دنیا بھر میں اُبھرتی ہوئی طبقاتی جدوجہد کی لہر ویتنام کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔ بڑھتے ہوئے مالیاتی دباؤ کے تحت ویتنامی محنت کش طبقے کی پرتیں خود رو طور پر زبردست جدوجہد میں شامل ہورہی ہیں۔ بڑھتے ہوئے تناؤ کی عکاسی حکومتی کمیونسٹ پارٹی آف ویتنام (وی سی پی) کے اقدامات سے بھی ہو رہی ہے، جس کی قیادت دہائیوں کے طاقتور ترین قائد کے ہاتھوں میں ہے۔ کمیونسٹ پارٹی نے عوام کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اگرچہ ویتنامی سماج میں موجود کرپشن پر قابو پانے کے حوالے سے بیان بازیاں کی ہیں، مگر ساتھ ہی اس نے جبر میں بھی اضافہ کیا ہے۔
[Source]
ہڑتالی لہر
2022ء کے اندر ویتنام میں ہڑتالوں کی ایک لہر دیکھنے کو ملی ہے، جہاں محنت کش ان حاصلات کو دوبارہ جیتنے کی لڑائی لڑ رہے ہیں جو انہوں نے کرونا بحران کے دوران کھو دیے تھے۔ جنوری میں، جنوبی ویتنام کے صوبے دونگ نائی میں واقع ’فو چین‘ نامی جوتے کے کارخانوں میں 14 سے 16 ہزار محنت کشوں نے ہڑتال کی تھی۔ جوتوں کی یہ تائیوانی کمپنی نائیکی اور ایڈیڈاس کی سب سے بڑی سپلائر ہے۔ محنت کشوں نے ویتنامی نئے سال کے موقع پر دیے جانے والے بونس میں کٹوتی کے خلاف ہڑتال کا آغاز کیا۔
اگلے مہینے، ’نے آن‘ صوبے میں واقع جوتوں کی ایک اور کمپنی ویت گلوری کے 5 ہزار محنت کش 11 مطالبات کے گرد 7 سے 14 فروری تک ہڑتال پر چلے گئے، جس کے بعد کمپنی نے بنیادی اجرتوں میں 6 فیصد اضافہ کیا۔ 15 فروری کو وسطی ویتنام کے ایک کارخانے کے اندر اشیاء کی جانچ پڑتال کرنے والے 500 محنت کش ہڑتال پر چلے گئے، جنہوں نے اجرتوں میں 5 فیصد اضافہ اور سینئر محنت کشوں کے اوقاتِ کار میں کمی کروائی۔ آن لائن اخبار ویتنام ایکسپریس، جو وی سی پی اور ریاست کا ترجمان ہے، کی رپورٹ کے مطابق مارچ 2022ء تک 30 ہڑتالیں ہو چکی تھیں۔
کرونا وباء کے دو سالوں کے دوران، ویتنامی محنت کش اجرتوں میں کٹوتی اور عدم ادائیگی کو برداشت کر رہے تھے، جو اپنے گھر نئے سال کی چھٹیوں پر بھی نہیں جا پاتے تھے۔ بعض محنت کش کام پر نہیں جا پا رہے تھے اور بعض بڑھتے ہوئے اوور ٹائم کا شکار تھے۔ اب محنت کش ان حقوق کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے متحرک ہو رہے ہیں جو وباء کے دوران ان سے چھین لیے گئے تھے۔
ویتنامی محنت کش طبقے کو اپنی جدوجہد میں مخصوص رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ تمام ہڑتالیں اور مظاہرے غیر قانونی ہیں کیونکہ وی سی پی اس حوالے سے اس قانون کو منظور نہیں کر رہی جس کے تحت پچھلی دہائی کے دوران اس کا تعین کیا جاتا تھا کہ احتجاج کرنے کا حق کس کو حاصل ہے۔ چنانچہ تمام ہڑتالوں کے اوپر پولیس شدید جبر کر رہی ہے، ایک ایسے وقت میں جب پہلے سے ہی پولیس کے مظالم کا چرچا ہے۔ محنت کش محض تمام جمہوری حقوق سے ہی محروم نہیں، بلکہ تمام یونینز کے اوپر بھی پابندی عائد ہے سوائے ان یونینز کے جو حکومت کے منظور کردہ ہیں اور ویتنامی جنرل کنفیڈریشن آف لیبر کے تحت چل رہی ہیں۔
