لاکھوں دستاویزات پر مشتمل 2.94 ٹیرا بائیٹس کا ڈیٹا لیک ہونے کے باعث 100 سے زائد ارب پتی، عالمی قائدین اور سرکاری عہدیداران کے بیرونِ ملک معاہدے اور اثاثے بے نقاب ہوئے ہیں۔ اس ڈیٹا سے حکمران طبقے کی دیوہیکل خونخواری کا پردہ چاک ہوا ہے، جن کی تقریباً 5.6 سے لے کر 32 ٹریلین امریکی ڈالر تک دولت بیرون ممالک میں موجود ہے۔
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
روسی اشرافیہ کو خصوصی طور پر بے نقاب کیا گیا ہے، جن کی تعداد ان دستاویزات میں 52 ہے اور ان کی خفیہ دولت سیکنڑوں ارب ڈالر پر مشتمل ہے۔ ان میں تیل کے شعبے سے وابستہ بڑی شخصیت لیونیڈ لیبیدیف شامل ہے، جو 2016ء میں خیانت کے الزامات لگنے کے بعد روس سے فرار ہوا تھا۔ ان میں امریکی نجی سرمایہ کار کمپنی ’ویزٹا ایکویٹی پارٹنرز‘ کا چیئرمین رابرٹ ایف سمتھ کا نام بھی شامل ہے، جس کے اوپر ٹیکس نہ ادا کرنے کی وجہ سے پچھلے سال 13 کروڑ 90 لاکھ ڈالر کا جرمانہ عائد ہوا تھا۔
سب سے بڑی ذخیرہ اندوزی میں سے ایک اردن بادشاہ عبداللہ دوم کی ہے، جس کی 10 کروڑ ڈالر کی ملکیت دستاویزات میں بے نقاب ہوئی ہے۔ ان بڑے کاروباری اشخاص اور آمروں کے ساتھ متعدد بڑے سیاستدانوں کے بارے میں انکشافات ہوئے ہیں۔ یہ اس بات کا اظہار ہے کہ سرمایہ داری کے نام نہاد جمہوری نمائندے بھی باقی حکمران طبقے کی طرح خونخوار ہیں۔
مثال کے طور پر چیک جمہوریہ کے وزیراعظم آندرے بابیش نے ٹیکس چوری اور معاشی فراڈ کے اوپر کریک ڈاؤن کرنے کا وعدہ کرتے ہوئے اقتدار سنبھالا، جس کا کہنا تھا کہ وہ ملک کو ایسا بنائے گا جہاں ”کاروبار شروع کرنے والے افراد بخوشی ٹیکس ادا کریں گے“۔ مگر لگ ایسا رہا ہے کہ جناب بابیش کو اپنے ہی اوپر کریک ڈاؤن کرنا پڑے گا، کیونکہ لیک ہونے والے دستاویزات سے معلوم ہوا ہے کہ اس نے کاغذی کمپنیوں کے ذریعے 2 کروڑ 20 لاکھ ڈالر ذخیرہ کر کے فرانسیسی ساحل پر محل خریدا۔
اس دوران کینیا کے صدر اہورو کینیاٹا کے بارے میں انکشاف ہوا ہے کہ وہ پاناما میں ایک خفیہ فاؤنڈیشن کا وارث ہے، جبکہ اس کا خاندان پانچ بیرونِ ملک کمپنیوں کا مالک ہے، جس کے اثاثے 3 کروڑ ڈالر سے زائد ہیں۔ یاد رہے کہ کینیا ایک ایسا ملک ہے جہاں غربت کی شرح 36 فیصد اور شدید غربت کی شرح 25 فیصد سے زائد ہے۔
نام نہاد پینڈورا پیپرز محض اسی بات کا انکشاف کرتے ہیں جو ہم پہلے سے جانتے ہیں؛ یعنی سب سے زیادہ دولت اور طاقت رکھنے والے افراد ہی سب سے زیادہ کرپٹ ہوتے ہیں۔ یہ بے شمار دفعہ ظاہر ہو چکا ہے کہ وہ ’اپنا‘ پیسہ اور مراعات کی حفاظت کرنے کیلئے کس حد تک جا سکتے ہیں، آخری دفعہ یہ 2017ء میں پیراڈائز پیپرز اور اس سے پہلے 2016ء میں پاناما پیپرز کے ذریعے ظاہر ہوا تھا۔
یقیناً یہ بوسیدہ سرمایہ دارانہ نظام امیروں کے لیے ’جنت‘ ہی تو ہے، جس میں وہ بیرونِ ملک خصوصی بینک اکاؤنٹس، ٹرسٹوں اور فاؤنڈیشنز کے ذریعے اپنی دولت خفیہ رکھ کر ٹیکس چوری کرتے ہیں۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ ان اقدامات میں سے کئی کو رسمی طور پر مکمل ’قانونی‘ حیثیت حاصل ہے۔ یہ نظام امیروں کا جانبدار ہے، جو اب بھی خود کو مزید امیر بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔
