سری لنکا میں ملک گیر عوامی تحریک کا آغاز ہوئے ایک مہینہ گزر گیا ہے، جس نے حکمران طبقے کو صدمے میں مبتلا کر دیا ہے۔ اس تحریک نے قابلِ تعریف ثابت قدمی دکھائی ہے۔ نہ مون سون کی بارشیں، نہ سنہالی نئے سال کی تقریبات، اور نہ ہی ہر ممکن حربے سے واقف حکومت کی چالیں عوام کے غصّے کو ٹھنڈا کر سکی ہیں۔ مگر اس کے باوجود صدر گوٹابیا راجاپکشا اقتدار پر سختی سے قابض ہے، جس کی موجودگی عوام کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔
[Source]
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
محنت کشوں کو مفاہمت اور سمجھوتے کے سب دروازے بند کرنے ہوں گے۔ ٹریڈ یونین قائدین نے 28 اپریل کو کہیں جا کر ہڑتال کی کال دی، وہ بھی محض ایک دن کی۔ ہڑتال کی کال چاہے جتنی بھی کمزور تھی، محنت کشوں نے جوش و خروش سے اس کا جواب دیا، جنہوں نے دنیا کے سامنے اپنی دیوہیکل قوت کی ایک جھلک دکھائی۔
’گو گوٹا گو‘ گاما
اس بات پر نظرِ ثانی کرنا ضروری ہے کہ سری لنکا میں حکومت مخالف تحریک کیسے پروان چڑھی اور اس میں کیا مطالبات رکھے گئے ہیں۔
ایک ماہ قبل، 31 مارچ کو، کسی پارٹی یا منشور کے بغیر، سری لنکا کے دار الحکومت کولمبو کے عوام اپنے شدید غم و غصّے کا اظہار کرنے کے لیے سڑکوں کے اوپر خود رو طور پر نکل پڑے۔ راجاپکشا حکومت نے جبر کے ذریعے جواب دیا۔ مگر تحریک پیچھے ہٹنے کی بجائے ملک گیر سطح پر پھیل گئی اور حکومت مفلوج ہو کر رہ گئی۔ مختصر عرصے کے لیے نافذ کی گئی ایمرجنسی کو برقرار نہیں رکھا جا سکا اور حکمران طبقہ شدید پریشانی میں مبتلا ہو گیا۔
اس کے بعد احتجاجوں کا سلسلہ وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا، اور 9 اپریل کو ہونے والے مارچ سے تحریک فیصلہ کن موڑ پر پہنچ گئی۔ کولمبو سمیت دیگر علاقوں سے عوام دارالحکومت میں موجود گیل فیس گرین نامی پارک میں جمع ہو گئے، جو ساحلی علاقے پر صدر کے دفتر کے پاس واقع ہے۔ یہ بہت بڑا احتجاج تھا۔ اس میں 1 لاکھ سے زائد افراد نے شرکت کی، جو طاقت کا بہت بڑا مظاہرہ تھا کیونکہ کولمبو کی آبادی 7 لاکھ ہے اور سری لنکا کی مجموعی آبادی 2 کروڑ 20 لاکھ ہے، جس کی اکثریت دیہی اضلاع میں رہتے ہیں۔
9 اپریل کی رات مظاہرین نے منتشر ہونے کی بجائے وہاں خیمے لگا کر اپنی رہائش کا انتظام کر لیا۔ اس جگہ کو ’گوٹا گو گاما‘ (گو گوٹا گو گاؤں) کا نام دیا گیا، جو تحریک کا مرکزی مقام بن چکا ہے، بالکل ایسا ہی جیسا قاہرہ کا تحریر چوک 2011ء میں مصری عوام کی خود رو تحریک کا مرکز بن گیا تھا۔
گوٹا گو گاما میں شدید جوش و جذبہ دیکھنے کو ملا ہے اور تحریک، جس کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل ہے، نے عوام کو اپنی مشترکہ جدوجہد کی طاقت کا احساس دلایا ہے۔ جب بھی راجاپکشا حکومت نے ملک کی اکثریتی سنہالہ بدھ مت آبادی کو تامل، مسلمان اور عیسائی اقلیتوں کے خلاف بھڑکا کر نسل پرستانہ تقسیم کرنے کی کوشش کی ہے، عوام نے اپنا اتحاد مضبوطی سے قائم رکھتے ہوئے اس کے اس زہر کو سختی سے مسترد کیا ہے۔ ملک کے ہر کونے میں سماج کی تمام پرتیں ایسے تحریک میں شامل ہوئی ہیں جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔
گیل فیس کے مقام پر ہونے والے مستقل احتجاجوں میں شام کے وقت تین ہفتوں تک مسلسل شرکاء کی تعداد 40 سے 50 ہزار تک رہی ہے۔ محنت کش طبقہ بھی اس تحریک کے اندر بڑی تعداد میں شریک ہو رہا ہے، مگر جب تک ٹریڈ یونینز مکمل ہڑتال کی کال نہ دیں، وہ اس میں اپنے اوقاتِ کار کے بعد ہی شرکت کر سکتے ہیں۔
چنانچہ محنت کش طبقے کے بیچ غم و غصّہ اور لڑاکا پن موجود ہونے کے باوجود، گوٹا گو گاما کے مقام پر درمیانے طبقے کا عنصر حاوی رہا ہے۔ طلبہ نے شروع دن سے قائدانہ کردار ادا کیا ہے۔ وکلاء نے بھی عدالتوں میں حکومت کو پریشان کر کے، مظاہرین کی مفت قانونی مدد کر کے اور اپنے احتجاج منظم کر کے اس تحریک میں اعلیٰ کردار ادا کیا ہے۔ یہاں تک کہ کئی مواقعوں پر پولیس نے بھی مظاہرین کے ساتھ بھائی چارہ قائم کیا ہے اور میگافون پر ان کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔
اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں کہ درمیانہ طبقہ اس طرح سے تحریک میں شامل ہوا ہے؛ مہنگائی، لوڈ شیڈنگ اور اشیاء کی قلت سماج کی غریب پرتوں کی طرح درمیانی پرتوں کو بھی کچل رہی ہے۔
سری لنکا کے کامریڈز کے مطابق، صورتحال یہاں تک جا پہنچی ہے کہ درمیانے طبقے کے صارفین رکھنے والی سپر مارکیٹیں اب آگ جلانے کی لکڑیاں بیچ رہی ہیں۔ ماضی میں، درمیانہ طبقہ کھانا پکانے کے لیے گیس کا استعمال کیا کرتا تھا۔ گیس کی عدم دستیابی کے باعث وہ مٹی کے تیل کا استعمال کرنے لگے۔ مٹی کے تیل کی عدم دستیابی کے بعد وہ بجلی کا استعمال کرنے لگے۔ مگر اب لوڈ شیڈنگ کے دورانیے اتنے طویل ہو گئے ہیں کہ اچھے خاصے خاندانوں سے تعلق رکھنے والے بھی لکڑیوں پر کھانا پکانے پر مجبور ہیں۔
عام ہڑتال
تحریک کو جس مسئلے کا سامنا ہے وہ یہ ہے کہ اگرچہ درمیانہ طبقہ بھی معاشی بحران میں کچلا جا رہا ہے مگر وہ عوام کو بحران سے نکالنے میں فیصلہ کن کردار ادا نہیں کر سکتا۔
اور نہ ہی اکیلے طلبہ یہ کردار ادا کرنے کے اہل ہیں۔ وہ یقیناً تحریک میں انقلابی اور بائیں بازو کے نظریات لا کر عمل انگیز کا کام کر سکتے ہیں، مگر سماج میں ان کی حیثیت فیصلہ کن قوت کی نہیں ہے۔ محض منظم محنت کش طبقہ، جو اقتدار کے تمام سیاسی و معاشی مراکز میں موجود ہے، جن کے پاس اجتماعی عمل کی دیوہیکل طاقت ہے، ہی پیداوار کو منجمد کرتے ہوئے حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے کا اہل ہے۔
مزید برآں، سری لنکا کے بحران کی وجہ محض راجاپکشا خاندان نہیں ہے۔ وہ محض مسئلے کا ایک جزو ہیں۔ وہ محض سری لنکن سرمایہ داری کی بوسیدگی کا غلیظ ترین اظہار ہے۔ یہ سرمایہ دارانہ بحران ہے، اور محض محنت کش طبقہ ہی نجات کا راستہ فراہم کر سکتا ہے۔ پوری تاریخ سے ظاہر ہوتا ہے کہ درمیانا طبقہ، جو سرمایہ داروں اور محنت کش طبقے کے بیچ کی پرت ہوتی ہے، اپنے طور پر آزادانہ طبقاتی کردار ادا نہیں کر سکتا۔
تحریک میں موجود الجھن کو دور کرتے ہوئے اسے واضح طبقاتی عنصر سے لیس کرنے، اور حکومت کے اوپر مہلک وار کرنے کے لیے محنت کش طبقے کو فیصلہ کن طور پر میدان میں اتر کر تحریک کی قیادت سنبھالنی پڑے گی۔ 28 اپریل کی عام ہڑتال میں بھی یہی مسائل تھے۔ طبقاتی غصّے کی طوفانی لہروں کو قدامت پسند ٹریڈ یونین قائدین روک کر رکھے ہوئے ہیں۔ یہ ’قائدین‘ سری لنکن محنت کش طبقے کی دیوہیکل قوت کو کھلا چھوڑنے کے خیال سے بھی خوفزدہ ہیں۔
