11، 12 مارچ 2023ء کو عالمی مارکسی رجحان (IMT) کے پاکستانی سیکشن، لال سلام نے ایوانِ اقبال سینٹرلاہورمیں اپنی چھٹی کانگریس کا انعقاد کیا۔ تباہ حال انفراسٹرکچر اور وحشیانہ کرپشن کی وجہ سے ایک ملک گیر اجلاس کے انعقاد کے راستے میں بے تحاشا انتظامی مسائل کے باوجود، یہ تاریخی کانگریس ایک شاندار کامیابی تھی۔
[Source]
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
لال سلام کی مرکزی قیادت نے اس تقریب کے لیے کئی مہینوں تک بڑی محنت سے تیاریاں کیں، جبکہ ملک کے کونے کونے سے کامریڈز نے بطور مندوبین شرکت کے لیے بے پناہ قربانیاں دیں۔ پاکستان اس وقت بحرانوں کے ایک طوفان سے دوچار ہے جن میں: بڑھتا ہوا معاشی بحران، سیلاب اور موسمیاتی تبدیلیوں کے دیگرشدید اثرات، اور سماجی اور سیاسی تنزلی کی سنگین صورتحال شامل ہیں۔ ان مشکل حالات میں ایک ملک گیر تقریب کا انعقاد تو دور، روز مرہ کی زندگی بسر کرنا بہت سے لوگوں کے لیے ناقابل تصور حد تک مشکل ہے۔
بہت سے کامریڈز نے صرف ایک طرف کا 20-40 گھنٹے کا سخت سفر طے کیا۔ ان تمام رکاوٹوں کے باوجود کامریڈز ہر ممکنہ کوشش سے شرکت کے لیے تیار تھے اور ان مباحثوں میں شرکت کے لیے پرجوش تھے، جو لال سلام کی بڑھوتری کیلئے اہم ہیں۔
ایک کامریڈ نے اپنی تین ماہ کی اجرت اکٹھی کرکے کانگریس میں شامل ہونے کیلئے اخراجات پورے کیے۔ یہ اس حقیقت کی عکاسی کرتا ہے کہ پاکستان کی معیشت کی تباہی اور آئی ایم ایف کی پالیسیوں کے نتیجے میں گزشتہ چند سالوں میں پاکستانی روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدرمیں 150 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ شروع سے ہی پروگرام کی منصوبہ بندی میں شدید مالی تناؤ ایک بنیادی مسئلہ تھا۔
کرپٹ سیاست دانوں، این جی اوز اور نام نہاد ’بائیں بازو‘ کے گروہوں کے لیے یہ عزم بالکل حیران کن ہے۔ وہ سمجھ ہی نہیں پاتے کہ ہم کیسے اپنی تمام سرگرمیوں کے فنڈز مارکسی نظریات سے لیس اور محنت کش عوام کی تاریخی تقدیر پر پختہ یقین کے ساتھ اپنے ممبران کی حمایت سے اکھٹا کرنے کے قابل ہیں۔
پاکستان بھر سے کل 270 کامریڈز نے اس کانگریس میں شرکت کی، جن میں 25 خواتین بھی شامل تھیں۔ ایک ایسے ملک میں جہاں خواتین کو سخت پابندیوں کا سامنا ہے، یہ ایک بڑی کامیابی ہے۔ مزدوروں کی بڑی تعداد نے شرکت کی جس میں پاکستان کی سب سے بڑی یونین، ہائیڈرو یونین (واپڈا) کے 25 محنت کش بھی شامل تھے۔ ہر شہر بشمول لاہور، کراچی، بلوچستان، سندھ، کشمیر، پشاور، ملتان اور گلگت سے پاک چین سرحد کے قریب شمال مشرق تک کے شرکاء موجود تھے۔ کانگریس نے طالبان کے آبائی علاقے وزیرستان کے ساتھیوں کا بھی گرمجوشی سے استقبال کیا جہاں کے لوگ 20 سالوں سے دہشت گردی کا شکار ہیں۔ امریکہ، کینیڈا، برطانیہ اور سوئزرلینڈ سے کامریڈز کا ایک بین الاقوامی وفد بھی موجود تھا۔ پاکستان اور اس سے باہر کے یہ تمام دلیر طبقاتی جنگجوعالمی سوشلسٹ انقلاب کے متحد مقصد کی خاطر اکٹھے ہوئے۔
پہلے دن کا جوش و خروش سے آغازکرتے ہوئے کانگریس کو عالمی مرکز سے انقلابی مبارکباد پیش کی گئی، جسے کامریڈ ایلن ووڈز نے ویڈیو لنک کے ذریعے پہنچایا۔ اگرچہ ایلن جسمانی طور پر کانگریس میں موجود نہیں تھے لیکن انہوں نے لال سلام کے انقلابی کام پر انٹرنیشنل کے ہر کارکن کے بے پناہ فخراوراس کی سرگرمیوں میں بڑی دلچسپی کا اظہار کیا جودنیا بھرمیں انقلابی تحریک کیلئے شکتی کا ذریعہ ہیں۔