طبقاتی جدوجہد کی نئی اُٹھان
یہ ہڑتالی لہر ویتنام کی طبقاتی جدوجہد میں ایک اہم موڑ ہے۔ ویتنام کی معیشت برآمدات پر انحصار کرتی ہے اور اسی لیے عالمی معاشی بحران کے اثرات سے محفوظ نہیں رہ سکتی، اور اس بحران کا تمام تر بوجھ محنت کش طبقے کے اوپر ڈالا جا رہا ہے۔ بعض پیشین گوئیوں کے مطابق وباء سے ویتنامی معیشت کی بحالی کا کہا جا رہا ہے، جن کے مطابق 2022ء میں 6 فیصد اور 2023ء میں 7.2 فیصد بڑھوتری دیکھنے کو ملے گی، جبکہ 2021ء میں 2.6 فیصد بڑھوتری رہی تھی۔ البتہ ان رجائیت پسند پیشین گوئیوں کے راستے میں افراطِ زر اور قرضوں کا بحران رکاوٹ بن کر سامنے آ رہا ہے۔
ایوا دابلا نورس، ویتنام کی مشن چیف اور آئی ایم ایف کے ایشیاء اینڈ پیسیفک ڈیولپمنٹ ڈویژن کی ڈویژن چیف، خبردار کرتی ہے کہ ”مستقبل قریب کی پیشینگوئیاں بڑے خطروں سے خالی نہیں تھیں“، جیسا کہ یوکرین کی جنگ، بڑھتا ہوا جغرافیائی و سیاسی تناؤ، ویتنام کے سب سے بڑے تجارتی شراکت دار چین کی سست رو بڑھوتری، بڑھتی ہوئی تحفظاتی پالیسیاں، آسمان سے باتیں کرتی ریئل سٹیٹ اور سٹاک کی قیمتیں۔ ان سب عناصر سے بحالی سست رو ہونے اور افراطِ زر بڑھنے کا خطرہ ہے جبکہ اشیاء اور خام مال کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں (ویتنام میں خام مال کثرت سے پایا جاتا ہے)۔ جی ڈی پی کا 43 فیصد نجی کمپنیوں کے مرہونِ منت ہے، جس کے باعث معیشت کے اوپر وی سی پی کا براہِ راست کنٹرول کم رہے گا اور معیشت میں براہِ راست مداخلت کرنے کے لیے اس کے پاس سرمائے کی کمی بھی ہوگی۔
بہرحال، نام نہاد کمیونسٹ پارٹی معیشت میں سے پابندیاں ہٹانے کی کوششیں کر رہی ہے۔ 2021ء کی نیشنل کانگریس کے موقع پر، انہوں نے پانچ سالہ منصوبہ منظور کرایا جس کے تحت 2025ء تک آدھی معیشت کی نجکاری کی جائے گی، اور تب تک ملکی سرمائے کی مقدار میں دگنا اضافہ کیا جائے گا۔ البتہ، ملکی معیشت کو عالمی منڈی کے سامنے کھولنے کے اس عمل میں عالمی سرمایہ دارانہ بحران کے اثرات بھی بڑھتے جائیں گے۔ فی الحال افراطِ زر 3.9 فیصد ہے، جو ریاستی بینک کے ہدف (4 فیصد) کے مطابق ہے، مگر یہ سکوت آنے والے طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔ جلد یا بدیر افراطِ زر کے اثرات، سپلائی چین کے انتشار اور عالمی معیشت کے دیگر مسائل کے ویتنام کے اوپر گہرے اثرات مرتب ہوں گے، جو سماج میں طبقاتی تضادات کو بڑھاوا دینے کا باعث بنے گا۔
حکمران طبقہ عوامی جدوجہد کا سامنا کرنے کی تیاری میں
