ایک نئے فوجی کُو کی صورت میں سوڈان کی عبوری حکومت کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ سال 2019ء میں عوامی بغاوت اور ردِ انقلاب کے درمیان مفاہمت کا ناگزیر نتیجہ اب اپنے منطقی انجام کو پہنچ چکا ہے۔ غم و غصے میں بپھری عوام ایک مرتبہ پھر سڑکوں پر اتر کر ثابت کر رہی ہے کہ سوڈانی انقلاب کا زور ابھی ٹوٹا نہیں ہے۔ اس مرتبہ فوجی قیادت کے خلاف فیصلہ کن فتح تک نامصالحت جدوجہد ناگزیر ہو چکی ہے۔ 2019 میں عالمی مارکسی رجحان کی جانب سے لکھا گیا آرٹیکل جس میں موجودہ صورت حال کی پیش گوئی کی گئی تھی پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
25 اکتوبر 2021ء کو علی الصبح جنرل عبدل فتح البرہان کی قیادت میں فوجیوں نے لبرل وزیر اعظم عبداللہ ہامدوک اور اس کی بیوی کو گھر سے اغواء کر لیا جبکہ دیگر نمایاں سیاست دانوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ ریاستی ٹی وی نیٹ ورک کے خبر رساں ڈائریکٹر کو بھی پکڑ لیا گیا ہے، اندرون اور بیرون ملک تمام ہوائی رابطے منقطع کر دیئے گئے ہیں اور انٹرنیٹ بند کر دیا گیا ہے۔ اس کے بعد جنرل برہان نے ایک خطاب میں ایمرجنسی کے نفاذ، عبوری حکومت کے خاتمے اور جولائی 2023ء کے نئے انتخابات تک فوجی آمریت کے قیام کا اعلان کر دیا۔
ہامدوک کی گرفتاری کے فوری بعد سوڈانی پروفیشنل ایسوسی ایشن (SPA: 2018-19ء انقلاب میں قائد تنظیم) نے ایک اعلامیہ جاری کیا جس میں اپیل کی گئی کہ ”سوڈانی عوام، ان کی انقلابی قوتوں اور تمام شہروں اور گاؤں کے محلوں میں موجود مزاحمتی کمیٹیاں سڑکوں پر آ کر قبضہ کریں“۔ اسی طرح کمیونسٹ پارٹی نے بھی علیحدہ سے ”مکمل فوجی کُو“ کے خلاف ایک ہڑتال کی کال دی۔
ایسے میں عوام بجلی کی تیزی سے متحرک ہوئے۔ جھنڈے اٹھائے اور نعرے لگاتے مردوں، عورتوں، بچوں اور نوجوانوں کے دیو ہیکل جتھے، جن میں سے اکثر کے ہاتھوں میں ڈنڈے، اوزار اور دیگر عام استعمال کی چیزیں تھیں، مارچ کرتے ہوئے خرتوم میں فوجی ہیڈکوارٹر جا پہنچے۔ خبروں کے مطابق پورے شہر میں دس لاکھ سے زیادہ افراد احتجاج کر رہے ہیں۔ عوام نے مرکزی شاہراہوں اور پلوں کو رکاوٹیں لگا کر بند کر دیا ہے اور ساتھ ہی ٹائر بھی جلا دیئے ہیں تاکہ دھوئیں کے ذریعے سیکورٹی فورسز کی آنکھوں میں دھول جھونکی جائے۔
مزدوروں اور ہنرمندوں کی تنظیمیں جیسے خرتوم یونیورسٹی پروفیسرز یونین اور سوڈانی پائلٹس یونین کی مجلس عاملہ نے بھی اپنے تمام ممبران کو سڑکوں پر آنے کا حکم دے دیا ہے۔ پائلٹس یونین نے ”ایک عام ہڑتال اور سول نافرمانی“ کا اعلان کرتے ہوئے اپیل کی کہ ”ائر فیلڈ پر موجود تمام پائلٹس اور مزدور سڑکوں پر آئیں اور سوڈانی عوامی انقلاب کا تحفظ کریں“۔ ردِ عمل میں برہان نے سوڈانی ٹریڈ یونینز کی انتظامی کمیٹیاں تحلیل کر دی ہیں۔