عوام کے ایک ماہ تک مسلسل متحرک ہونے کے بعد، 1 ہزار ٹریڈ یونینز کے اتحاد نے بالآخر 28 اپریل کو ایک روزہ علامتی ہڑتال کی کال دی۔
موجودہ صورتحال میں جب عوام اتنی بیتاب ہے اور حکومت بہت کمزور ہے، اس قسم کی کال سے بہت آگے کا قدم لینے کی ضرورت ہے۔ موجودہ صورتحال مکمل ہڑتال کا تقاضا کر رہی ہے تاکہ حکومت کو گرایا جا سکے۔ کئی جگہوں پر تو اس کال کے جواب میں دن بھر ہڑتال بھی نہیں کی گئی۔ کئی جگہوں پر محنت کشوں سے ہڑتال کی اپیل کرنے کی بجائے انہیں کہا گیا تھا کہ بیماری کی چھٹی لے لیں۔ اور ہڑتال کی علامتی نوعیت کے باعث ڈاکٹر، نرسز اور شعبہ صحت کے محنت کشوں نے احتجاج میں شریک ہونے کے لیے محض دو گھنٹے نکالے تاکہ اپنی ضروری خدمات کو جاری رکھ سکیں۔
بہرحال، یونین قائدین کی ٹال مٹول کے باوجود ہڑتال کی کال دینے سے ظاہر ہوتا ہے کہ یونینز کے اندر ذیلی سطح پر متحرک ہونے کی شدید خواہش پائی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ حکومتی پارٹی سری لنکا پیپلز فرنٹ سے منسلک یونینز نے بھی اپنے ممبران کو کال دی! اور ہڑتال نے تحریک کے سامنے اس دیوہیکل پنہاں قوت کا مظاہرہ کیا جو محنت کش طبقے کے اندر موجود ہے۔
پوسٹل سروس، ہسپتالوں، بینکوں، یونیورسٹیوں، سکولوں، ریلوے، چائے کے کھیتوں سے وابستہ اور کئی دیگر شعبہ جات کے محنت کشوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ کولمبو کے اندر پیٹاہ کے علاقے کا بازار مکمل خالی ہو گیا تھا۔ اسی طرح ملک کے دیگر علاقوں میں بھی تاجروں اور کسانوں نے ہڑتال میں شرکت کی۔
کیٹونایک، اواری وتے اور کوگالا کے ساحلی قصبوں کے اندر انتہائی استحصال کے مراکز فری ٹریڈ زون میں بھی ہڑتال اور عوامی مظاہرے دیکھنے کو ملے، جہاں خواتین کی اکثریت پر مشتمل محنت کش برآمدات کے لیے کپڑے کا کام کرتے ہیں۔
ٹینگال (جنوب میں موجود گوٹا کا گڑھ) سے لے کر جفنا (شمال کے تامل اکثریتی علاقے میں واقع) تک محنت کش بڑی تعداد میں نکل آئے اور مرکزی احتجاجوں کے اندر شرکت کی، جہاں ان کا زبردست خیر مقدم کیا گیا۔
حکمران طبقے کی پھوٹ
ان احتجاجوں کے حجم نے ابھی سے حکمران طبقے کے بیچ شدید داراڑیں ڈال دی ہیں۔ تحریک کے پہلے دنوں کے دوران صدمے کی حالت میں اپنے سیاسی کیریئر بچانے کی امید میں پوری حکومتی کابینہ مستعفی ہو گئی اور 42 ممبرانِ پارلیمنٹ نے راجاپکشا کے اتحاد کو خیرباد کہہ دیا۔
گوٹا آخرکار نئی کابینہ بنانے میں کامیاب ہو گیا، مگر عوام کی خوشنودی کی کوشش میں اس نے اپنے خاندان والوں اور قریبی اتحادیوں کو دور رکھا۔ مگر عوام نے اس اقدام سے خوش ہونے کی بجائے یہ محسوس کرنا شروع کیا کہ یہ (علامتی) کامیابی ان کی اپنی طاقت کا اظہار ہے۔ انہیں اب احساس ہو رہا ہے کہ وہ حکومت کو گرانے کی قوت رکھتے ہیں۔
حتیٰ کہ بدھ اسٹ مذہبی اشرافیہ، جس نے بدھ اسٹ شاؤنزم کا سہارا لینے والی حکومت کے شانہ بشانہ کام کیا ہے اور جو اب عوام کے نزدیک حکومت کی طرح ہی نفرت انگیز ہے، بھی حکومت کے اعلیٰ عہدوں میں تبدیلی کی بات کر رہی ہے!
