”بالشویزم کے متعلق کوئی کچھ بھی سوچتا ہو مگر یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ روسی انقلاب کا شمار نسل انسانی کے عظیم ترین واقعات میں ہوتا ہے اور بالشویکوں کا اقتدار عالمگیر اہمیت کا حامل مظہر ہے“ (جان ریڈ، یکم جنوری 1919ء ،دنیا کو جھنجوڑ دینے والے دس دن، صفحہ نمبر 13)۔
[Source]
بالشویزم راہ انقلاب کے پہلے ایڈیشن کی اشاعت کو دو دہائیاں بیت چکی ہیں۔ اس کتاب کو ایسے افراد کی جانب سے بھی والہانہ پذیرائی ملی جو کہ مصنف کے سیاسی نقطہ نظر سے اتفاق نہیں رکھتے۔ اس کا مختلف زبانوں میں ترجمہ کیا جاچکا ہے اور ایک نئے اردو ایڈیشن کی اشاعت کی خبر یقیناً خوش آئند ہے۔ مارکسی نقطہ نظر کے مطابق اکتوبر انقلاب تاریخ عالم کا واحد سب سے عظیم واقعہ ہے۔ کیوں؟ چونکہ اگر پیرس کمیون کے سرفروشانہ مگر المناک واقعے کو چھوڑ دیا جائے تو اس کے ذریعے پہلی بار عوام الناس نے پرانے نظام کو اکھاڑ کر سماج کی سوشلسٹ تبدیلی کے عظیم فریضے کی تکمیل کا آغاز کیا تھا۔ مارکس نے کہا تھا ”فلسفیوں نے مختلف طریقوں سے دنیا کی تشریح کی ہے لیکن اصل سوال اس کو بدلنے کا ہے“۔ لینن اور ٹراٹسکی کی قیادت میں بالشویک پارٹی نے ساری دنیا کی تاریخ کو ایک ایسے ڈھنگ سے بدل کر کھ دیا تھا کہ اس کے اثرات آج بھی محسوس کیے جاتے ہیں۔ اس لیے یہ اہم نہیں کہ کوئی روسی انقلاب اور بالشویک پارٹی کے کردار کے بارے میں کیا رائے رکھتا ہے بلکہ کسی بھی مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے ہر باشعور فرد پر یہ لازم ہے کہ وہ اس سب سے اہم ترین تاریخی مظہر کا مطالعہ کرے۔ میں نے تیس سال تک بالشویزم کی تفصیلی تاریخ کے لیے مواد جمع کیا جس کے پیچھے یہ سادہ سی وجہ کارفرما تھی کہ مجھے ایک بھی کتاب ایسی نہیں ملی جس میں اس انتہائی اہم موضوع کے ساتھ انصاف کیا گیا ہو۔ بورژوا مؤرخین تو بالشویک پارٹی یا اکتوبر انقلاب کے بارے میں کوئی سنجیدہ تحریر لکھنے کی اہلیت سے ہی عاری ہیں۔ وہ نفرت اور بغض کے جذبات سے اس قدر زنگ آلود ہیں کہ وہ منافقانہ اور جھوٹی مدرسانہ ’معروضیت‘ جیسے لبادوں میں بھی ان کو چھپانے کی کوشش نہیں کرتے۔ یہ کہنے کی کچھ خاص ضرورت نہیں کہ اس نفرت میں ایک دوسرا جذبہ پوشیدہ ہے یعنی انقلاب کا خوف، اور سرمایہ داری کے اس عالمی بحران کی صورتحال میں ایک کے بعد دوسرے ملک میں اس کے دوبارہ ابھرنے کے خطرات موجود ہیں۔ سرمایہ داری کے معذرت خواہ اور مزدور تحریک میں ان کے وفادار گماشتے خود کو اس خیال سے تسلیاں دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ سوویت یونین کے انہدام کا مطلب سوشلزم کا خاتمہ تھا۔ روس میں ناکام ہونے والا نظام مارکس اور لینن کا وضع کردہ سوشلزم نہیں بلکہ اس کی بھونڈی نقالی پر مبنی ایک بد ہئیت آمرانہ افسر شاہی کا نظام تھا۔ بارہا تھونپے جانے والے الزامات کے برعکس درحقیقت سٹالنسٹ حاکمیت 1917ء میں بالشویکوں کے قائم کردہ جمہوری نظام کا بالکل الٹ تھی۔