باقاعدہ فوج اور قبائلی ملیشیاء پر مشتمل خونخوار جنجاوید ریپڈ سپورٹ فورسز (RSF)عوام کو منتشر کرنے کے لئے متحرک ہو گئے۔ عوام نے بے پناہ بہادری اور اول العزمی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اب تک دس افراد شہید ہو چکے ہیں اور کئی درجن زخمی ہیں۔ لیکن عوام آج بھی سڑکوں پر ڈٹی نعرے لگا رہی ہے کہ ”انقلابی اور آزاد عوام سفر جاری رکھیں گے۔۔انقلابی گولیوں سے نہیں ڈرتے“۔ آن لائن ویڈیوز میں سیکورٹی فورسز احتجاجیوں کے بڑے ہجوم کو آنسو گیس شیلنگ کر کے منتشر کرنے کی کوششیں کر رہی ہیں اور عوام نعرے بازی کر رہے ہیں کہ ”عوام زیادہ طاقت ور ہے“ اور ”پسپائی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا“۔
اس اشتعال انگیزی نے سوئے ہوئے سوڈانی انقلاب کو جگا دیا ہے۔ پچھلے دو سالوں کی مایوسی اور حوصلہ شکنی کے باوجود عوام اچھی طرح سے جانتی ہے کہ فوجی آمریت کے مسلط ہونے کا مطلب کیا ہے۔ جمہوریت اور عزت دار زندگی کے لئے ان کی انقلابی اُمنگیں مضبوط ہیں اور وہ زندگی اور موت میں ڈوبی ایک جدوجہد کے بغیر بربریت اور آمریت کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کو تیار نہیں۔
سال2019ء کا ادھورا انقلاب
اپریل 2019ء میں ایک انقلابی لہر نے سوڈانی آمر اور سابق فوجی قائد عمر البشیر کا تختہ الٹ دیا تھا۔ لیکن اقتدار پر عوامی قبضہ نہ ہو سکا اور اس ناکامی کے بعد افواج کے جرنیلوں پر مشتمل ایک خود ساختہ عبوری فوجی کونسل (TMC) نے خلاء کو پُر کرتے ہوئے انقلاب کو کچلنے کی کوشش کی۔ اس وجہ سے ایک ڈیڈ لاک پیدا ہو گیا اور حکمران طبقے نے مذاکرات اور جھوٹے وعدوں کے ذریعے چالیں چلنے کی کوشش کی تاکہ اپنی قوتوں کو دوبارہ مجتمع کیا جا سکے۔
ایک سویلین حکومت کے لئے مذاکرات میں تعطل اور عوامی تحریک کے دوبارہ ابھار کے نتیجے میں SPA نے مئی میں ایک طاقتور عام ہڑتال کی کال دی جس نے پورا ملک مفلوج کر دیا۔ طاقت انقلاب کے ہاتھوں میں تھی۔ درحقیقت اطلاعات کے مطابق 98 فیصد ریاستی اہلکار ہڑتال پر تھے، یعنی وہ حکومت کے بجائے SPA ہڑتالی کمیٹی کی اتھارٹی کو مان رہے تھے۔ صرف سپاہیوں سے انقلاب میں شمولیت کی اپیل رہ گئی تھی جس کے ذریعے ایک کچے دھاگے سے لٹکی پرانی گلی سڑی ریاست کا خاتمہ کیا جا سکتا تھا۔