حکمران طبقے کی اکثریت نے فیصلہ کیا ہے کہ گوٹا بہت بڑی رکاوٹ بن چکا ہے۔ وہ عوام کے غم و غصّے کا مرکز ہے، اور جب تک سڑکوں کے اوپر عوام موجود ہیں، حکمران طبقہ خود کو محفوظ محسوس نہیں کرے گا۔ مگر گوٹا، جس کو اسی حکمران طبقے نے اقتدار دلایا تھا، اپنی قربانی پر رضامند نہیں ہے۔ اس نے سختی سے اقتدار کو مٹھی میں پکڑا ہوا ہے۔ اور سری لنکا کا آئین ایک ایسے صدر کو برطرف کرنا بہت مشکل بنا رہا ہے جو اپنی برطرفی پر راضی نہ ہو۔
وہ اور اپوزیشن دونوں ایک چیز کے حوالے سے ایک پیج پر ہیں: دونوں ہی عوام کو سڑکوں سے ہٹانا چاہتے ہیں۔ حتیٰ کہ یہ افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ گوٹا اپنے وزیراعظم بھائی کو برطرف کرنے پر غور کر رہا ہے۔ اگر وہ یہ ڈراما رچا بھی لے، تب بھی عوام پیچھے نہیں ہٹنے والے۔ مگر اس قسم کی افواہوں سے راجاپکشا کے خاندان تک حکومت کی آپسی دراڑوں کا اظہار ہوتا ہے۔ گوٹا کے پاس پرتشدد جبر کا ہی راستہ بچا ہے، اور اس مقصد کے لیے اس نے فوج کو گولیاں چلا کر سڑکوں پر سے عوام کو ہٹانے کے اختیارات دے دیے ہیں۔
جیسے ہی تحریک تھمنے کی طرف جائے گی، راجاپکشا حکومت اپنا بدلہ ضرور لے گی۔ حکومت کی جانب سے عوام پر گولیاں چلانے کی دھمکیاں کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔ گوٹا گو گاما کے مقام پر مظاہرین نے ماضی میں راجاپکشا حکومت کے ہاتھوں مارے جانے والوں کی تصاویر لگائی ہیں، جن میں 2005ء سے 2015ء تک راجاپکشا کی پچھلی حکومت میں قتل کیے جانے والے صحافیوں کی لمبی فہرست شامل ہے۔ اور تحریک شروع ہونے کے بعد 19 اپریل کو پہلی دفعہ پولیس کے ہاتھوں قتل کے واقعات سامنے آئے۔
آئی ایم ایف کا معاہدہ؟
حکومت اور ایس جے بی کی سربراہی میں موجود سرمایہ دارانہ اپوزیشن، دونوں ہی عوام کو سڑکوں سے ہٹانا چاہتے ہیں۔ اپوزیشن احتجاجیوں پر جبر کرنے کی بجائے انہیں لالی پاپ دینے کے آپشن پر زور دے رہی ہے، کیونکہ اسے لگتا ہے کہ جبر کے نتیجے میں عوام مزید غصے میں چلے جاتے ہیں۔
بہرحال جو بھی طریقہ اپنایا جائے، پورا کا پورا حکمران طبقہ ’نظم و ضبط‘ کی بحالی پر متفق ہے۔ انہیں ایسی با اختیار حکومت کی سخت ضرورت ہے جو ملک کے سامراجی قرض دہندگان سے بیل آؤٹ لینے کا زیرِ التواء فریضہ ادا کر سکے۔ اشیاء کی شدید قلت اور لوڈ شیڈنگ نے محض سری لنکا کے عوام کی زندگی اجیرن نہیں کی ہے بلکہ وہ سرمایہ داروں کے کاروبار، یعنی منافعے کمانے میں بھی شدید خلل کا باعث بن رہی ہیں۔
اس مقصد کے لیے لمبے عرصے تک چین، بھارت اور آئی ایم ایف کے بیچ ہچکولے کھانے کے بعد، موجودہ حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ بیل آؤٹ کے لیے مذاکرات شروع کر دیے ہیں۔ جاری ہونے والے چند بیانات سے اس معاہدے کی وضاحت ہوتی ہے۔