ویتنامی کمیونسٹ پارٹی (وی سی پی) اپنے جواز کا انحصار مضبوط معیشت کے اوپر کرتی ہے۔ اس وقت مختلف ممالک افراطِ زر کا سامنا کرنے کے لیے شرحِ سود بڑھانے پر مجبور ہو رہے ہیں، جس کے باعث معیشت سست روی کا شکار ہو رہی ہے، وی سی پی کو بھی معاشی استحکام برقرار رکھنے میں سخت مشکلات کا سامنا ہے۔ اسی طرح، ویتنام کی آبادی کا ایک بڑا حصہ عمر رسیدہ افراد پر مشتمل ہے، جہاں محنت کشوں کی چھوٹی آبادی مالیاتی طور پر غیر مستحکم ریٹائرڈ افراد کی بڑی آبادی کی ضروریات پورا کرنے پر مجبور ہے، جس سے سوشل سروسز پر دباؤ اور اپنے ریٹائرڈ والدین کی مدد کرنے والے محنت کشوں کے مالیاتی دباؤ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ویتنام میں معاشی بحران کے پیشِ نظر، وی سی پی کا جبر کے اوپر انحصار بڑھتا جائے گا کیونکہ وہ مزید معاشی کامیابی کی جانب اشارہ کر کے اپنی قیادت کے بارے میں سراب تعمیر کرنے کی اہل نہیں ہے۔ 2016ء سے جبر میں نظر آنے والے اضافے کی عکاسی اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ وی سی پی کی سب سے بڑی سیاسی باڈی یعنی اس کی پولٹ بیورو میں ان بیوروکریٹس کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے جو پولیس کی نمائندگی کرتے ہیں۔
2021ء کی نیشنل کانگریس کے دوران، پارٹی کے خود ساختہ نجات دہندہ، نووین فو ٹرونگ نے تیسری مرتبہ جنرل سیکرٹری، جو ملک کا اہم ترین عہدہ ہے، کے انتخابات میں کامیابی حاصل کر کے پارٹی کا اقتدار سنبھالا۔ پارٹی انتظامیہ، اور پولٹ بیورو اور سنٹرل کمیٹی دونوں کی قراردادوں کے اختیارات جنرل سیکرٹری کے پاس ہوتے ہیں۔ ٹرونگ نے پہلی مرتبہ 2011ء میں اقتدار سنبھالا تھا، جس نے ”بدکاری اور کرپشن“ ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا کیونکہ اس کے مطابق اس سے ”پارٹی اور سیاسی نظام کو خطرہ“ تھا۔ اس کا سابقہ ہم منصب نووین تان دونگ اپنے دوست احباب کی کرپشن کے لیے بدنام تھا۔ اس نے عالمگیریت کو اپنایا اور حکومت کے کاموں میں پارٹی مداخلت کی مخالفت کی۔ 12 ویں کانگریس میں ٹرونگ نے دونگ کی جگہ لینے کی چال چلی، اور پارٹی کی اکثریتی حمایت اسے حاصل ہوئی۔ وہ ایک طاقتور مینڈیٹ کے ساتھ اقتدار میں آیا، جس نے ’کرپشن کے خلاف لڑنے‘ کا نعرہ لگایا، مخالف آراء کو دبانے لگا، اور نظریاتی طور پر کرپٹ پارٹی شخصیات کو سزائیں دے کر پارٹی قائدین کی عیاشانہ زندگی پر ان کی سرزنش کی۔ اس نے ٹیکنوکریٹس اور سول سرونٹس پر پارٹی اور اس کے ممبران کو ترجیح دی تاکہ ملک کو درست سمت میں لے جا سکے۔