لیکن دو دن کے بعد SPA نے عام ہرتال ختم کرتے ہوئے ”سول نافرمانی“ کا اعلان کر دیا۔ اس حوصلہ شکن فیصلے کی وجہ سے ردِ انقلاب کو متحرک ہونے کا موقع مل گیا جس کی قیادت اب شدیدرجعتی جنرل محمد ہمدان داگلو (عرف ہیمیتی)، RSF قبائلی ملیشیاء کا کمانڈر کر رہا تھا۔ ہیمیتی کی کمانڈ میں RSF نے 3 جون کو احتجاجیوں کے دھرنے پر حملہ کر دیا اور خرتوم میں قتل و غارت کا ایک بازار گرم کر دیا جس میں 100 سے زیادہ افراد شہید اور کئی سو شدید زخمی ہو گئے۔
عوام کو ڈرانے کے بجائے اس قدم نے انہیں اور بھی شدید مشتعل کر دیااور SPA پر شدید دباؤ ڈالا گیا کہ 9 جون کو نئی عام ہڑتال کا اعلان کیا جائے جس کے نتیجے میں TMC کو پیچھے ہٹنا پڑا۔ لیکن ایک مرتبہ پھر SPA نے TMC کو ”خیر سگالی“ کا پیغام دینے کے لئے اس ہڑتال کو ختم کر دیا اور مذاکرات ایک مرتبہ پھر شروع ہو گئے جس کا حتمی نتیجہ 4 جولائی کو مخلوط اقتدار معاہدہ تھا۔ ایک عسکری و سویلین عبوری حکومت بنائی گئی جس کا کام سوڈان میں ”جمہوریت کی جانب عبوری دور“ کی نگرانی کرنا تھا۔ اس کی قیادت ایک خودمختار کونسل کر رہی تھی جس میں فوجی قیادت اور سویلین نمائندوں کی برابر نمائندگی موجود تھی۔
درست طور پر اس ”مصالحتی“ انتظام کو ایک دھوکہ سمجھا گیا یعنی عوامی طاقت کے ذریعے پرانی ریاست کا قلع قمع کرنے کے بجائے انقلاب کے دشمنوں کو ہی حکومت میں شامل کر لیا گیا۔ درحقیقت موجودہ کُو کا قائد جنرل برہان اسی خود مختار کونسل کا چیئر مین تھا جسے اس نے تحلیل کیا ہے! وہ پرانی گلی سڑی بشیر آمریت کا حصہ ہے جسے ختم کرنے کے لئے سوڈانی عوام نے اپنا خون پسینہ بہایا۔ یہ بات ہیمیتی کے حوالے سے بھی درست ہے جسے اس عبوری حکومت میں شامل کیا گیا تھا۔
SPA قیادت نے ان رجعتیوں کے لئے حکومت کا راستہ کھولا اور آج اس کے نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ ہر مرحلے پر عوامی قوت پر بھروسہ کرنے کے بجائے سوڈانی انقلاب کی قیادت نے رجعتی قوتوں کے ساتھ مفاہمت کرنے کی کوششیں کی ہیں۔
فوجی کُو
اس بنیاد پر موجودہ کُو کسی کے لئے بھی حیران کن نہیں ہے۔ اس کی وجہ مسلسل بڑھتا ہوا بحران ہے۔ کورونا وباء سے پہلے ہی ملک خوفناک معاشی بحران کا شکار تھا۔ سال 2020ء کے آغاز میں UNO نے اندازہ لگایا کہ ملک کی 93 لاکھ آبادی (23 فیصد) کو اسی سال میں فوری فلاحی امداد کی ضرورت پڑے گی۔ ظاہر ہے کہ ان اعدادوشمار میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور وباء، شدید سیلابوں، قحط سالی اور ٹڈی دل کے مشترکہ دیو ہیکل دباؤ کے نتیجے میں کھیت برباد ہو چکے ہیں۔
