پیر کے دن جنرل عبدالفتح البرہان کی سربراہی میں عبوری فوجی کونسل (TMC) کے لانچ کردہ کُو کا مقصد اقتدار پر تیز تر اور فیصلہ کن قبضہ تھا۔ لیکن کُو کی منصوبہ بندی کرنے والوں کے خواب و خیال میں کہیں گمان ہی نہیں تھا کہ پورے ملک کے طول و عرض میں لاکھوں کی تعداد میں انقلابی عوام اُٹھ کھڑی ہو گی اور احتجاجوں اور ہڑتالوں کے ذریعے کسی بھی فوجی آمریت کا راستہ روکنے کی جدوجہد شروع کر دیں گے۔ سال 2019ء میں رونما ہونے والے سوڈانی انقلاب سے عوام نے اہم اسباق سیکھے ہیں۔ یہ انقلاب کبھی بھی شکست خوردہ نہیں ہوا تھا۔ تجربہ کار عوام نے فوج کو ایک بند گلی میں لا کر کھڑا کر دیا ہے۔ اب انہیں فیصلہ کن فتح کی ضرورت ہے۔
[Source]
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
پیر کے دن وزیر اعظم عبداللہ ہمدوک اور اس کی بیوی کے اغواء اور ایک فوجی اعلامیے کے ذریعے عبوری حکومت کی تحلیل کے اعلان کے بعد سوڈانی پروفیشنل ایسوسی ایشن (SPA) اور سوڈانی کمیونسٹ پارٹی نے ملک گیر احتجاج اور سول نافرمانی کی اپیل جاری کی جبکہ کمیونسٹ پارٹی نے سیاسی ہڑتال کا اعلان بھی کیا۔ فوری اور دیو ہیکل عوامی ردِ عمل کے نتیجے میں کُو کا مقابلہ کرنے کے لئے سڑکیں بھر گئیں۔ زیادہ تر مظاہرین خرتوم میں متحرک ہوئے لیکن باہری، اومدورمان، اتبارا، دونگولا، العبید، پورٹ سوڈان، گیزیرا، الفاشر، مدانی اور بحیرہ احمر ریاست میں عوام کی بھاری تعداد سڑکوں پر نکل آئی ہے۔ سڑکوں پر رکاوٹیں لگا کر ٹائر جلا دیئے گئے ہیں تاکہ دھویں کے بادلوں میں اپنے آپ کو سیکورٹی فورسز سے بچا کر رکھا جائے۔
محنت کشوں کی تنظیموں نے بھی کال کا بھرپور جواب دیا ہے اور کم از کم 20 ٹریڈ یونینز اور پروفیشنل تنظیموں نے ہڑتالیں لانچ کر دی ہیں۔ یہ تنظیمیں ڈاکٹروں، فارما سسٹ، سول انتظامیہ، انجینیئرز، کان کنوں، یونیورسٹی لکچرارز، سکول اساتذہ اور اشیاء خوردونوش سے جڑے محنت کشوں کی نمائندگی کرتی ہیں۔ پائلٹس کی یونین نے ہڑتال کا اعلان کرتے ہوئے قومی ائر لائن سوڈان ائر ویز اور مقامی ائر لائنز بدر اور تارکو کو بھی بند کر دیا ہے۔ ریاستی پیٹرولیم کمپنی سوڈاپیٹ کے محنت کشوں نے اعلان کر دیا ہے کہ وہ تحریک میں شامل ہو رہے ہیں اور پورا پیٹرولیم سیکٹر بھی شامل ہو رہا ہے۔ اتبارا میں ریلوے محنت کش اور مرکزی بینک کے ورکرز بھی احتجاجوں میں شامل ہو گئے ہیں۔ اس کے ساتھ پورے ملک میں چھوٹے اور درمیانے کاروبار بھی تحریک کے ساتھ یکجہتی میں بند ہو گئے ہیں۔ ان میں سے کئی ہڑتالیں اور احتجاج عام افراد اور محنت کشوں نے کسی ملک گیر مرکزی قیادت کی کال سے پہلے ہی خودرو شروع کر دیئے تھے۔
عوام جبر کا مقابلہ کر رہے ہیں
انٹرنیٹ بندش کا سہارا لیتے ہوئے TMC نے عوام پر سیکورٹی فورسز چڑھا دیں جن میں زیادہ تر بدنامِ زمانہ ریپڈ سپورٹ فورسز (RSF) شامل ہیں۔ RSF سفاک جنرل ہیمیتی کی کمانڈ میں جنجاوید قبائلی ملیشیاء سے بنی ہے۔ انٹرنیٹ بحالی کے قلیل لمحات میں سوڈان سے ویڈیوز لیک ہونا شروع ہو گئیں جن میں مسلح بدمعاش مظاہرین پر حملے کر رہے ہیں اور لاشیں سڑکوں پر گری پڑی ہیں۔ ایک وائرل ویڈیو میں RSF ایک خواتین یونیورسٹی کے ہاسٹل پر حملہ کرتے ہوئے رہائشیوں کو زدوکوب کر رہی ہے۔ جس نوجوان خاتون نے وہ ویڈیو بنائی اس کا چہرہ زخمی اور خون سے بھرا ہوا ہے جبکہ اس کے ارد گرد شدید چیخ و پکار ہے۔
