پارلیمانی انتخابات کے پہلے دور میں ریکارڈ عدم شرکت ہوئی جو 52.5 فیصد تھی۔ 2017ء میں یہ 51.3 فیصد اور 2012ء میں 42.8 فیصد تھی۔ بڑے پیمانے پر عدم شرکت ان انتخابات کا سب سے اہم نتیجہ ہے۔
[Source]
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
2017ء میں میکرون نے صدارتی انتخابات میں 24 فیصد ووٹ حاصل کیے تھے۔ جبکہ اس کی پارٹی (ایل آر ای ایم) کو محض 28.2 فیصد ووٹ ملے تھے۔ اس بار ایل آر ای ایم نے پارلیمانی انتخابات میں 25.7 فیصد ووٹ، جب کہ صدارتی انتخابات میں میکرون نے 27.8 فیصد ووٹ حاصل کیے۔ دوسرے الفاظ میں، 2017ء کے برعکس، ایل آر ای ایم نے دونوں انتخابات میں اضافے کی بجائے کمی دیکھی ہے۔ یہ بے مثال ہے اور خاص طور پر 2002ء کے بعد سے صدارتی اور پارلیمانی انتخابات کا یکے بعد دیگرے ہونے کے فیصلے کے بعد۔ (نوٹ: 2002ء سے پہلے فرانس میں صدارت کی مدت 7 سال، جبکہ پارلیمانی انتخابات ہر 5 سال بعد ہوتے تھے۔) دراصل یہ حقیقت میکرون کی کمزور پوزیشن کو واضح کرتی ہے۔
26 فیصد سے زیادہ ووٹوں کے ساتھ نیو ایکولوجیکل اینڈ سوشل پاپولر یونین (بائیں بازو کی جماعتوں کا اتحاد جس کی سربراہی میلنشون کی لا فرانس انسومی پارٹی کرتی ہے) اب 400 سے زائد حلقوں میں دوسرے راؤنڈ کے لیے کوالیفائی کرچکی ہے۔ اسے یقین ہے کہ 2017ء میں گرینز، پی ایس، ایف آئی، اور پی سی ایف (نیو ایکولوجیکل اینڈ سوشل پاپولر یونین کے ارکان) کی اجتماعی نشستوں کی تعداد کے مقابلے میں اس سال بہت بہتر نتائج حاصل ہونگے۔ اس وقت ان جماعتوں کے تقریباً 150 امیدواروں نے دوسرے راؤنڈ کے لیے کوالیفائی کیا تھا۔
کیا اگلے اتوار کو نیو ایکولوجیکل اینڈ سوشل پاپولر یونین سیٹوں کی اکثریت جیت سکتی ہے؟ تمام پولنگ اداروں کا جواب ’نہیں‘ میں ہے۔ وہ ایل آر ای ایم کے حق میں اکثریت (مطلق یا نسبتاً) نشستوں کی پیشین گوئی کرتے ہیں۔ لیکن ماضی میں یہی ادارے اپنی ’سیٹوں کے تخمینے‘ میں باقاعدگی سے غلط ثابت ہوتے رہے ہیں۔ یہ تخمینے شرکت اور ووٹ کی منتقلی پر مبنی ہیں جن کا اندازہ لگانا زیادہ مشکل ہے، کیونکہ یہ ہرحلقے میں نمایاں طور پر مختلف ہو سکتے ہیں۔ امکان ہے کہ میکرون کی پارٹی کو شکست دینے کے مقصد سے پہلے راؤنڈ میں عدم شرکت کرنے والوں کی ایک خاص تعداد اور یہاں تک کہ نیشنل ریلی (میرین لی پین کی انتہائی دائیں بازو کی پارٹی) کے ووٹرمتحرک ہو جائیں، جس کا فائدہ بالآخر نیو ایکولوجیکل اینڈ سوشل پاپولر یونین کو ہوگا۔ لیکن کس تناسب سے؟ یہی وہ سوال ہے جس کا جواب دوسرے راؤنڈ کے نتائج کا فیصلہ کرے گا۔