پہلے سیشن کا آغاز عالمی تناظر پر بحث سے ہوا، جس پر لیڈ آف عالمی مارکسی رجحان کے بین الاقوامی رہنما حامد علی زادہ نے دی۔ حامد نے وضاحت کی کہ کس طرح صرف مارکسسٹ ہی تجزیوں، شواہد اور سنجیدہ نقطہ نظر کی بنیاد پر عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے زوال کی مناسب وضاحت کر سکتے ہیں، جسے تاریخ کے ایک انتہائی سنگین معاشی اور سماجی بحران کا سامنا ہے۔
دنیا کے تقریباً ہر ملک میں عوامی پیسے کا بڑے پیمانے پر انجیکشن ایک جلدباز فیصلہ تھا لیکن 2020ء کے بحران کا عملی طور پر ناگزیر ردعمل تھا۔ اب بے تحاشہ مہنگائی میں حکومتیں بڑھتی ہوئی قیمتوں کے خطرے پر قابو پانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ اپنے آپ میں، مہنگائی وہ ٹیکس ہے جو سرمایہ دارانہ منڈیوں کے افراتفری کے زیر تسلط دنیا میں زندہ رہنے کے لیے محنت کش طبقہ ادا کرتا ہے۔ نظام کے علاوہ ہر چیز کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے سرمایہ دار مالیاتی پالیسی کو سخت کرنے، تحفظاتی پالیسوں اور کٹوتیوں کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں تاکہ حکمران طبقے کے پیدا کردہ بحران کے لیے محنت کش طبقے سے دگنی قیمت ادا کروائی جائے۔
مزیدبراں، جغرافیائی سیاسی کشیدگی اور مسلح تنازعے عالمی سرمایہ دارانہ نظام میں مزید عدم استحکام پیدا کر رہے ہیں جو پہلے ہی تباہی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ موجودہ صورتحال کے تیز رفتاری سے انقلابی حالات کی جانب سفر کے بھرپور امکانات ہیں۔ حامد علی زادے کے بعد حاضرین نے بہترین سوالات کیے۔ حامد نے بحث کو سمیٹتے ہوئے کہا کہ تاریخ یہ سکھاتی ہے کہ انقلاب کی کامیابی کے لیے انقلابی قیادت کا پہلے سے تیار ہونا ضروری ہے۔ اور یہی آئی ایم ٹی کا ہدف ہے۔
دن کے دوسرے سیشن میں پاکستان تناظر پر بحث کی گئی جس پر کامریڈ آدم پال نے لیڈآف دی۔ پاکستانی معاشرہ تنزلی کا شکار ہے۔ ملک بھر میں معاشی بحران نے محنت کش عوام کو زندہ رہنے کیلئے روز مرہ کی ایک خوفناک جدوجہد میں دھکیل دیا ہے، جس کی وجہ سے معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ اس سارے عمل میں محنت کش طبقے کو تماش بین کی حد تک محدود کر دیا ہے جو فوری متبادل موجود نہ ہونے کی وجہ سے مشکلات کو مسلسل برداشت کر رہے ہیں۔ 2022ء میں مون سون کی وجہ سے ملک میں آنے والے سیلاب کے نتیجے میں ہزاروں افراد ہلاک ہوئے، لاکھوں افراد بے گھر ہوئے، اور ہزارہا ارب کے نقصانات ہوئے۔
اس بحران کے عالم میں حکمران طبقہ اور اس کے مختلف بازو بالکل بے کار ہیں اور ایک دوسرے کے خلاف بٹے ہوئے ہیں، گلیوں میں جنگلی کتوں کی طرح لڑ رہے ہیں، بلیک میلنگ، قتل و غارت، باہمی تہمتیں اور لامتناہی حربے استعمال کر رہے ہیں۔ دریں اثنا، افراط زر اب یقینی طور پر 31 فیصد کے سرکاری اعداد و شمار سے کئی زیادہ ہے اور حقیقت میں 40 فیصد سے بھی زیادہ ہے۔ ان حالات میں محنت کش طبقہ صرف اپنے آپ پر بھروسہ کر سکتا ہے۔ ہر طرف بیزاری کا ماحول ہے۔ چونکہ یہ ماحول عوامی بغاوتوں کی راہ ہموار کرتا ہے اور بالآخر غریبوں اور مظلوموں کی نئی تحریکیں شروع ہوتی ہیں، لہٰذا لال سلام کے کامریڈز آنے والی دھماکہ خیز انقلابی پیشرفت کا مقابلہ کرنے کے لیے فوری طور پر اپنی افواج تیار کر رہے ہیں۔