کُو کی داستاں
یہ دلیل کہ اکتوبر انقلاب در اصل ایک کُو سے زیادہ کچھ نہیں تھا جو ایک چھوٹی سی غیر منتخب اقلیت نے کیا تھا جس کی قیادت لینن اور ٹراٹسکی کر رہے تھے، اس قدر بچگانہ ہے کہ مجھے سخت حیرت ہوتی ہے کہ کوئی بھی باشعور انسان کیسے اس پر اصرار کر سکتا ہے۔ لیکن یکساں باقاعدگی کے ساتھ اس پر اصرار کیا جاتا ہے۔ اور یوں ہم تاریخ کے دائرہ کار کو پیچھے چھوڑ کر پریوں کی کہانیوں یا سائنس فکشن کی دنیا میں پہنچ جاتے ہیں۔ اس حقارت آمیز داستان پر یقین رکھنے والوں سے میں نے بارہا یہ سوال کیا کہ آپ کی نوازش ہو گی اگر آپ مجھے اس غیرمعمولی کارنامے کو سر انجام دینے کا نسخہ بتا دیں تا کہ میں بھی کل برطانیہ میں اقتدار پر قبضہ کر لوں۔ لیکن افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ میں تا حال ان کے جواب کا منتظر ہوں۔ سادہ سی سچائی یہ ہے کہ کسی اقلیت کی سازش نہیں بلکہ اکتوبر انقلاب تاریخ کا عظیم عوامی انقلاب تھا، یہ کروڑوں مزدوروں اور کسانوں کی ایک طاقتور تحریک تھی جو اپنے مقدر کو اپنے ہاتھوں میں لینے کے لیے تاریخ کے میدان میں کود پڑے تھے۔ میں نے اپنی کتاب میں ثابت کیا ہے کہ کس طرح اکتوبر 1917ء تک بالشویک ہی واحد پارٹی تھے جنہوں نے عوام میں اپنا کام جاری رکھا اور عوام ان پر اعتماد کرتے تھے، اور کس طرح ان کی ’زمین، روٹی اور امن‘ کے لیے جدوجہد اور ”تمام اقتدار سوویتوں کو دو“ جیسے نعروں کے ذریعے انہوں نے عوام کی فیصلہ کن اکثریت کو اپنے پروگرام کے حق میں جیت لیا تھا۔ مگر یہ کامیابی آسمان سے نہیں گری تھی بلکہ دہائیوں پر محیط صبر آزما اور انتھک محنت کا نتیجہ تھی جس کے ذریعے ایک انقلابی پارٹی تخلیق کی گئی جو فیصلہ کن لمحات میں محنت کش طبقے کو رہنمائی فراہم کرنے کی اہلیت سے مالا مال تھی۔ یہی وہ غیر معمولی داستان ہے جسے میں نے اس کتاب کے صفحات پر مختصراً سمیٹنے کی کوشش کی ہے جو کُو جیسی بچگانہ کہانی کا مکمل صفایا کر تی ہے۔ تمام تر دستیاب تحریری مواد میں بالشویزم کی روایات کو بورژوازی کے ساتھ ساتھ سٹالنسٹوں نے بھی مکمل طور پر مسخ شدہ انداز میں پیش کیا ہے۔ بالشویک پارٹی اپنی فطرت میں مکمل طور پر جمہوری تھی۔ ہر موڑ پر پرُ جوش مباحثے اس کی تاریخ کا خاصہ رہے جنہوں نے اسے انقلابی عمل کے لیے پختہ کیا۔ اس قسم کی داخلی جمہوریت کی قطعی ضرورت اس لیے تھی تا کہ پارٹی اپنی غلطیوں سے سیکھ سکے۔ یہ تصور، کہ بالشویک پارٹی نے بغیر غلطیاں کیے اقتدار پر قبضہ کرنے تک ہمیشہ آگے کی جانب پیش قدمی جاری رکھی، سٹالنسٹوں کی گھڑی ہوئی داستان ہے جس سے کوئی کچھ نہیں سیکھ سکتا۔ دنیا بھر کے انقلابی لڑاکوں کی نئی ابھرتی ہوئی نسل کے لیے ان روایات کو از سر نو قابل رسائی بنانا ہو گا۔
سری لنکا کے اسباق