نیو ایکولوجیکل اینڈ سوشل پاپولر یونین کے خلاف ایل آر ای ایم کے امیدواروں کے پاس دائیں بازو کے ریپبلکن اور یو ڈی آئی کے ووٹ محفوظ ہیں، جنہوں نے 2017ء میں 18.8 فیصد کے مقابلے میں اس سال 11.3 فیصد ووٹ حاصل کیے۔ پولنگ انسٹیٹیوٹ کی ’پیشین گوئیاں‘ بنیادی طور پر اسی عنصر اور دوسرے راؤنڈ میں اتنی یا اس سے بھی زیادہ عدم شرکت کی سطح کے مفروضے پر مبنی ہیں۔ چونکہ آر این اکثریتی حلقوں میں ہار چکی ہے، اس کے پہلے راؤنڈ کے بہت سے ووٹر دوسرے راؤنڈ میں انتخابی عمل میں شامل نہیں ہونگے۔ اگلے اتوار کو آر این ووٹرز کا رویہ نتیجے کے فیصلہ کن عوامل میں سے ایک ہوگا۔
اتفاقی طور پر، ہم دیکھتے ہیں کہ ایل آر ای ایم، ”آر این کے خلاف ریپبلکن فرنٹ“ کا مطالبہ نہیں کر رہا جب مؤخر الذکر نیو ایکولوجیکل اینڈ سوشل پاپولر یونین کے خلاف کھڑا ہے۔ ایل آر ای ایم کے لیے ’ریپبلکن فرنٹ‘ صرف اس وقت اہم ہے جب یہ ان کے اپنے فائدے کے لیے کام آتا ہے۔ یہ سراسر منافقت ہے، اور یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ صدارتی انتخابات کے دوسرے راؤنڈ میں میکرون کے ’ریپبلکن فرنٹ‘ کا ساتھ دینا کتنی بڑی غلطی تھی۔
نیشنل ریلی 18.7 فیصد ووٹوں کے ساتھ، جون 2017ء (13.2فیصد) کے مقابلے میں، اپنے نتائج میں نمایاں بہتری لائی ہے۔ وہ پراعتماد ہے کہ میرین لی پین کی پارٹی 1986ء کے بعد پہلی بار پارلیمانی گروپ بنانے میں کامیاب ہو جائے گی۔ (نوٹ: 1986ء میں، نیشنل فرنٹ (نیشنل ریلی کا پرانا نام) کے پاس متناسب ووٹنگ سسٹم کی بنیاد پر ایک پارلیمانی گروپ تھا۔ ووٹوں کی تعداد کے لحاظ سے ایف این آج کے آر این سے بہت کمزور تھا۔) اگر ہم ایرک زیمور کی پارٹی کے 4.2 فیصد ووٹ شامل کریں تو انتہائی دائیں بازو کے ووٹ 22.9 فیصد تک پہنچ جاتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں، پارلیمانی انتخابات کا پہلا دور بڑھتی ہوئی سیاسی پولرائزیشن کی عکاسی کرتا ہے، جو صدارتی انتخابات میں پہلے ہی واضح طور پر دیکھا جا سکتا تھا۔
ایک بار پھر ریپبلکن سائیڈ پر ایل آر ای ایم کے لیے محفوظ ووٹوں کو دیکھتے ہوئے، نیو ایکولوجیکل اینڈ سوشل پاپولر یونین اتوار کو صرف اس صورت میں جیت سکتا ہے جب وہ پہلے راؤنڈ میں عدم شرکت کرنے والوں کے ساتھ ساتھ نیشنل ریلی کے ووٹرز کو بھی متحرک کرنے میں کامیاب ہو جائے۔ لیکن یہ اتنا آسان نہیں ہے۔ جیسا کہ ہم نے پہلے راؤنڈ سے قبل نشاندہی کی تھی کہ نیو ایکولوجیکل اینڈ سوشل پاپولر یونین (جو ایف آئی سمیت دیگر بدنام جماعتوں کا اتحاد ہے) لاکھوں محنت کشوں، بے روزگاروں اور غریب پنشنرز میں جوش و خروش پیدا کرنے سے قاصر ہے، جو اولاند، جوسپن اور مٹررینڈ کے ماتحت اقتدار میں ’بائیں بازو‘ کی دھوکہ دہی کو نہیں بھولے ہیں۔ اسی طرح، بہت سے ووٹر ’بائیں بازو کے اتحاد‘ کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہیں، جس کے اتحادیوں میں پروگرام کے متعلق واضح اختلافات ہیں۔