یہ مفت کا پیسہ نہیں ہوگا۔ آئی ایم ایف نے وضاحت کی ہے کہ وہ تب ہی بیل آؤٹ دینے کو تیار ہوگا ”جب قرض لوٹانے کی مناسب یقین دہانی کروائی جائے گی“۔ اس کا کیا مطلب ہے؟
اس کا مطلب یہ ہے کہ چاہے راجاپکشا رہے یا نہ رہے، حکومت کو قرض لوٹانے کے انتظامات کرنے پڑیں گے۔ جس کا نتیجہ عوام دشمن پالیسیاں لاگو کرنا ہوگا۔
ٹیکس کو بڑھایا جائے گا اور حکومتی اخراجات میں کمی کی جائے گی۔ تیل اور بجلی کی سبسڈی کو ختم کیا جائے گا، اور عوام کو کچلنے والی موجودہ قیمتوں کو مزید بڑھایا جائے گا۔ روپے کی قدر میں تیز گراوٹ دیکھنے میں آئے گی، جس کے باعث برآمدات سستی (جو سرمایہ داروں کے لیے خوشخبری ہے) اور درآمدات مزید مہنگی ہوں گی، جس سے عوام کا معیارِ زندگی مزید گرے گا۔
ہمارے سامنے یہ بات واضح ہونی چاہیے: ”معاشی اعتماد کی بحالی“ کے لیے آئی ایم ایف کا معاہدہ اور کسی قسم کا معاشی توازن محنت کشوں، غریبوں اور درمیانے طبقے کو نشانہ بنائے گا۔ راجاپکشا سے لے کر عوامی جدوجہد کے ساتھ ہمدردی کا ناٹک کرنے والی کمپنیوں تک، حکمران طبقے کے سارے دھڑے اسی چیز کی تگ و دو میں ہیں۔
مکمل ہڑتال
اب سوال یہ ہے کہ آگے کیا کِیا جائے؟
یہ واضح ہے کہ ٹریڈ یونین قائدین کو عام محنت کشوں کی جانب سے شدید دباؤ کا سامنا ہے، اور مکمل ہڑتال کی طرف بڑھنے کا سوال جنم لے رہا ہے، جیسا کہ سری لنکن محنت کش طبقے کی جرات مند روایات رہی ہیں، مثال کے طور پر 1953ء کی ہڑتال۔
ٹریڈ یونین قائدین اب 6 مئی سے بڑا قدم اٹھانے کی باتیں کر رہے ہیں، مگر اس کا مطلب غیر واضح ہے۔ مگر حقیقی معنوں میں اگر ہڑتال کا آغاز ہو گیا تو اس سے اقتدار کا سوال جنم لے گا۔ اس سے حکومت گرانے کی جدوجہد کے لیے راہ ہموار ہوگی۔
مگر یونینز اس کی بجائے کیا کرنا چاہیں گی؟ ہیلتھ کیئر ورکرز کے قائد روی کمدیش نے ہڑتال کرنے والی کچھ یونینز کی جانب سے کہا:
”اگر صدر اور حکومت عوام کی بات نہ سنتے ہوئے ایک ہفتے کے اندر اندر مستعفی نہ ہوئے تو یہ یونینز مسلسل ہڑتال کرتی جائیں گی۔ صدر اور حکومت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ان کا مزید کوئی جواز باقی نہیں رہا۔ انہیں مستعفی ہو کر ان لوگوں کو اقتدار دینے کی ضرورت ہے جن پر عوام اعتماد کرتے ہیں۔“
مگر اس کا کیا مطلب ہے؟ عوام کن کے اوپر اعتماد کر رہے ہیں جنہیں حکومت کو اقتدار دینے کی ضرورت ہے؟ ”گو گوٹا گو“ اور ”گو راجاپکشا گو“ کے ساتھ ساتھ عوام نے کثرت سے تمام ممبرانِ پارلیمنٹ کے حوالے سے ”گو 225 گو“ کا نعرہ بھی بلند کیا ہے۔ بہ الفاظِ دیگر، عوام کی اکثریت پارلیمنٹ میں موجود کسی بھی پارٹی، گروہ یا شخص کے اوپر اعتماد نہیں کرتی!
مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ عوام سب ہی قائدین اور سب ہی تنظیموں کو بری نظر سے دیکھتے ہیں۔ گیل فیس میں ٹریڈ یونینز اور طلبہ یونینز کی کال پر ہونے والی ریلیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ عوام ان تنظیموں کا گرمجوشی سے خیر مقدم کرنے کے لیے تیار ہیں جو ان کی تحریک کو آگے بڑھانے کا راستہ فراہم کرے۔ عوام محض ان ’قائدین‘ کو بجا طور پر شک کی نظر سے دیکھ رہے ہیں جو انہیں دھوکہ دے کر سیاسی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، تاکہ اقتدار میں آ کر پارلیمنٹ کی مراعات یافتہ زندگی کے مزے لے سکیں۔
عوام کو، جیسا کہ ہم نے پہلے کہا ہے، محض اپنی قوت پر یقین کرنا پڑے گا۔ مگر ٹریڈ یونینز بھی انہی کی تنظیمیں ہیں۔ چنانچہ ٹریڈ یونینز کو اقتدار پر قبضہ کرنے کے لیے منظم ہونا ہوگا، تاکہ وہ کسی اور سرمایہ دارانہ دھڑے کے ہاتھوں میں نہ آ جائیں۔ جیسا کہ ہم نے وضاحت کی ہے، حکومت اور پارلیمانی اپوزیشن دونوں عوام کی اذیتوں کو جاری رکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
ضرورت محنت کشوں کی قوت کو منظم کرنے کی ہے تاکہ موجودہ حکومت کو للکارا جا سکے۔
سنجیدہ جدوجہد کی تیاریوں کے لیے عوامی تنظیموں کی تعمیر ضروری ہے۔ کام کی سب جگہوں، تمام غریب محلّوں، کسانوں اور مچھواروں کی ہر بستی میں ہڑتالی کمیٹیاں قائم کرنی ہوں گی۔ اس قسم کی کمیٹیاں ہڑتال کے دوران نظم و ضبط اور دیگر ضروریات کا خیال رکھیں گی، اور اس طرح ریاست کو مفلوج کر دیں گی۔ اس کے علاوہ وہ فوج اور پولیس کے عام سپاہیوں سے بھائی چارہ قائم کریں گی، جس سے پرانی ریاستی طاقت طبقاتی بنیادوں پر ٹوٹ جائے گی۔
یہ کمیٹیاں ضلعی اور ملکی سطح پر جڑت قائم کر کے وہ قوت بن جائے گی جس کے اوپر عوام اعتماد کریں گے، کیونکہ وہ انہی مظلوم اور استحصال زدہ عوام کے اوپر مشتمل ہوں گی، جو محنت کش طبقے کی قیادت کے تحت منظم ہوں گی۔
یہی آگے کا راستہ ہے؛ وہ راستہ جو حکومت گرانے اور سرمایہ داری کا تختہ الٹنے کی طرف نکلتا ہے، کیونکہ عوام کی اذیتوں کے خاتمے کا یہی طریقہ ہے۔
وقت آ چکا ہے کہ ٹریڈ یونین قائدین جدوجہد کا یہ طریقہ اپنا لیں، اور سنجیدہ لڑائی کے لیے منظم ہوں۔ اور اگر ان میں لڑنے کی ہمت نہیں ہے تو انہیں سامنے سے ہٹ کر ان لوگوں کو راستہ دینے کی ضرورت ہے جو لڑنا جانتے ہیں!