ملک پر 60 ارب ڈالر کا قرضہ چڑھا ہوا ہے جو GDP کے 200 فیصد کے برابر ہے۔ امریکہ نے صرف اس سال 37 کروڑ 70 لاکھ ڈالر امداد دینے کا وعدہ کیا ہے جبکہ IMF نے اگلے تین سالوں میں سوڈان کا 50 ارب ڈالر بیرونی قرضہ معاف کرنے کی حامی بھر لی ہے۔ اس سامراجی مدد کے ساتھ کچھ ”شرائط“ ہیں۔ عبوری حکومت پر دباؤ ڈالا گیا کہ جبری کٹوتیاں کی جائیں جس کی ایک حالیہ مثال پیٹرول سبسڈی میں کمی ہے۔ سال 2019ء کے انقلاب کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی تھی جس میں روٹی پر دی جانے والی سبسڈی کا خاتمہ (اسے دوبارہ لاگو کرنے پر غور و فکر کیا گیا ہے) اور بلند افراطِ زر بھی شامل تھا جو اپریل 2021ء میں 363.10 فیصد کی بلند ترین سطح تک پہنچ چکا تھا۔ غرضیکہ تمام پرانے مسائل ویسے ہی موجود ہیں جن سے عبوری حکومت کے خلاف نفرت بڑھتی جا رہی تھی۔
وزیر اعظم ہامدوک جیسے لبرلز جو آغاز میں ہی انقلاب کی صف اول میں دھکیلے گئے تھے، نہ صرف ان اقدامات پر تنقید کرنے میں ناکام رہے ہیں بلکہ انہوں نے حکومت میں شمولیت اختیار کر کے ان کی ذمہ داری لیتے ہوئے ان کو لاگو بھی کیا ہے۔ ایک جمہوری منتخب حکومت کو اقتدار دینے کے فوجی ”وعدے“ پر ان کی آنکھیں چندھیا گئی تھیں اور انہوں نے محنت کشوں اور غرباء پر معاشی حملوں میں ربڑ سٹیمپ کا کردار ادا کیا ہے۔
لیکن افواج کا کبھی بھی ارادہ نہیں تھا کہ اقتدار منتقل کیا جائے۔ سال 2019ء سے عبوری حکومت میں تضادات پنپ رہے تھے جس کی وجہ سے قانون سازی میں مسائل بن رہے تھے۔ سکیورٹی اخراجات میں کٹوتی کی ایک حالیہ کوشش کے ردعمل میں فوجی قیادت کی جانب سے شدید ردِ عمل آیا تھا جنہوں نے سویلین قیادت کے ساتھ مشترکہ اجلاسوں میں شرکت سے انکار کر دیا تھا۔ سال 2019ء میں خونی حملوں کی تفتیش کے حوالے سے مذاکرات بھی طوالت اختیار کر چکے تھے جس میں کوئی حیرانی نہیں ہونی چاہئیے کیونکہ قتل عام کرنے والے خود صدارتی محل میں بیٹھے ہوئے ہیں!
اس ڈیڈ لاک کی وجہ سے عبوری حکومت پہلے ہی ایک سویلین حکومت کے لئے انتخابات کو سال 2023ء تک موخر کر چکی ہے۔ سال 2020ء میں عوامی مزاحمتی کمیٹیوں کے ذریعے کچھ احتجاج منظم ہوئے تھے جن کا مقصد حکومت پر سیاسی اور معاشی اصلاحات تیز کرنے کے لئے دباؤ ڈالنا تھا۔ ستمبر میں ایک کُو کی کوشش کو بھی ناکام کیا گیا، اس کُو کا الزام سویلین اور فوجی قیادتیں ایک دوسرے پر لگاتی رہیں۔
یہ واضح تھا کہ فوج سیاسی اور معاشی بحران کو طول دے رہی ہے اور سویلین سیاست دانوں کے غیر مقبول ہونے کا انتظار کر رہی ہے تاکہ مناسب وقت آنے پر اقتدار پر قبضہ کیا جا سکے۔ شہری مراکز سے باہر جرنیل قبائلی عمائدین کے ساتھ ساز باز کرتے رہے جو پہلے البشیر آمریت میں فیض یاب ہوتے تھے۔ یہ کرپٹ اور پسماندہ جونکیں درست طور پر جمہوری حقوق، خواتین کے حقوق اور دیگر سوڈانی انقلاب کی امنگوں کو اپنے استحقاق کے لئے خطرہ سمجھتے ہیں۔ ان میں سے ایک قبیلے کے سردار نے بحیرہ احمر پر سوڈان کی سب سے بڑی بندرگاہ کی خاموش فوجی حمایت کے ساتھ ناکہ بندی کر دی جس کے بعد سوڈان کی کرنسی، اشیاء خوردونوش اور پیٹرول تک پہنچ کٹ کر رہ گئی۔