مختصر یہ کہ مسئلہ ان دستاویزات میں شامل افراد تک محدود نہیں ہے۔ سرمایہ دارانہ سماج کا پورا اوپری طبقہ اس قسم کی دھوکہ دہی اور غلیظ معاہدوں سے بھرا پڑا ہے۔ یہ انکشافات ایک ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب بحران کے شکار محنت کشوں اور نوجوانوں کو سرمایہ داری کچھ نہیں دے پا رہی، جبکہ امیر طبقہ اپنے کروڑوں مالیت کے گھروں میں مزے کی زندگی گزار رہا ہے۔
برطانیہ
دولت کی اس خفیہ ذخیرہ اندوزی میں برطانیہ سب سے اہمیت کا حامل ہے۔ مثال کے طور پر، بیرونِ ملک کمپنیوں کے ذریعے 1 ہزار 500 برطانوی پراپرٹیوں کی فروخت کا انکشاف ہوا ہے۔ اس طریقے سے امیر ترین سرمایہ کار اپنی دولت خفیہ رکھنے کے اہل رہے ہیں، جو خفیہ طور پر پراپرٹیوں میں سرمایہ کاری کرتے ہوئے ریئل اسٹیٹ کے اثاثے خریدتے ہیں۔ امیروں کے نزدیک لندن کی پراپرٹی مارکیٹ اضافی پیسہ محفوظ رکھنے کی ایک محفوظ جگہ ہے۔ دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ لندن شہر اشرافیہ، منی لانڈرنگ کرنے والے مجرموں اور کرپٹ سیاستدانوں کے لیے کھیل کا میدان ہے۔
ان میں قطر کے حکمران خاندان سے تعلق رکھنے والوں، جنہوں نے بیرونِ ملک کمپنیوں کے ذریعے لندن میں دنیا کے مہنگے ترین گھروں میں سے دو خریدتے ہوئے کروڑوں کی ٹیکس بچت کی، کی طرح بڑے بڑے اشخاص شامل ہیں۔
ان خونخواروں میں سے کئی وہی افراد ہیں جو حکمران کنزرویٹیو پارٹی کو فنڈ دیتے ہیں۔ مثلاً محمد امرسی، ٹوری پارٹی کو فنڈ دینے والی معروف شخصیت، جو کوٹس وولڈز میں حویلی اور لندن کے مہنگے علاقے میفیئر میں گھر کا مالک ہے، جس نے یہ دونوں بیرونِ ملک کمپنیوں کے ذریعے حاصل کیا۔ اسی طرح، سابقہ بینکار اور سابقہ روسی نائب وزیرِ خزانہ کی بیوی لوبوف چیرنوخین نے 2012ء سے اب تک ٹوری پارٹی کو 1 کروڑ 80 لاکھ پاؤنڈ عطیہ کیے ہیں، جو لندن میں گھر اور دیہات میں حویلی کی مالک ہے۔
ان عطیات کی وجہ محض سخاوت نہیں ہے بلکہ یہ ایک طرح سے ٹوری پارٹی کو دی جانے والی رشوت ہے، جس کے بدلے وہ اپنے عزیزوں کے لیے ایسی پالیسیاں بناتے ہیں جس کے ذریعے ان کی غلط طریقے سے حاصل شدہ دولت محفوظ رہتی ہے، جیسا کہ ان کی مرضی کے مطابق ٹیکس لگانا اور نرم مالیاتی قوانین۔ ان کے کاروباری مفادات کے لیے انتہائی منافع بخش حکومتی معاہدوں کے مواقع مہیا کرنا اس کے علاوہ ہیں۔ سرمایہ دار طبقہ اور حکومت میں موجود ان کے نمائندے آپس میں گہرا یارانہ رکھتے ہیں۔