خرتوم میں ایک سیاسی کارکن الطیب محمد احمد نے ڈیموکریسی ناؤ کو ایک آن لائن انٹرویو میں بتایا کہ سیکورٹی فورسز کھلی بدمعاشی کے ساتھ تمام مظاہرین کو قتل کر رہے ہیں۔ ”انہوں نے سٹن گرنیڈ چلائے۔ پھر انہوں نے گولیاں چلائیں۔ دو افراد شہید ہو گئے۔ میں نے یہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ پھر وہ دو مرتبہ واپس آئے اور ایک اور فرد کو شہید کر دیا۔ یہ تیسرا تھا جسے میں نے خود دیکھا“۔ خرتوم میں ایک سرجن نے بتایا کہ ہسپتال درجنوں زخمیوں سے بھرے ہوئے ہیں اور ان میں سے کئی اتنے شدید زخمی ہیں کہ وہ دوبارہ کبھی نہیں چل سکیں گے۔ ”زیادہ تر زخم قتل کرنے کے لئے لگائے گئے تھے۔ وہ لوگوں کو گولی مار رہے تھے یا انہیں سر اور چھاتی پر زدوکوب کر رہے تھے۔ کچھ زخمی تو بہت ہی پیچیدہ حالت میں ہسپتال پہنچے تھے۔ ہم ان کے لئے کچھ نہیں کر سکتے تھے“۔
پیر کے دن ایک 17 سالہ احتجاجی خرتوم کے جنوب میں اپنے گھر سے 15 کلومیٹر چل کر ہزاروں افراد کے ساتھ فوجی ہیڈکوارٹر پہنچا۔ جب وہ پہنچے تو RSF ان کا انتظار کر رہی تھی اور انہیں فائرنگ کر کے پسپائی پر مجبور کر دیا۔ نوجوان احتجاجی کو ریڑھ کی ہڈی میں گولی لگی۔ ”ہم دور بھاگنا شروع ہو گئے اور بھاگتے رہے۔ لیکن پھر مجھے گولی لگی اور میں نے کئی افراد کو گرتے دیکھا جن میں ایک عمر رسیدہ شخص بھی شامل تھا جو شہید ہو گیا“۔ اس احتجاج میں ایک اور نوجوان کو آٹھ سپاہیوں کے جتھے نے پکڑ کر ڈنڈوں سے اتنا مارا پیٹا کہ وہ بے ہوش ہو گیا۔ پھر اسے ذلیل کرنے کے لئے اس کا سر بھی گنجا کر دیا گیا۔
خرتوم میں عمارات کی چھت پر سنائپرز بھی دیکھے گئے جو رکاوٹوں پر موجود افراد اور بچوں پر گولیاں برسا رہے تھے۔ جب مظاہرین نے رکاوٹیں ہٹا کر ایمبولینس کے گزرنے کی راہ بنائی تو ملیشیاء کے ایک سپاہی نے ٹرک گھسا کر ہجوم پر چڑھا دیا جس سے ایک فرد شہید ہو گیا جبکہ سپاہیوں نے فائرنگ شروع کر دی اور پیرامیڈیکس کو ایمبولینس سے نکال دیا۔ خرتوم کے سرجن کا کہنا ہے کہ RSF سپاہیوں نے اس کے ہسپتال پر بھی حملہ کیا اور مطالبہ کیا کہ جو بھی احتجاجی موجود ہیں انہیں ان کے حوالے کیا جائے۔ ”ظاہر ہے ہم نے انکار کر دیا۔ انہوں نے دوشکا (روسی ساخت DShK مشین گن) سمیت بھاری ہتھیاروں سے ہمیں ڈرایا دھمکایا۔ مریضوں کو اپنے بستروں اور کرسیوں کے نیچے چھپنا پڑا۔ کچھ گولیاں ہسپتال کے گیٹ پر بھی لگیں“۔ اس تحریر کے وقت خرتوم میں مزید 7 افراد شہید ہو چکے ہیں جبکہ دیگر علاقوں میں بھی شہادتیں ہوئی ہیں۔
لیکن اس سفاک جبر کے باوجود عوام پسپائی سے انکاری ہے۔ اس کے برعکس رجعت کا تازیانہ انہیں اور بھی زیادہ مشتعل کر رہا ہے۔ آج رائٹرز نے خبر دی ہے کہ مسلح ملیشیاء رکاوٹیں ہٹاتی ہے اور چند منٹ بعد ہی نوجوانوں کے گروہ انہیں دوبارہ بنا لیتے ہیں۔ ایک نوجوان احتجاجی نے کہا کہ ”ہم سویلین حکومت چاہتے ہیں۔ ہم تھکیں گے نہیں“۔ پورے ملک میں عوام احتجاج کر رہے ہیں اور دھرنے دے رہے ہیں، ان کے نعرے یہ ہیں: ”فوجی آمریت مردہ باد!“ اور ”سویلین“ (یعنی سویلین حکمرانی)۔ ایک مرکزی نعرہ ”پسپائی نہیں!“ ہے، یعنی عوام کو بخوبی ادراک ہے کہ ایک فوجی آمریت کی واپسی کا مطلب کیا ہو گا اور اسے کسی بھی قیمت پر روکنے کے لئے ایک انقلابی جدوجہد کرنا ہو گی۔ سال 2019ء کی طرح خواتین۔۔جنہیں سوڈان میں خوفناک جبر کا سامنا ہے۔۔اس تحریک کا ہراول دستہ ہیں اور تمام مظاہروں میں ان کی نمایاں شرکت ہے۔
