹ نیٹ ورک، سوشل میڈیا اور میسیجنگ سروسز بند ہیں۔
ان میں سے کوئی بھی اقدام حکومت کو وہ نتائج فراہم نہیں کر پا رہا جس کی وہ امید کر رہی ہے۔ 5 جنوری کے دن صبح سویرے سے پورے ملک میں لڑائیاں اور جھڑپیں شدت اختیار کیے ہوئے ہیں۔ مظاہرے اور زیادہ شہروں میں پھیل رہے ہیں اور مقامی انتظامیہ کی عمارات پر حملے پھر سے شروع ہو گئے ہیں۔ الماتی میں مظاہرین شہری انتظامیہ کی عمارت میں گھس گئے، شہر کا مرکزی چوک دھماکوں اور بندوقوں کی آوازوں سے گونج رہا ہے اور عمارت کا گراؤنڈ فلور آگ کی لپیٹ میں ہے۔
ہماری آنکھوں کے سامنے بننے والی انقلابی تحریک قدرتی گیس سے متعلق ابتدائی مطالبات کو بہت پیچھے چھوڑ آئی ہے۔ ٹیلی گرام ایپ کے چینلز اور گروپ چیٹ پر کئی مطالبات میں سے چند ایک مندرجہ ذیل ہیں:
1۔ حکومت کی تبدیلی
2۔ ہر شہر اور علاقے کے حاکم (شہری اور دیہی میئرز، علاقائی گورنرز وغیرہ) کا عوامی انتخاب، عوام کو انتخاب کا حق دیا جائے۔
3۔ سال 1993ء کے آئین کا اجراء
4۔ سرگرم سماجی کارکنوں پر کوئی قانونی یا غیر قانونی ظلم و ستم نہیں ہونا چاہیئے
5۔ اقتدار کی ایک ایسے شخص کو منتقلی جس کا موجودہ نظام اور موجودہ انتظامیہ سے کوئی تعلق نہ ہو، یعنی کوئی ایسا شخص جس کی انقلابی وفاداریاں ہوں
مظاہروں اور مزدوروں کے اکٹھ میں لگائے جانے والے نعروں میں سماجی (اجرتیں، ریٹائرمنٹ کی عمر وغیرہ) اور سیاسی (صدر اور حکومت کا استعفیٰ، شفاف انتخابات، پارلیمانی جمہوریت وغیرہ) دونوں شامل ہیں۔
مظاہرین کی حیرت انگیز ثابت قدمی اور بہادری اور انتظامیہ کا عمومی خصی پن تحریک کی کامیابی کے ضامن ہیں۔ جبر کا نظام سڑکوں پر مظاہروں کے ہاتھوں شکست فاش ہو رہا ہے۔ تیزی کے ساتھ اپنی بچی کچھی حمایت کھوتی ہوئی ریاست میں اتنی ہمت ہی نہیں ہے کہ وہ مظاہرین کو خون میں نہلا دینے کا حکم دے سکے اور محض دفاعی حکمت عملی اپنانے پر مجبور ہے۔
لیکن ٹھوس فتوحات کو حاصل اور مضبوط کرنے کے لئے تحریک کو منظم ہونا ہو گا۔۔گلی محلوں کی ریڈیکل تحریکیں ہمیشہ اپنی جمہوری تنظیمیں اور قیادتیں تشکیل دیتی ہیں جو تحریک کی قیادت اور رہنمائی کرتی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سرمایہ دارانہ اپوزیشن اس تحریک سے فائدہ اٹھانے کی بھرپور کوشش کرے گی۔ اگر وہ کامیاب ہو گئی تو بدمعاش لٹیروں کے ایک گروہ کی جگہ دوسرا گروہ آ جائے گا۔ محنت کشوں کو صرف اپنی قوت پر اعتبار کرنا ہوگا۔
قزاقستانی محنت کش طبقے کے اپنے تجربات بتاتے ہیں کہ خودرو منظم ہونے کی سب سے زیادہ فیصلہ کن، ثابت قدم اور طاقتور مثالیں خود محنت کش طبقے سے جنم لیتی ہیں۔ ہم اس کی مثال سال 2011ء میں ژاناؤژین شہر کی تحریک اور پچھلے سال کی ہڑتالی لہر میں دیکھ چکے ہیں جو اپنے مطالبات کا بیشتر حصہ جیتی ہیں۔ صرف محنت کش طبقے کی اقتدار کے لئے ایک حقیقی جدوجہد۔۔سیاسی اور معاشی۔۔ایک ایسے سماج کو جنم دے سکتی ہے جو استحصال اور جبر سے آزاد ہو۔۔ایک ایسا سماج جس میں محنت کش طبقے کی آسودہ زندگی اور عزت آفاقی ہو۔
قزاقستان کا انقلاب زندہ باد!
محنت کشو، قیادت خود اپنے ہاتھوں میں لو!
سوشلزم زندہ باد!