دستاویزات میں متعدد برطانوی کاروباری اشخاص کے نام بھی شامل ہیں، جن کی کمپنیوں کی کھلے عام بد نظمی کا ان کی ذاتی پُر تعیش زندگی پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ مثلاً پینڈورا پیپرز سے انکشاف ہوا ہے کہ پرچون کی بڑی شخصیت فلپ گرین اور اس کی بیوی مہنگی پراپرٹی پر پیسے اڑاتے رہے، جبکہ ان کی پرچون کا کاروبار ’بی ایچ ایس‘ بڑے قرضوں تلے دب گیا اور اس کی پنشن کا فنڈ بھی پورا نہیں ہو رہا۔ وہ اپنے مہنگے نئے گھر کے لیے فرنیچر خریدتے رہے جبکہ ’بی ایچ ایس‘ کے 11 ہزار ملازمین بے روزگاری اور بے یقینی کی حالت میں دھکیلے گئے۔
ظاہر ہے کہ انہوں نے یہ خریداری خفیہ طور پر بیرونِ ملک فنڈ کے ذریعے کی، جس کی ملکیت کا انکشاف پیپرز میں محترمہ ’خاتون‘ اور ’سر‘ گرین کے بارے میں ہوا۔ ایک سال بعد انہوں نے سخاوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی بیٹی کے لیے قریب میں 1 کروڑ 60 لاکھ پاؤنڈ کا گھر خریدا، جبکہ ارکاڈیا گروپ (جو پرچون کی بڑی دکانوں بشمول ٹاپ شاپ کا مالک ہے) نے نومبر 2020ء میں کاروبار چلانا چھوڑ دیا، جس کی وجہ بڑے قرضے اور دیوہیکل پنشن خسارہ تھا۔
امیر ترین افراد باقی لوگوں سے مختلف کائنات میں رہتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ حتیٰ کہ جب ان کی کمپنیاں ہزاروں محنت کشوں کو شدید غربت میں دکھیلتے ہوئے منہدم ہو رہی ہوتی ہیں، تب بھی یہ موٹے خنزیر عیاشی میں مگن ہوتے ہیں۔
البتہ دستاویزات میں محض ٹوری پارٹی کو عطیات دینے والے امیر افراد اور کرپٹ کاروباری شخصیات شامل نہیں۔ پینڈورا پیپرز میں سرمایہ دار طبقے کے کرپٹ نمائندے اور لیبر پارٹی کے سابقہ قائد ٹونی بلیئر کا نام بھی شامل ہے۔
وہ اور اس کی بیوی چیری اس بات پر مصر ہیں کہ انہوں نے لاکھوں پاؤنڈ کی پراپرٹی ”قانونی طریقے“ سے خریدی اور ”اپنے اخراجات کو چھپانے یا ٹیکس چوری کی غرض سے بیرونِ ملک کمپنیوں کا استعمال کبھی نہیں کیا۔“ مگر پیپرز کے انکشافات کے مطابق بلیئرز نے ٹیکس چوری کرتے ہوئے میریلیبون میں موجود مہنگے گھر کی خریداری میں 3 لاکھ 12 ہزار پاؤنڈ کی بچت کی۔ انہوں نے گھر کی ملکیت رکھنے والی کمپنی کو خریدتے ہوئے ایسا کیا۔ کوئی بھی عام محنت کش کے سامنے یہ واضح ہے کہ یہ فراڈ کا ایک طریقہ ہے۔
یہ فہرست کافی طویل ہے۔ اس درجے کی لالچ اور ہوس سے سرمایہ داری کے گہرے بحران کا اظہار ہوتا ہے۔ بورژوا طبقہ سماج کو آگے لے جانے کا اہل نہیں ہے۔ اپنی خونخواری کے باعث وہ انسانی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن چکا ہے، جو انسانیت کی بہتری کی خاطر پیداوار کو ترقی دینے کے لیے سرمایہ کاری کرنے کی بجائے پیسے کے بڑے بڑے ذخائر کے اوپر بیٹھے رہتے ہیں۔
پینڈورا باکس
وکلاء، جج اور نام نہاد ’محترم‘ سیاستدان (جن کا نام دستاویزات میں شامل نہیں) سارے اس معاشی سکینڈل میں برابر کے شریک ہیں۔ ریاست انصاف اور برابری کے لیے کوشاں سماج کے اوپر موجود غیر جانبدار ثالث نہیں، بلکہ یہ سرمایہ دار طبقے کے مفادات کی نمائندہ ہے۔