عوام نے سال 2019ء کے انقلابی تجربات سے بہت کچھ سیکھا ہے اور اب انہیں خودرو منظم ہونے کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔ احمد کا کہنا ہے کہ ”میرا خیال ہے کہ پچھلے دو سالوں میں۔۔پورے ملک میں ایک انتہائی متحرک سیاسی ماحول رہا ہے جس میں عوام سکول اور یونیورسٹیاں جانے سے زیادہ سڑکوں پر نکلے۔ عوام، عام شہری، ایک دوسرے کے ساتھ رابطہ کر رہے ہیں۔ انٹرنیٹ بند ہے۔ فون کے ذریعے رابطے کے بہت مخدوش حالات ہیں۔ میرا خیال ہے کہ شائد ایک نیٹ ورک کام کر رہا ہے۔ لیکن پھر بھی لوگ ہر دروازہ کھٹکھٹا رہے ہیں، ایک دوسرے سے بات کر رہے ہیں، ایک دوسرے کو سڑکوں پر آنے کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔ یاد کرو کہ دسمبر 2018ء سے جون 2019ء تک ہمارے پاس سوشل میڈیا نہیں تھا۔ جون 2019ء میں قتل و غارت کے بعد ہمارے پاس تین ہفتے تک انٹرنیٹ نہیں تھا۔ اس لئے عوام نے نہ صرف اپنے اندر لچک پیدا کی ہے بلکہ ٹیکنالوجی کے علاوہ دیگر ذرائع سے ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں رہنے کے رستے نکال لیے ہیں“۔
فوج کوشش کر رہی ہے کہ متحرک کارکنان کے درمیان رابطوں کو منقطع کیا جائے اور جو بولے اسے کچل دیا جائے۔ مقامی میڈیا چینلوں نے رپورٹ کیا کہ العبید میں کارکنان برہان کے میڈیا پر بیانات کی مخالفت کر رہے ہیں۔ اس خبر کے نشر ہونے کے بعد فوری طور پر انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ اس لئے مظاہرین ایک دوسرے کو خبردار کر رہے ہیں کہ کسی بھی میڈیا نیٹ ورک سے بات نہ کریں۔ ایک کارکن نے رپورٹ دی کہ مقامی کمیٹیوں کو حکم دے دیا گیا ہے کہ جب بھی انٹرنیٹ بندش میں تعطل ہو تو فوری طور پر تصاویر اور ویڈیوز آن لائن شیئر کریں اور سوڈان میں براہِ راست معلومات پھیلائیں۔ ”(انٹرنیٹ بندشوں نے) ہمیں پہلے بھی نہیں روکا اور اب بھی نہیں روک سکیں گی۔ ہم ہر دروازے پر جاتے ہیں، دروازوں سے لیفلیٹ دیتے ہیں، اور ان علاقعوں میں جو قدرے محفوظ ہیں وہاں موجود رکاوٹوں کے پیچھے لوگ سٹڈی سرکل بھی کر رہے ہیں۔
طاقت کی دوئی
ان سرکلز کو محلوں کی دفاعی کمیٹیاں منظم کر رہی ہیں۔ سال 2019ء کے انقلاب میں یہ خودرو کمیٹیاں سوڈانی محنت کش طبقے نے تشکیل دی تھیں۔ انہیں ڈرانے اور تباہ و برباد کرنے کی فوجی کوششوں کے باوجود، نمایاں کارکنان کی گرفتاریوں اور قتل کے ذریعے، جیسے مئی 2021ء میں محمد اسماعیل وَد آکر، وہ چھپ کر کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ وہ محض محلوں میں منظم ہونے کے مرحلے سے آگے بڑھ چکی ہیں اور اب علاقائی سطح پر ڈسٹرکٹ کمیٹیوں میں منظم ہو چکی ہیں جیسے اومبادا مزاحمتی کونسل، خرتوم مشرقی مزاحمتی کونسل اور کاراری مزاحمتی کونسل۔ اس ڈھکے چھپے کام کے نتیجے میں پہلے سے موجود یہ ڈھانچے فوجی کُو کا مقابلہ کرنے کے لئے تیزی سے آگے بڑھے۔ کچھ تو اتنی مضبوط ہو چکی ہیں کہ وہ حقیقی طور پر مقامی حکومت بن سکتی ہیں اور فوجی جبر کا راستہ روک سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر اومدورمان مزاحمتی کونسل نے رپورٹ کیا ہے کہ کوئی گرفتاریاں نہیں ہوئیں اور شہر ان کے کنٹرول میں ہے۔