ویتنامی سیاست کو قصداً دھندلا رکھا جاتا ہے۔ البتہ 19 افراد پر مشتمل پارٹی کی اہم ترین باڈی پولٹ بیورو کی ساخت سے مختلف قوتوں کے توازن کا اظہار ہوتا ہے جو حکمران طبقے کے مختلف مفادات کی نمائندگی کرتے ہیں۔ پولٹ بیورو ریاست اور پارٹی دونوں کے حوالے سے فیصلے لینے کی مرکزی باڈی ہے۔ روایتی طور پر قیادت ان قوتوں میں توازن قائم رکھنے کی بھرپور کوشش کرتی ہے کیونکہ ملک کا سیاسی ’استحکام‘ عوام میں حب الوطنی کا جذبہ پیدا کرنے کا ذریعہ ہے۔ اسی دوران باہمی اتفاق حاصل ہونے تک پردے کے پیچھے مختلف دھڑوں کے بیچ خفیہ، شدید اور لا محدود لڑائی مسلسل چل رہی ہوتی ہے۔ ماضی کے برعکس، 2021ء کے پولٹ بیورو میں (نجی شعبوں کی بجائے) سرکاری شعبوں کے زیادہ نمائندے منتخب ہوئے، اور ٹیکنوکریٹس کی بجائے پارٹی کے وفادار اور پولیس زیادہ تعداد میں تھے۔ ٹرونگ کے پہلے دورِ اقتدار سے پولیس کے جبر میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، جبکہ سیاسی قیدیوں کی تعداد دگنی ہو کر 256 تک پہنچ گئی ہے۔ انٹرنیٹ صارفین پر لگائی جانے والی پابندیوں میں بھی اضافہ ہوا ہے، جبکہ ملکی میڈیا کے اوپر سخت پابندیاں پہلے سے ہی موجود تھیں۔
ویتنام کی مستحکم معاشی بڑھوتری کے ساتھ ٹرونگ کی کرپشن مخالف مہم، جس کے تحت 2012ء اور 2021ء کے بیچ 814 افراد پر مقدمے چلائے گئے ہیں، کا مقصد عوام کے سامنے پارٹی کی ساکھ بحال کرنا تھا۔ البتہ تمام سرمایہ دارانہ سماج کی طرح کرپشن ویتنامی سماج کا بھی مستقل عنصر ہے۔ اسے پارٹی افسران وہ مشترک عنصر سمجھتے ہیں جو تمام پارٹیوں کو یکجا کرتا ہے، جو اتحاد قائم کرنے اور نوجوان افسران کی حوصلہ افزائی کا باعث بنتا ہے۔ ٹرونگ نے اپنی کرپشن مخالف مہم کی آڑ میں محض اپنے دشمنوں کی کرپشن پر حملہ کیا ہے تاکہ مخالفین کا صفایا کر سکے اور یہ تاثر پیش کر سکے کہ وہ پارٹی کے بد ترین عناصر پر حملہ کر رہا ہے۔ پارٹی سے بے دخلیوں کا خطرہ پارٹی ممبران کو مزید یکجا کرنے کا باعث بن رہا ہے، جو ناگزیر طبقاتی جدوجہد کے پیشِ نظر ان کو متحد رکھے گا۔
حکمران طبقے کی چال بازیوں کے باوجود، ویتنامی محنت کش طبقہ پہلے سے ہی سرمایہ دارانہ بحران کا شکار ہے اور طبقاتی جدوجہد پر مجبور ہوگا۔ انہیں حکمران طبقے کی جانب سے شدید جبر کا سامنا کرنا پڑے گا، اور انہیں آزادانہ مظاہروں، تنظیموں اور ٹریڈ یونینز کے ذریعے اپنی جدوجہد کو منظم کرنے کی ضرورت پڑے گی۔ اس لڑائی میں ویتنامی محنت کش اپنی پرانی نسلوں کی طبقاتی جدوجہد کی شاندار روایات دوبارہ زندہ کریں گے۔
انہوں نے ماضی میں کرہ ارض کی طاقتور ترین سامراجی قوت یعنی امریکہ کو شکست دی تھی۔ آج کے ویتنامی پرولتاریہ کو اس نئے سرمایہ دار حکمران طبقے کو نشانہ بنانا پڑے گا جس کو اقتدار دلانے میں وی سی پی نے مدد کی ہے۔ جیتنے کے لیے، انہیں ایک ایسی حقیقی مارکسی قیادت کی ضرورت ہوگی جسے ان کی انقلابی روایات کا پاس ہو۔