حکمران طبقہ مصنوعی غصّہ دکھا کر اس بات کو خفیہ رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ مثال کے طور پر امریکی صدر جو بائیڈن نے ’مہربانی کرتے ہوئے‘ عالمی مالیاتی نظام کو شفاف بنانے کا وعدہ کیا۔ بد قسمتی سے پینڈورا پیپرز میں امریکہ ٹیکس چوری کے مرکز کے طور پر سامنے آیا ہے، جو سرمایہ دار طبقے کی مدد کرتے ہوئے انہیں اپنی دولت کی محفوظ اور خفیہ سرمایہ کاری کے مواقع فراہم کرتا ہے۔ مثلاً ساؤتھ ڈکوٹا کی ریاست میں لوگ ٹرسٹ فنڈ میں اپنی دولت ڈال کر ٹیکس سے بچ سکتے ہیں، جس کا نتیجہ 2020ء کے آخر میں 367 ارب ڈالر کے خفیہ اثاثوں کی صورت میں نکلا۔
بورژوا قانون کے اصول چور راستے فراہم کرتے ہوئے اس عمل کو مزید آسان کر دیتے ہیں، جو کسی بھی معقول شاہد کو معاشی فراڈ ہی نظر آئے گا۔ امریکہ کی سب سے بڑی لاء فرم بیکر میکنزی کا دولت خفیہ رکھنے میں بڑا کردار ہے، جو ٹیکس چوری اور تحقیقات سے بچنے میں امیروں کی مدد کرتی ہے، حتیٰ کہ ان کے خلاف قانونی کارروائی ہونے کی صورت میں ان کا دفاع بھی کرتی ہے۔
سرمایہ دارانہ ریاست یقیناً کرپشن اور دھوکہ دہی سے بھرا پینڈورا باکس ہی ہے۔ یہ کوئی حادثہ نہیں۔ یہ سرمایہ داروں کے سوچے سمجھے فیصلے ہیں، تاکہ وہ تمام حربوں کا استعمال کرتے ہوئے اپنی مراعات میں اضافہ کر سکیں۔ یہ واضح ہے کہ ٹیکس چوری جیسے اقدامات کے خلاف نئے قوانین اور اصلاحات متعارف کروانے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا، امیر طبقہ فرار اختیار کرنے کے لیے ہمیشہ کوئی چور راستہ ڈھونڈ نکالے گا۔
منافقت کا مظاہرہ حیران کن ہے۔ سرمایہ دار طبقہ اور اس کے سیاسی نمائندے کٹوتیوں، آسٹیریٹی اور نجکاری کے ذریعے غریبوں اور محنت کش طبقے کے اوپر حملے جاری رکھیں گے، جبکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنی دولت اور مراعات کی حفاظت کے لیے کسی بھی حد تک جائیں گے۔
مثال کے طور پر برطانیہ میں ٹوری پارٹی کی کانفرنس جاری ہے، جہاں وزیراعظم بورس جانسن نے یونیورسل کریڈٹ (کم اجرتوں پر کام کرنے والوں کو دی جانے والی امداد) میں ہفتہ وار 20 پاؤنڈ کٹوتی کا اعلان کیا، جس کا کہنا تھا کہ شعبہ صحت کو چلانے کے لیے ٹیکس بڑھوتری لازم ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ٹوری پارٹی بڑے بڑے عطیات دینے والی شخصیات پر کوئی بیان جاری نہیں کرے گی، جن کے متعلق پینڈورا پیپرز میں ٹیکس چوری کا انکشاف ہوا ہے۔
آج خونخوار امیر طبقے کے اوپر داغ لگ چکا ہے مگر وہ 2016ء اور 2017ء کی طرح غصّہ ٹھنڈا ہونے کا انتظار کریں گے اور پھر اسی طرح اپنا کام جاری رکھیں گے۔ یہ برداشت کرنے کے قابل نہیں ہے۔ دولت کے اس انبار۔۔۔جو مزدوروں کی محنت کی پیداوار ہے، جس پر سرمایہ دار استحصال کے ذریعے قبضہ کرتے ہیں، اور سرمایہ کاری کے ذریعے اس کا جوا کھیلتے ہوئے ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں۔۔۔پر محنت کشوں کو قبضہ کر کے مزدوروں کے اختیارات کے تحت چلنے والے سماج میں اسے ضروریات پورا کرنے کے لیے استعمال کرنا پڑے گا۔
چھوٹی اقلیت کی دیوہیکل کرپشن اور ہوس کا خاتمہ سرمایہ داری کا تختہ الٹ کر ہی ممکن ہے، تب ہی اکثریتی انسانیت کی غربت اور اذیتوں کا خاتمہ کیا جا سکے گا۔