ان کمیٹیوں کے منظم کردہ سرکلز میں عوام منصوبہ بندی کر رہے ہیں کہ کُو کے خلاف جدوجہد کو محنت کشوں کی تحریک کے ساتھ منسلک کیا جائے۔ ہفتہ کے دن ایک عام ہڑتال کے ساتھ ”کروڑوں کا مارچ“ منظم کیا جا رہا ہے۔ اتبارہ کی ایک میٹنگ میں تقریر کی گئی کہ:
”شعور کا ارتقاء انتہائی اہم ہے اور نوجوانوں سے لے کر عمر رسیدہ تک یہ ہم سب کا فرض ہے۔ ضرورت کے تحت انقلاب نے سب کو متحد کر دیا ہے۔۔نوجوان، عمر رسیدہ، تجربہ کار، غیر تجربہ کار، جب ہم سب سڑکوں پر ہیں تو ہم سب ایک ہیں۔ ہم سب اپنی سویلین جمہوریت کے تحفظ کے لئے نکلے ہیں۔۔ہنر مند تنظیمیں، وادیِ نیل کی محنت کش یونینز اور دیگر مقامی حکومتی تنظیمیں، سب نے اعلان کیا ہے کہ وہ سول نافرمانی میں حصہ لے رہے ہیں۔ ہم انقلابی ان ہڑتالوں کی نگرانی کریں گے، ہم صبح 8 بجے مارچ کریں گے، ہم ان تنظیموں میں ایک ایک کر کے جائیں گے، اگر وہ ہڑتال نہیں کریں گے تو ہم یقینی بنائیں گے کہ وہ ہڑتال کریں۔ یہ اعلان تمام سوڈانی عوام کے لئے ہے جو ہفتہ کے دن باہر نکلے گی اور یہاں اتبارہ میں ہم بھی پیروی کریں گے۔ جس طرح ہم نے بشیر اور اس کے ٹولے کو سبق سکھایا ہے ہم برہان اور اس کے ٹولے کو بھی سبق سکھائیں گے۔ ہم اس دن سڑکوں پر جائیں گے اور اس وقت تک ہم رات کو تقریریں گے اور ہر رات یہ تقریریں کریں گے“۔
یہ سرگرمیاں عوام کی تخلیقی صلاحیتوں اور منظم کرنے کی قوتوں کا شاندار اظہار ہے جو سال 2019ء کے انقلاب کے نشیب و فراز سے گزر کر اور زیادہ دانا اور مضبوط ہو چکی ہے۔ اب SPA نے ان کمیٹیوں کو ملک گیر کال دی ہے کہ وہ اپنی تعداد میں اضافہ کریں، فنڈ اکٹھا کرنے کے لئے ڈھانچے تشکیل دیں، میڈیکل وسائل اور ہنر اکٹھی کریں اور ڈھانچے بنائیں جو رابطہ کاری، نگرانی اور سیکورٹی کے لئے چاق و چوبند ہوں۔ ان ڈھانچوں کو فوراً عمومی طور پر تشکیل دینا چاہیئے۔
ابھی سے ہم علاقائی سطح پر ہم آہنگی اور تعاون دیکھ رہے ہیں۔ اب اس عمل کو ملک گیر سطح پر منظم کرنا چاہیئے اور ٹریڈ یونینز اور تمام دیگر انقلابی تنظیموں کو اس میں شامل کرنا چاہیئے۔ اس ساری صورتحال میں طاقت کی دوئی پیدا ہو سکتی ہے جو پرانی بشیر آمریت کی نمائندہ رجعتی TMC اور انقلاب کی نمائندہ کمیٹیوں کے درمیان فیصلہ کن جنگ کی راہ ہموار کرے گی۔ فوری طور پر ان ڈھانچوں کو دفاعی کمیٹیاں بھی تشکیل دینی چاہیئے اور ایک منظم کمپئین کے ذریعے فوج کے سپاہیوں کو جیتنے کی کوشش کرنی چاہیئے۔ ردِ انقلاب کا ہراول دستہ اس وقت RSF ہے اور وہ اپنے مفادات کے تحفظ میں ہر طریقہ استعمال کریں گے۔ اگر ممکنہ قتل و غارت کو ناممکن بنانا ہے تو اس کا واحد طریقہ ایک منظم انداز میں ہتھیاروں سے لیس ہو کر عوام کو دفاع کے لئے تیار کرنا ہے۔