اگر پہلے راؤنڈ میں ’بائیں بازو کی یونین‘ دوسرے راؤنڈ کے لیے کوالیفائی کرنے میں کامیاب ہوئی، تو ہمیں نیو ایکولوجیکل اینڈ سوشل پاپولر یونین کے نتیجے کو تھوڑا اور قریب سے دیکھنا چاہیے۔ اسے عدم شرکت کے انتہائی اعلیٰ درجے کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔ صدارتی انتخابات میں میلنشون کے ووٹروں کی ایک بڑی تعداد (شاید تقریباً نصف) نے اس بار ووٹ نہیں دیا۔ انتخابی حرکیات پر ڈالے گئے ووٹوں کی تعداد کی بنیاد پر غور کیا جانا چاہیے، جس سے بہت کچھ واضح ہو جاتا ہے۔ 2017ء کے پارلیمانی انتخابات کے پہلے مرحلے میں ایس آئی، پی ایس، پی سی ایف اور گرینز کے امیدواروں نے مجموعی طور پر 5.77 ملین ووٹ حاصل کیے۔ اس بار، نیو ایکولوجیکل اینڈ سوشل پاپولر یونین کے امیدواروں نے وزارت داخلہ کے مطابق 5.83 ملین اور فرانس انسومی کی قیادت کے مطابق 6.1 ملین ووٹ حاصل کیے۔ مؤخر الذکر اعداد و شمار، جو شاید زیادہ درست ہیں، کے مطابق حقیقت یہ ہے کہ ڈالے گئے ووٹوں کے لحاظ سے ’بائیں بازو کا اتحاد‘ ایک مضبوط انتخابی پیش رفت کرنے میں ناکا م رہا۔
دوسرے راؤنڈ میں، عالمی مارکسی رجحان کا فرانسیسی سیکشن (ریولوشن)، نیو ایکولوجیکل اینڈ سوشل پاپولر یونین کے اُن امیدواروں کے لیے ووٹ کی حمایت کرتا ہے جو دوسرے راؤنڈ کے لیے کوالیفائی کر چکے ہیں۔ ہمیں ایل آر ای ایم کو شکست دینے کے لیے متحرک ہونا چاہیے، یا جہاں تک ممکن ہو قومی اسمبلی میں دائیں اور انتہائی دائیں بازو کے اثر اور تعداد کو کم کرنا چاہیے۔ خاص طور پر، بڑی تعداد میں انسومی امیدواروں کا انتخاب ایک بہت اچھی بات ہوگی، لیکن صرف ایک شرط پر: کہ ایف آئی کی قیادت پچھلے پانچ سالوں سے سبق سیکھے۔ جس کا مطلب ہے کہ وہ بائیں بازو کی جانب مڑے، اپنے پروگرام کو انقلابی بنائے، ’تحریک‘ کو ایک جمہوری پارٹی میں تبدیل کرے اور بالآخر، پارلیمانی اپوزیشن کو سڑکوں پرمتحرک کرے۔
میکرون کا مقصد قومی اسمبلی میں مکمل اکثریت حاصل کرنا تھا۔ فی الحال اایسا ہونے کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔ تاہم، اگر وہ صرف نسبتاً اکثریت حاصل کرتا ہے تو میکرون اپنی پالیسیوں پر ووٹ دینے کے لیے ریپبلکن ممبران پارلیمنٹ کا سہارا لے سکتا ہے: ان کے نظریات اور پروگرام ایک جیسے رجعت پسند ہیں۔ میکرون کو کچھ مواقعوں پرپی ایس اورگرینز کے ممبران پارلیمنٹ کی حمایت بھی مل سکتی ہے۔ اگر اگلے اتوار کو ایل آر ای ایم کے پاس صرف نسبتاً اکثریت آتی ہے تو میکرون کو درپیش بنیادی مسئلہ قومی اسمبلی میں نہیں ہو گا بلکہ سڑکوں پرنوجوانوں اور محنت کش طبقے کے متحرک ہونے میں ہو گا، جو مہنگائی اور رداصلاحات کے خلاف کبھی بھی پھوٹ سکتے ہیں۔ اس تناظر میں، اگر ایف آئی اپنے اثر و رسوخ کے مطابق کوئی کردار ادا کرنا چاہتی ہے تو اسے اپنا ساری توانائیاں اور وقت سماجی جدوجہد کی ترقی پر خرچ کرنا ہوگا۔