کُو سے پہلے کے چند ہفتوں میں خرتوم کے صدارتی محل کے باہر عوامی ہجوم نے دھرنے دیئے جن کا مطالبہ ”بھوکوں کی حکومت“ ختم کر کے اقتدار پر فوجی قبضہ تھا۔ یہ واضح تھا کہ ان مظاہرین کو فوج نے منظم کیا تھا اور کئی اثناء میں انہیں براہ راست دھرنے تک پہنچایا بھی گیا تھا۔ لیکن ان کے مقابلے میں کئی گنا بڑے جمہوریت نواز عوامی احتجاج ہوئے جس سے عوام کے حقیقی موڈ کا پتا چل رہا تھا۔ ڈیڈ لاک میں پھنسی عبوری حکومت کے ساتھ بڑھتے غصے کے باوجود عوام کسی صورت فوجی آمریت کو قبول نہیں کرے گی۔
انقلابی عوام کی جانب سے ردِ عمل کے خطرے نے اب تک اقتدار پر مکمل قبضے کی فوجی کوشش کو روکا ہوا تھا۔ لیکن جرنیلوں کو محسوس ہو رہا تھا کہ ان کے پاس اپنی چال چلنے کے لئے وقت محدود ہوتا جا رہا ہے۔ بڑھتے جمہوریت نواز احتجاجوں میں اب انہوں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ ”ابھی نہیں تو کبھی نہیں“۔
نام نہاد ”عالمی کمیونٹی“ (یعنی سوڈان میں دلچسپی رکھنے والی مختلف سامراجی قوتیں) کو بھی نظر آ رہا تھا کہ حالات کس طرف جا رہے ہیں۔ کُو سے پہلے ایک خصوصی امریکی اہلکار نے سوڈان کا ایک ناکام دورہ کیا تاکہ حالات معمول پر رکھے جائیں اور ایک سویلین حکمرانی کی جانب باآسانی تبدیلی ممکن بنائی جا سکے۔ ظاہر ہے کہ سامراجیوں نے پہلے سے نوشتہ دیوار کُو کے حوالے سے انتہائی دوغلے بیانات جاری کئے ہیں۔ ان کی حتی الامکان کوشش ہے کہ دو سال پہلے پھٹنے والی انقلابی تحریک کو قابو میں رکھا جائے۔ لیکن اب فوج نے اپنی چال چل دی ہے اور عوام نے اس کا بھرپور جواب دے دیا ہے۔
آگے کا راستہ
لیکن ہمیں یہ کہنا پڑے گا کہ مئی 2019ء میں پہلی عام ہڑتال کے بعد اقتدار حقیقی طور پر عوام کے پاس تھا۔ یہ SPA کی کمزور مصالحتی حکمت عملی تھی جس کے نتیجے میں پرانی آمریت کی باقیات فوج کو اقتدار پر گرفت قائم رکھنے کا موقع مل گیا۔
جولائی 2019ء میں ہم نے لکھا تھا کہ:
”TMC (عبوری فوجی کونسل۔۔عبوری حکومت کا عسکری ونگ) پرانی آمریت کی براہ راست وارث ہے۔ ہر موقع پر بغیر کسی شک و شبہے کے اس نے ثابت کیا ہے کہ وہ انقلابی عوام کے ساتھ مصالحت نہیں کرے گی جسے بجا طور پر حکمران طبقے کے لئے خطرے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ اپنی جنجاوید شاک سپاہ کے ذریعے وہ پورے انقلاب میں عوام پر دہشت گردی کرتے رہے ہیں۔ ہر قدم پر ان کی کوشش رہی ہے کہ وقت کو طوالت دی جائے تاکہ تحریک تھکاوٹ اور تذبذب کا شکار ہو اور اس پر نئے ردِ انقلاب کے حملے کئے جائیں۔ موجودہ معاہدہ انہی کوششوں کا تسلسل ہے۔ اس معاہدے میں TMC کے اختیارات اور پرانی آمریت کی باقیات کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی گئی جو اس وقت مکمل طور پر مستحکم ہے۔ لیکن اس پردے کے پیچھے TMC عوام کو غیر متحرک کرنے اور ’نظم و ضبط‘ دوبارہ قائم کرنے کی پوری کوششیں کرے گی۔۔یعنی عوام پر آمریت کی مکمل حاکمیت“ (سوڈان: غلیظ مصالحت نامنظور! انقلاب مکمل کرو!)۔
آج یہ وارننگ واضح طور پر درست ثابت ہو چکی ہے۔ اب یہاں سے آگے مزید مصالحت نہیں ہو سکتی۔ متحرک ہونے کے لئے SPA کی کال پر عوام نے شاندار رد عمل دیا ہے لیکن کسی مقصد کے بغیر احتجاج کا فوج پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ درحقیقت سال 2019ء کی عوامی بغاوت میں ایک واضح لائحہ عمل کی عدم موجودگی ہی کی وجہ سے انقلاب تعطل کا شکار ہو گیا تھا۔
کمیونسٹ پارٹی نے ایک عام ہڑتال کی کال دے دی ہے۔ یہ آگے بڑھنے کا درست راستہ ہے اور SPA کو اسے ٹھوس بنیادوں پر منظم کرتے ہوئے پورے ملک میں پھیلانے کی ضرورت ہے۔ سال 2019ء میں بننے والی محلہ کمیٹیاں ایک بار پھر منظم ہو رہی ہیں۔ ان تمام کمیٹیوں کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ کر اور منظم کر کے فوجی آمریت کو ہمیشہ کے لئے شکست دینا لازم ہو چکا ہے۔ محلّوں اور ہڑتالوں کی کمیٹیوں کو عام سپاہیوں کے ساتھ مراسم بناکر اور افواج کو طبقاتی بنیادوں پر توڑ کر انقلاب کو مضبوط کرنا چاہیئے تاکہ برہان اور دیگر جرنیلوں کے ساتھ فیصلہ کن جنگ کی تیاری کی جائے۔
TMC بارہا ثابت کر چکی ہے کہ وہ ردِ انقلاب کی انتھک ایجنٹ ہے۔ اس کے ساتھ مذاکرات نہیں کئے جا سکتے۔ اسے صرف سوڈانی عوام کی طاقت کے ذریعے تباہ و برباد ہی کیا جا سکتا ہے۔ ایک مرتبہ کُو ناکام اور آمریت شکست خوردہ ہوتی ہے تو پھر فوری طور پر ایک دستور ساز اسمبلی منظم کر کے حقیقی جمہوریت قائم کرنی چاہیئے جس میں رجعتی فوجی قیادت کا کوئی کردار نہ ہو، جس کی دولت اور نجی ملکیت پر عوامی قبضہ ہو تاکہ ملک کی از سر نو تعمیر کی جا سکے۔
یہ واضح ہے کہ سرمایہ داری سوڈانی عوام کو لاحق مسائل حل کرنے سے قاصر ہے۔ حتمی طور پر مزدوروں اور کسانوں کی ایک سوشلسٹ حکومت ہی تمام بیرونی قرضوں سے انکار کرنے، سامراج سے تعلق توڑنے اور معیشت کو جمہوری بنیادوں پر منظم کرنے جیسے اقدامات اٹھا سکتی ہے۔ سوڈانی عوام نے ماضی میں شاندار ہمت و حوصلہ اور بہادری کا مظاہرہ کیا ہے۔۔اب انہیں یہ کام ایک مرتبہ پھر کرتے ہوئے سال 2019ء کے ادھورے انقلاب کو مکمل کرنا ہے۔