یہ واضح ہے کہ کُو کی منصوبہ بندی کرنے والوں کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی ہے۔ ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ عوام کا اتنا شدید ردِ عمل ہو گا۔ کل انہوں نے ہمدوک کو واپس اس کے گھر چھوڑ دیا ہے اگرچہ ابھی بھی اس پر پہرہ ہے اور برہان نے ایک دوسرا ٹی وی خطاب کیا جس میں اس کا لہجہ مدافعانہ تھا۔ اس نے دعویٰ کیا کہ ایک خانہ جنگی کو روکنے کے لئے کُو بہت ضروری تھا کیونکہ عبوری حکومت کے فوجی اور سویلین ونگ کے درمیان ڈیڈ لاک بن گیا تھا۔ اس نے کہا کہ ایک امریکی مندوب جیفری فیلٹ مین حکومت کے دونوں ونگ کے درمیان ایک معاہدہ کرانے میں ناکام رہا۔۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ امریکی سامراج کو پتا تھا کہ کُو ہونے والا ہے یا پھر انہیں فوج نے جھوٹے وعدوں سے مطمئن کر لیا تھا۔ برہان نے فوجی ”عزم“ کو ایک مرتبہ پھر دہرایا کہ سال 2023ء میں انتخابات کے ذریعے ایک جمہوریت قائم ہو گی اور نافذ ایمرجنسی کا جلد خاتمہ کر دیا جائے گا۔ اس نے وعدہ کیا کہ گرفتار ”معصوم“ وزراء اور سیاست دانوں کو جلد چھوڑ دیا جائے گا اگرچہ کچھ پر مقدمہ ہو گا کیونکہ انہوں نے ”افواج میں ایک بغاوت ابھارنے کی کوششیں کی ہیں“۔
شاید یہ آخری جملہ پوری صورتحال میں ایک اہم معاملے کی نشاندہی کر رہا ہے۔۔فوج میں تضادات۔ سال 2019ء میں فوج کے ایک بڑے حصے میں انقلاب کے لئے ہمدردی موجود تھی۔ عام سپاہیوں اور محلہ دفاعی کمیٹیوں کے درمیان بہت زیادہ تعلقات استوار ہوئے۔ اگرچہ یقین سے کہنا مشکل ہے لیکن ایسا لگ رہا ہے سوڈان میں موجودہ جبر فوج کے بجائے زیادہ تر RSF کے ذریعے کیا جا رہا ہے۔ فوج میں زیادہ تر سپاہی غریب محنت کشوں اور کسانوں کے عام بچے ہیں جبکہ RSF ایک کرائے کی تنظیم ہے جو اکثر اپنے کنٹرول میں موجود علاقوں میں لوٹ مار اور دہشت پھیلا کر اپنی فنڈنگ کرتی ہے۔ درحقیقت برہان کا انقلاب کو کچلنے کے لئے RSF کو استعمال کرنا ہی یہ ثابت کر رہا ہے کہ وہ فوج کے عام سپاہیوں پر اعتماد نہیں کر سکتا۔
انقلابی عوام سیکورٹی فورسز میں موجود اس طبقاتی تفریق کو استعمال کر سکتی ہے۔ اگر عام سپاہیوں کی صفوں میں کسی قسم کی ہمدردی کا اظہار ہوتا ہے تو پھر ان سے تعلق بنانا اہم ترین فریضہ ہے۔ سال 2019ء میں TMC کو فیصلہ کن شکست دینے میں کامیابی نہ ملنے کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی تھی کہ SPA نے عام سپاہیوں کو انقلاب میں شمولیت کی دعوت نہیں دی۔ اس غلطی کو اب دوبارہ نہیں دہرانا چاہیئے اور اس طرح کی دعوت کے لئے عوام کو دفاعی کمیٹیوں کے ذریعے منظم انداز میں تیاری کرنی چاہیئے۔
بہرحال ایسا معلوم ہو رہا ہے کہ کُو منظم کرنے والوں کے ہاتھوں سے کنٹرول پھسل رہا ہے۔ خودمختار کونسل کو تحلیل قرار دیئے جانے کے باوجود سویلین حکومت کے کئی حصے مستحکم ہیں۔ وزیر خارجہ مریم المہدی نے منگل کے دن اعلان کیا کہ وہ اور ہمدوک حکومت کے دیگر ممبران سوڈان کی قانونی اتھارٹی ہیں اور وہ اپنی ”پرامن نافرمانی اور مزاحمت“ جاری رکھیں گے۔ برہان نے امریکہ، یورپی یونین، چین، قطر، فرانس اور جنیوا میں موجود سفیروں کو بھی کُو کی مخالفت کرنے پر برطرف کر دیا ہے۔