سری لنکا میں رونما ہونے والے حالیہ واقعات ہمارے سامنے زبردست ثبوت فراہم کرتے ہیں کہ ہر جگہ انقلابی تحریکوں کا ابھار معمول بنتا جا رہا ہے۔ اگر آپ یہ دیکھنے کے خواہاں ہیں کہ ایک انقلاب کیسا ہوتا ہے تو سری لنکا کی شاندار سرکشی دیکھ لیں۔ اس میں ہمیں عوام کی بے پناہ امکانی توانائی نظر آتی ہے۔ اگر کسی کو عوام کی انقلاب برپا کرنے کی صلاحیت پر کوئی شک و شبہہ تھا تو یہ اس کے لیے ایک منہ توڑ جواب تھا۔ عوامی تحریک نے صدر راجا پکشا کو بھاگ کر سنگا پور میں پناہ لینے پر مجبور کر دیا۔ لیکن فتح اپنی تکمیل سے ابھی تک بہت دور تھی۔ جب عوام نے اس سازش کو بھانپ لیا کہ وزیر اعظم رانیل وکرما سنگے کو قائم مقام صدر بنا یا جا رہا ہے تو عوام نے ایک سرکشی برپا کی۔ قائم مقام صدر نے ایمرجنسی کا نفاذ کرتے ہوئے فوج کو حکم دیا کہ عوام کو کچلا جائے۔ عوام پر آنسو گیس اور آبی توپوں سے تابڑ توڑ حملے کیے گیے۔ مگر اس انسانی سونامی کو کچھ بھی روک نہیں سکا۔ سری لنکا کے واقعات انتہائی سنجیدہ تجزیے کے متقاضی ہیں۔ ان سے کیا ثابت ہوتا ہے؟ یہ ثابت کرتے ہیں کہ جب عوام اپنے خوف پر قابو پا لیتے ہیں تو جبر کی کوئی بھی انتہا ان کو روک نہیں سکتی۔ یہ ہمیں دکھاتے ہیں کہ سماج میں ایک ایسی طاقت موجود ہوتی ہے جو کسی بھی ریاست، فوج اور پولیس سے زیادہ طاقتور ہوتی ہے۔ کسی قیادت، تنظیم اور واضح پروگرام کے بغیر عوام سڑکوں پر نکل آئے اور حکومت کا تختہ اتنی آسانی سے اکھاڑ پھینکا جیسے کوئی انسان ایک مچھر کو مارتا ہے۔ لیکن سری لنکا ہمیں کچھ اور بھی بتاتا ہے۔ عوام کی طاقت بہت عظیم ہوتی ہے لیکن یہ صرف ایک امکانی طاقت ہوتی ہے۔ اس کو امکانی سے حقیقی طاقت میں ڈھلنے کے لیے کچھ اور بھی درکار ہوتا ہے۔ درست قیادت کے بغیر انقلاب کبھی بھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔ طاقت چوکوں چوراہوں پر کسی اٹھانے والی کی منتظر پڑی تھی۔ احتجاج کرنے والوں کی جانب سے صرف اتنا کہہ دینا کافی تھا ”طاقت اب ہمارے پاس ہے۔ ہم ہی حکومت ہیں“۔ لیکن یہ الفاظ نہیں بولے گیے۔ طاقت عوام کے ہاتھوں میں تھی لیکن اسے ہاتھوں سے پھسلنے دیا گیا۔ اس عمل کی فطرت کی قوت کے ساتھ ایک زبردست مماثلت موجود ہے۔ بھاپ بھی اسی طرح کی ایک قوت ہے۔ اس نے صنعتی انقلاب کو قوت محرکہ فراہم کی۔ یہی وہ قوت ہے جو انجنوں کو حرکت میں لاتی ہے، روشنی پیدا کرتی ہے، اور بڑے شہروں میں زندگی کو متحرک رکھنے کے لیے توانائی اور حرارت فراہم کرتی ہے۔ لیکن بھاپ صرف اس وقت ایک طاقت بنتی ہے جب اسے پسٹن باکس نامی ایک میکنزم یا ڈھانچے میں مرتکز کیا جاتا ہے۔ اس ڈھانچے کے بغیر یہ محض بیکار انداز میں ہوا میں تحلیل ہو جاتی ہے۔ یہ محض ایک امکان ہی رہتی ہے اور ایک امکان سے زیادہ کچھ نہیں ہوتی۔ محنت کش طبقے پر بھی یہی بات صادق آتی ہے۔ کارل مارکس نے واضح کیا تھا کہ تنظیم کے بغیر محنت کش طبقہ صرف استحصال کا خام مال بن کر رہ جاتا ہے۔ صرف ایک تنظیم میں منظم ہونے کے بعد محنت کش طبقہ ”اپنے اندر طبقے“ سے ”اپنے اندر اور اپنے لیے ایک طبقہ“ بنتا ہے، یعنی یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ محض امکان سے ایک اصلی اور حقیقی طاقت بن جاتا ہے۔ جنگ کا بنیادی اصول ہے ”حملے کے مقام پر پوری طاقت سے وار کیا جائے“۔ اس کا اطلاق طبقاتی جنگ پر بھی ہوتا ہے۔ انقلابی پارٹی کا فریضہ ہوتا ہے کہ وہ عوام کی طاقتوں کو اس طرح مرتکز کرے تا کہ محنت کش ایک ہی وقت میں مخصوص مقام پر ضرب لگا سکیں۔ یہ اسی پسٹن باکس سے مماثل ہے جس کا ذکر گزشتہ سطور میں کیا گیا ہے۔ 1917ء میں بالشویک پارٹی نے بھی ٹھیک یہی کردار ادا کیا تھا۔ انقلاب کی کامیابی کی ضمانت بھی اسی نے فراہم کی تھی۔ اسی طرح مگر اس کے الٹ انداز میں ایک پارٹی اور قیادت کے فقدان نے سری لنکا کے عوام کی سرفروشانہ جدوجہد کو ضائع کر دیا۔ نظام کو اکھاڑ پھینکنے میں ناکامی کے باعث رانیل وکرما سنگے کو یہ موقع مل گیاکہ وہ پارلیمان میں ساز باز شروع کر سکے اور امن و امان بحال کرنے کے لیے احتجاجوں کو جبر کے ذریعے کچل سکے۔ عوام خاموشی سے صدارتی محل چھوڑ کر چلے گیے اور پرانی حاکمیت کو بحال ہونے کا موقع دے دیا۔ فتح کی تما م حاصلات دوبارہ انہیں استحصالیوں اور پارلیمانی چالبازوں کو سونپ دی گئیں۔ یہ ایک کڑوا سچ ہے۔ مگر یہی سچ ہے۔ تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ انقلاب کا خاتمہ ہو گیا ہے۔ سری لنکا میں عوامی بغاوت کا خاتمہ نہیں ہوا۔ جن معاشی اور سماجی مسائل نے عوام کو عمل میں متحرک کیا تھا وہ اپنی جگہ پر ابھی بھی موجود ہیں۔ انقلاب دوبارہ ابھرے گا اور پہلے سے زیادہ بلند معیار کو حاصل کرے گا۔ لیکن اسے پہلے سے زیادہ مشکل اور تکلیف دہ حالات کا سامنا کرنا پڑے گا جس میں کئی گنا زیادہ قربانیاں دینی پڑیں گی۔
پاکستان کھائی کے دھانے پر
یوکرائن جنگ کے آغاز کے بعد سری لنکا پہلا ملک تھا جو اپنے قرضوں کی ادائیگی کے معاملے میں دیوالیہ قرار پایا۔ یہ آخری نہیں ہو گا۔ نوے کروڑ سے زیادہ آبادی کے حامل 19 ممالک ایسے ہیں جن پر قرضوں کا بوجھ ان حدوں کو چھو رہا ہے جہاں ان کے دیوالیہ ہونے کے حقیقی امکانات موجود ہیں۔ اس فہرست میں ایل سلواڈور، گھانا، تیونس، مصر، پاکستان، ارجنٹینا اور یوکرائن بھی شامل ہیں۔ اس سے ہمارے سامنے واضح خاکہ ابھرتا ہے کہ ایک کے بعد دوسرے ملک میں کیا ہو گا۔ ہم بے پناہ حد تک تیز تر ہوتی طبقاتی جدوجہد اور انقلابی امکانات سے حاملہ صورتحال دیکھیں گے۔ مارکسی نقطہ نظر سے یہی اور صرف یہی اہم ترین نقطہ ہے۔ پاکستان اب ایک تباہ کن صورتحال سے دوچار ہے۔ واشنگٹن سے شائع ہونے والے ایک جریدے ”نیشنل انٹرسٹ“ سے وابستہ سنئیر لکھاری میخائل روبن کے مطابق ”جہاں بے شمار ممالک یوکرائن یا روس کی گندم یا تیل کی باہر سے درآمد پر انحصار کرتے ہیں مگر پاکستان کو ان دونوں اشیا کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر جولائی 2020ء سے جنوری 2021ء کے عرصے میں پاکستان یوکرائن سے برآمد ہونے والی گندم کا انڈونیشیا اور مصر کے بعد تیسرا بڑا خریدار تھا“۔ اس رپورٹ میں مزید لکھا ہے ”تیل کی قیمتوں میں اضافے نے پاکستان کو بر ی طرح متاثر کیا اور 2020ء اور 2021ء کے دوران ہی اس کی درآمدات کی قیمت 85 فیصد اضافے کے ساتھ تقریباً 5 ارب ڈالر زیادہ ہو چکی تھی۔ 30 جون 2022ء کو اختتام پذیر ہونے والے مالی سال میں اس کا کل تجارتی خسارہ گزشتہ سال کے مقابلے میں 57 فیصد اضافے کے ساتھ 50 ارب ڈالر کے قریب پہنچ چکا تھا“۔ عوام کی حالت ابتر ہو چکی ہے اور ایک گلے سڑے، بدعنوان نظام سے وہ بھوک، بدحالی اور کبھی نہ ختم ہونے والے مصائب کے علاوہ توقع بھی کیا کر سکتے ہیں۔ پاکستان کے عوام غربت کے اس قدر عادی ہو چکے ہیں کہ وہ بد حالی کو ناقابل تصور حدوں تک بھی برداشت کر سکتے ہیں۔ لیکن ہر چیز کی کوئی حد ہوتی ہے۔ سطح کے نیچے تلخیوں، غم و غصے، نفرت اور حقارت کا ارتکاز اپنے اظہار کی راہ تلاش کر رہا ہے۔ اسی طرح جیسے سطح زمین کے نیچے پروان چڑھنے والا بے پناہ دباؤ ایک دھماکہ خیز طاقت کے ساتھ پھٹ پڑنے کے لیے زمین کی سطح کے کمزور حصے کی تلاش میں رہتا ہے۔ تمام تر حالات ایک سماجی دھماکے کی راہ ہموار کر رہے ہیں۔ یہ طبقاتی جدوجہد اور حتیٰ کہ 1968-9ء کی طرز کے ایک انقلابی دھماکے کا حتمی نسخہ ہے۔ سری لنکا کے آئینے میں ہمیں پاکستان کے مستقبل کا عکس دکھائی دیتا ہے۔ لیکن جس طرح اس ملک میں ہم نے دیکھا کہ عوام کی تحریک اپنے تئیں کامیابی کی ناکافی ضمانت ہوتی ہے۔ پاکستان کے انقلابی لڑاکوں کی نئی نسل کے لیے ضروری ہے کہ وہ ماضی کے اسباق کا مطالعہ کریں چونکہ جیسا جارج سنتیا نا نے کہا تھا کہ جو لوگ تاریخ سے نہیں سیکھتے وہ ہمیشہ اس کو دوہرانے کے جرم کے مرتکب ہوتے ہیں۔ اور ہماری یہ ہر گز خواہش نہیں کہ ماضی کی تلخ شکستوں کو دوہرایا جائے بلکہ محنت کش طبقے کو سوشلسٹ انقلاب کی فتح کے لیے تیار کیا جائے۔ اس تیاری کا ایک اہم ترین حصہ یہ ہے کہ بالشویک پارٹی کی تاریخ کا سنجیدہ مطالعہ کیا جائے۔ یوں زیر ِنظر کتاب تاریخ کی کوئی مدرسانہ مشق نہیں بلکہ آج کے عہد میں انقلابی پارٹی کی تعمیر کا ایک اوزار ہے۔ اس قسم کی پارٹی سب سے پہلے ایک نظریہ، طریقہ کار اور روایات یعنی محنت کش طبقے کا تاریخی حافظہ اور اس کے بعد ان کو عملی جامہ پہنانے کا ایک آپریٹس یا ڈھانچہ ہوتی ہے۔ میں تہہ دل سے ان تمام کامریڈز کا مشکور بھی ہوں اور انہیں مبارکباد بھی پیش کرتا ہوں جنہوں نے اس کتاب کے ترجمے، تدوین اور اشاعت جیسے بھاری بھر کم فریضے کی تکمیل میں حصہ ڈالا۔ میں آپ سب کی اس انقلابی کاوش کی عظیم کامیابی کا متمنی ہوں۔
ایلن ووڈز، 19 اگست، 2022ء
کتاب کی قیمت: 2500 روپے
صفحات: 910
کتاب خریدنے کیلئے ہم سے رابطہ کریں۔ رابطہ کرنے کیلئے یہاں کلک