سیشن کا اختتام شاندار بحث اور حاضرین سے سوالات کے ساتھ ہوا۔ خلاصہ کرتے ہوئے، آدم نے کہا کہ’بائیں بازو‘ کے مبصرین اور ’نظریہ سازوں‘ کے مطابق، پاکستانی معاشرے کے لیے تمام امکانات ایک ہی تاریک امکان کی مختلف تشریحات ہیں کہ: معاشرے کا مکمل طور پر انہدام اور بربریت کا نزول۔ وہ کبھی عوام کے انقلاب کی بات نہیں کرتے! صرف عالمی مارکسی رجحان اس بارے میں بات کرتا ہے۔ ہمارا فریضہ ہے کہ ایک اتنے حجم کی تنظیم کی بنیاد رکھی جائے جو عوامی تحریک کو متوجہ کر سکے۔
کانگریس کے دوسرے دن کا آغاز ایک جدید کلاسیکی کتاب، ’بالشوازم: راہ انقلاب‘ کے ایک نئے اردو ایڈیشن کے اجراء پر سیشن سے ہوا۔ اس پر لیڈآف کتاب کے مترجم، کامریڈ یاسر ارشاد نے دی۔ انہوں نے کہا کہ روس کا انقلاب مارکسی نقطہ نظر سے انسانی تاریخ کا سب سے اہم واقعہ ہے۔ یہ محنت کش طبقے کے استحصالیوں سے اقتدار چھیننے، اسے برقرار رکھنے اور سوشلسٹ معاشرے کی تعمیر کے کام کا آغاز کرنے کی واحد تاریخی مثال ہے۔ پاکستان کی مشترکہ زبان میں اس کتاب کا ترجمہ–ایک ملک جو سرمایہ دارانہ اور قبل از سرمایہ دارانہ استحصال، قومی جبر اور اقتدار میں موجود آمرانہ عناصر کے خلاف جدوجہد کر رہا ہے–مارکسسٹوں کی نئی نسل کی تربیت کے لیے بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔
اگلے سیشن، تنظیمی رپورٹ پر لیڈآف لاہور سے کامریڈ آفتاب اشرف نے دی۔ تنظیم کی کامیابیوں کی فہرست میں آفتاب نے لال سلام کی سرگرمیوں اورنظریاتی مواد کی اشاعت اور ترویج کے بے مثال حجم کو بیان کیا۔ اس بحث میں ملک بھر میں مضبوط مقامی برانچوں کی اہمیت کو اجاگر کیا جو مسلسل ہماری طرف آنے والے رابطوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے ضروری ہیں۔ محنت کشوں اور نوجوانوں کی انقلابی نظریات میں گہری دلچسپی ہے، اور لال سلام کے ساتھیوں کے پاس عوام کی روز مرہ کی جدوجہد کو انقلابی مطالبات کے ساتھ جوڑنے کی مہمات کے منصوبے ہیں۔
ہمارا آخری سیشن مجموعی طور پر انٹرنیشنل کے کام کی رپورٹ پر مبنی تھا۔ سوئزرلینڈ سے مائیکل ویف، امریکہ سے جیک تھورپ اور کینیڈا سے اینا اعظم نے اپنے اپنے ممالک کے بارے میں رپورٹس سے ساتھیوں کو متاثر کیا۔
حتمی رپورٹ حامد علی زادہ نے دی جس میں دنیا بھر میں عالمی مارکسی رجحان کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ اور حجم کی تفصیل شامل تھی۔ انہوں نے وضاحت کی کہ بورژوا اور پیٹی بورژوا پارٹیوں میں ہر جگہ سیاہ ترین مایوسی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ بائیں بازو کی وسیع پرتوں میں مایوسی کا راج ہے۔ عالمی مارکسی رجحان، پاکستان اور دیگر ممالک میں، زمین پر موجود وہ واحد قوت ہے جو مسلسل انقلابی نظریہ رکھتی ہے، اور جو عزم اور اپنے چہرے پر مسکراہٹ لیے آگے بڑھ رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم انقلابی امید سے لبریز ہیں اور محنت کشوں اور نوجوانوں کی ایک ایسی پرت کو اپنی طرف متوجہ کر رہے ہیں جو مارکسزم کو معاشرے کے لیے ایک انسانی، عقلی مستقبل کی واحد امید تسلیم کرتے ہیں۔
روزا لکسمبرگ نے انسانیت کے سامنے کھڑے متبادل کا خلاصہ اس طرح کیا: سوشلزم یا بربریت۔ سوشلسٹ انقلاب کی تاخیر کی وجہ سے بربریت کے عناصر کئی جگہوں پر موجود ہیں۔ دنیا بھر اور پاکستان بھر سے مارکسسٹوں کا اجتماع کرہ ارض پر انتہائی تنزلی اور پسماندہ سرمایہ دار حکمرانوں کے ایک گروہ کے خلاف عالمی مارکسی رجحان کے کامریڈز کی یکجہتی اور سیاسی اتحاد کو ظاہر کرتا ہے۔ سوشلسٹ انقلاب پاکستان، جنوبی ایشیا اور دنیا بھر میں رجعتی قوتوں کا خاتمہ کرے گا۔ ان کے نظام کی راکھ پر ایک بہتر دنیا تعمیر ہوگی!