توقع کے عین مطابق اقوام متحدہ، امریکہ، یورپی یونین، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی نمائندگی میں ”عالمی کمیونٹی“ نے کُو پر تنقید کی۔ ان سب نے امدادی کاروائیاں روک کر مزید پابندیوں کی دھمکی دے دی ہے اور سویلین حکومت کے قیام کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ افریقی یونین نے سوڈان کی ممبرشپ معطل کر دی ہے۔ اگر کُو فیل ہو جاتا ہے تو ظاہر ہے کہ بورژوا میڈیا اس کا تمام سہرا ”عالمی دباؤ“ کے سر باندھے گا لیکن یہ سب بکواس ہے۔ یہ سوڈانی عوام کی بے پناہ بہادری اور اول العزمی ہے جس سے برہان کے قدم اکھڑ رہے ہیں۔
لیکن برہان کے نام نہاد ”اتحادیوں“ نے بھی پیٹھ دکھا دی ہے۔ عرب لیگ (ایک ایسا ادارہ جو زیادہ تر مصری حکومت کے زیر اثر ہے جو خود عبدل السیسی کی قیادت میں ایک فوجی آمریت ہے) نے کُو کو مسترد کر دیا ہے جبکہ عرب امارات اور سعودی عرب نے تاحال خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ ان رجعتی آمریتوں کو سوڈانی انقلاب سے کوئی ہمدردی نہیں ہے اور نہ ہی وہ فوجی آمریت کے مخالف ہیں۔ لیکن انہیں نظر آ رہا ہے کہ برہان وقت سے پہلے یہ کُو لانچ کر کے انتہائی فاش غلطی کر چکا ہے۔ ان سب کے ہوش اس لئے اُڑے ہوئے ہیں کیونکہ یہ کُو ایک مرتبہ پھر سوڈانی انقلاب کو گرما رہا ہے جو اپنی سرحدوں کو پھاڑ کر افریقہ اور عرب دنیا کے محنت کشوں کووہ جوش و جذبہ اور ہمت و حوصلہ فراہم کر سکتا ہے جس کے زیر اثر وہ اپنے آمروں کے خلاف سڑکوں پر نکل آئیں گے۔ یہ حیران کن نہیں کہ وہ اس کُو کے قریب بھی نہیں پھٹکنا چاہتے اور اس لئے کُو تیزی سے تنہائی کا شکار ہو رہی ہے۔
اگر اس تطہیر کی ٹائم لائن دیکھی جائے تو واضح ہوتا ہے کہ برہان کے سامنے اکتوبر کے اختتام کی ڈیڈ لائن منہ کھولے کھڑی تھی کیونکہ اس وقت عبوری حکومت کی پاور شیئرنگ ڈیل کے مطابق خودمختار کونسل کی چیئرمین شپ ہمدوک کے حوالے ہو جانی تھی۔ یقینا سویلین سیاست دانوں کو اقتدار کی منتقلی فوجی ایجنڈے میں بالکل نہیں تھی۔ اس کا ایک نتیجہ تو یہ نکلنا تھا کہ فوری طور پر بشیر کو انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کے حوالے کر دیا جاتا۔ برہان اور ہیمیتی اس قدم کے شدید خلاف ہیں اور اس کا مقدمہ سوڈان میں ہی کروانا چاہتے ہیں کیونکہ انہیں خوف ہے کہ بشیر سال 2003ء کی دارفور جنگ میں ہونے والے سفاک ظلم و جبر کے حوالے سے ان کا نام بھی بول دے گا۔ اس جنگ میں 5 لاکھ افراد ذبح ہوئے تھے۔
پھر ہمدوک کے برسراقتدار آنے کے بعد پہلا کام جون 2019ء میں RSF کے ہاتھوں انقلابیوں کے قتل عام کی تفتیش کا ہونا تھا جس میں برہان اور ہیمیتی واضح طور پر مجرم قرار پائے جاتے۔ رجعتی فوجی آمروں کو عادت پڑ چکی ہے کہ ملک میں بغیر کسی مخالفت کے حکمرانی اور لوٹ مار کی جائے اور عوام پر خوفناک تسلط برقرار رہے۔ سال 2019ء میں برپاء ہونے والے انقلاب نے اس نظام کو شدید دھچکا تو لگایا لیکن ختم نہیں کیا۔ جرنیل پرعزم ہیں کہ کسی طرح وقت کا پہیہ واپس موڑ دیا جائے اور وہ انقلاب سے کسی قسم کا سمجھوتا کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ پاور شیئرنگ ڈیل کا مقصد ہی یہ تھا کہ کچھ وقت حاصل کر لیا جائے جس میں پوری تیاری کر کے ریاستی کنٹرول واپس لے لیا جائے۔
آمریت کو شکست دو! جمہوریت زندہ باد! سوشلزم زندہ باد!
برہان نے سارا جوا اس امید پر کھیلا کہ سویلین سیاسست دان بہت زیادہ غیر مقبول ہو چکے ہوں گے کیونکہ انہوں نے حکومت کے سامراجی قرض خواہوں کی ایماء پر انتہائی سخت جبری کٹوتیوں کا پروگرام لاگو کر رکھا ہے۔ پچھلے کچھ ہفتوں سے خرتوم میں احتجاج اور دھرنے ہو رہے تھے جن میں فوجی آمریت، دوبارہ نظم و ضبط لاگو کرنے اور حکومتی ناکامیوں کا ازالہ کرتے ہوئے سوڈان میں بھوک اور غربت کے خاتمے کے حق میں مطالبات کئے گئے۔ اگرچہ ان احتجاجوں کی حمایت اور مدد جرنیلوں نے کی لیکن یہ عوام کی ایک زیادہ پسماندہ پرت کے جذبات ہیں جو انقلاب کے بعد اصلاحات اور ترقی کی عدم موجودگی سے مایوس اور متنفر ہو چکے ہیں۔ لیکن ان کے مقابلے میں زیادہ دیو ہیکل جمہوریت پسند احتجاج ہوئے جن میں کُو سے پہلے ہی ہزاروں کی تعداد شریک تھی۔ یہ قابل ذکر ہے کہ تطہیر کے خلاف جرات مندانہ جدوجہد کے باوجود مظاہرین کو پورا اندازہ ہے کہ سال 2019ء سے فوج کے ساتھ مشترکہ حکومت میں سویلین سیاست دانوں کی کیا محدودیت ہے۔ احمد نے ڈیموکریسی ناؤ کو بتایا کہ:
”تقریباً سب لوگوں کو حکومت سے مسائل ہیں۔۔لیکن عبوری حکومت کی جائز تنقید کے باوجود، بشمول سویلین، زیادہ تر سوڈانی رد کریں گے۔۔اور فوجی آمریت کی واپسی رد کر بھی رہے ہیں۔۔زیادہ تر سوڈانی، خاص طور پر نوجوان، سال 2019ء کے انقلاب کے بعد، ان کے لئے انتہائی اہم ہے کہ وہ ایک مکمل سویلین حکومت اقتدار میں دیکھنا چاہتے ہیں، وہ انتخابات دیکھنا چاہتے ہیں۔ ذہن میں رہے کہ یہ عمر البشیر کی 30 سالہ آمریت کے بعد ہو رہا ہے۔۔یہ خیال کہ کئی مہینوں کے احتجاج کے بعد 30 سالہ آمریت کا خاتمہ ہوا اور اب وقت کا دھارا دوبارہ پلٹ رہا ہے، میرا خیال ہے کہ سوڈانی اکثریت اس کو کسی صورت قبول نہیں کرے گی“۔
اگرچہ برہان نے سال 2019ء میں RSF کے ”غلیظ“ ردِ انقلابی جبر سے اپنے آپ کو علیحدہ کرنے کی کوشش کی ہے لیکن عوام اس چال کو سمجھ چکی ہے۔ خرتوم میں موجود ایک صحافی عثمان مرگانی کے مطابق ”برہان اس لئے ذمہ دار ہے کیونکہ وہ قائد تھا، یہ سادہ معاملہ ہے۔۔اس نے وعدہ کیا تھا کہ دھرنے کو کچھ نہیں کہا جائے گا اور پھر ایک قتل عام ہو گیا۔ اسی لمحے عوام سمجھ چکی تھی کہ یہ کبھی بھی اپنے وعدے پورے نہیں کرے گا“۔
درحقیقت برہان کا سویلین اقتدار کے لئے فوجی ”عزم“ کا راگ کسی کو بھی بیوقوف نہیں بنا رہا۔ عوام کو روز روشن کی طرح واضح ہے کہ اگر فوج کی مرضی چلی تو پھر انتخابات سرے سے ہی نہیں ہوں گے یا پھر ان میں ایسی دھاندلی کی جائے گی کہ فوج کا تسلط قائم رہے۔
محلہ کمیٹیوں اور ہڑتالی محنت کش یونینز کی شکل میں ہم محنت کش طاقت کی پیدائش کا زندہ عمل رونما ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ یہی وہ قوتیں ہیں جو TMC کو شکست خوردہ کر سکتی ہیں۔ سال 2019ء کے برعکس اب SPA کو عوام کی انقلابی جدوجہد کو فوج کے ساتھ مذاکرات کے لئے ایک اوزار کے طور پر استعمال نہیں کرنا چاہیئے۔ اب عوام کی رہنمائی کرتے ہوئے رجعتی جرنیلوں کے ساتھ فیصلہ کن معرکہ ہونا چاہیئے تاکہ انہیں اقتدار سے ہمیشہ کے لئے خارج کر دیا جائے۔
اس لئے 30 اکتوبر کو ایک غیر معینہ مدت عام ہڑتال شروع ہونی چاہیئے جس کا واحد مقصد فوجی آمریت کا مکمل خاتمہ ہو۔ اس مقصد کے لئے عام سپاہیوں سے رابطہ کاری ہونی چاہیئے جو عوام کو مسلح کرنے اور ان کا تحفظ کرنے کے لئے انتہائی اہم جزو ہوں گے۔ اس کے ساتھ ایک دستور ساز اسمبلی منظم کر کے فوری سویلین اقتدار کا مطالبہ پیش کرنا چاہیئے تاکہ ایک حقیقی جمہوری عمل کے ذریعے سوڈان کے مستقبل کا تعین کیا جا سکے۔
لیکن صرف یہی کافی نہیں۔ دہائیوں سے جاری حکومتی آمرانہ اور جابرانہ رویہ سوڈانی سرمایہ داری کے غلیظ، گلے سڑے اور خون آشام کردار کا اظہار ہے جو عوام کو بنیادی ضروریات فراہم کرنے سے قاصر ہے۔ جمہوریت کوئی تجریدی مطالبہ نہیں ہے اور اس کی عدم موجودگی ایک ایسے سماج کے معاشی اور سماجی مسائل کی عکاسی کرتی ہے جس میں تقریباً 60 فیصد عوام غربت میں ڈوبی ہوئی ہے اور نصف سے زیادہ بے روزگار ہے یا پھر غیر مستقل نوکریوں پر زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ حتمی طور پر جمہوریت کا سوال روٹی کے سوال سے جڑا ہوا ہے۔ درحقیقت یہ سوڈانی معیشت کو ”مستحکم“ کرنے اور بیرونی قرضہ جات حاصل کرنے کے لئے عبوری حکومت کا جبری کٹوتی پروگرام تھا جس نے موجودہ کُو کا راستہ ہموار کیا ہے۔
جب تک سوڈان میں سرمایہ داری مسلط رہے گی اس وقت تک عوام کا کوئی ایک مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ اوپر بیٹھے دو چار لوگوں کو تبدیل کرنا ہی کافی نہیں جو ویسے بھی بشیر کے جانے کے بعد بھی اسی آمریت کے افراد ہیں۔ فوری اقدامات کے ذریعے سوڈان کو درپیش عمیق معاشی اور سماجی مسائل حل کرنے چاہئیں۔ ردِ انقلابی جرنیل، ان کے خون آشام سرمایہ دار دم چھلے اور پرانی آمریت کے تمام ممبران کے اثاثے اور دولت فوری طور پر ضبط کرنی چاہیئے۔ ان کے پیسے، سونا، تیل، بندرگاہیں، صنعتیں اور کاروبار کو محنت کشوں اور کسانوں کے جمہوری کنٹرول میں لینا چاہیئے اور اصلاحات کا ایک وسیع پروگرام شروع کرنا چاہیئے۔
ایک جمہوری پلان پر مبنی اس دولت کی سرمایہ کاری کرتے ہوئے عوام کے لئے اچھی نوکریوں اور رہائش، اشیاء خوردونوش، تیل اور اعلیٰ معیار عوامی تعلیم تک رسائی یقینی بنانی چاہیئے۔ تمام بیرونی قرضہ فوری طور پر منسوخ ہونا چاہیئے، سامراجی جونکیں پہلے ہی سوڈانی خون پر پل کر موٹی ہو چکی ہیں اور اب انہیں ایک اور قطرہ دینا بھی جرم ہے۔ زمین کسانوں میں بانٹ کر تکنیک، مشینری اور دیگر مادی وسائل میں سرمایہ کاری کرنی چاہیئے تاکہ پسماندہ زرعی سیکٹر کو فروغ دیا جائے۔
مختصر یہ کہ سوڈان کے انقلابی عوام کو ایک سوشلسٹ ریاست کی تعمیر کا عمل شروع کرنا چاہیئے۔ یہی وہ واحد راستہ ہے جس کے ذریعے ملک کو دائمی پسماندگی سے باہر نکال کر سامراج کا پنجا توڑا جا سکتا ہے اور رجعتی فوجی اشرافیہ اور ان کے خون آشام کتوں کو بھگایا جا سکتا ہے۔ سوڈان کی عوام اس جدوجہد میں تنہا نہیں ہے۔ پوری دنیا میں 30 اکتوبر کو جرمنی، برسلز، اٹلی، برطانیہ، سویڈن، ہالینڈ، کینیڈا، آسٹریلیا، ملائشیاء اور دیگر ممالک میں یکجہتی ریلیاں منعقد ہوں گی۔
محنت کش صرف اپنی اورپوری دنیا میں موجود اپنی بہنوں اور بھائیوں کی قوتوں پر ہی انحصار کر سکتے ہیں تاکہ حقیقی آزادی حاصل کرتے ہوئے ایک عظیم و شان مستقبل تعمیر کیا جا ئے۔ حتمی طور پر اس کا مطلب سرمایہ داری، اس کے غلیظ ایجنٹوں اور اس کی پیدا کردہ بربریت کے خلاف انقلابی جدوجہد ہے۔ یہ جدوجہد ہارن آف افریقہ سے لے کر پورے براعظم، پوری عرب دنیا اور پوری دنیا کے دیگر خطوں کے غرباء، محنت کشوں اور کسانوں کے لئے مشعل راہ ثابت ہو گی۔
فوجی آمریت کو ہمیشہ کے لئے باہر نکالو! انقلاب کو مکمل کرو!