جیمز ویب سپیس ٹیلی سکوپ سے موصول ہونے والی تصاویر نے پوری دنیا کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔ انسانوں نے اس سے پہلے کائنات کی اتنی شفاف اور دور کی تصاویر کبھی حاصل نہیں کی تھیں۔ توقعات کے مطابق، اٹلی میں رومن کیتھولک چرچ کے فلکیات کے شعبے سے وابستہ ایک ماہرِ فلکیات نے ان تصاویر کے بارے میں کہا کہ ”ہمارے سامنے خدا کی تخلیق عیاں ہو رہی ہے، اور ان میں ہم اس کی انتہائی حیرت انگیز طاقت اور خوبصورتی کے لیے اس کا پیار، دونوں دیکھ سکتے ہیں۔“
[Source]
مگر خدا کی تخلیق کو سراہنا تو دور، جیمز ویب سے اب ایسا ڈیٹا موصول ہونا شروع ہوا ہے جو کائنات کے وجود میں آنے کے جدید افسانے یعنی بگ بینگ تھیوری کے لیے شدید مشکلات کا باعث بن رہا ہے۔ خلا کا مشاہدہ جیسے جیسے گہرا ہوتا جا رہا ہے، کائنات کے آغاز اور اس کے ارتقاء کے بارے میں لمبے عرصے سے چلے آنے والے پرانے تمام توہمات رد ہوتے جا رہے ہیں، اور اہم سائنسی و فلسفیانہ سوالات پر گہری اور شاندار روشنی پڑ رہی ہے۔
جیمز ویب کو پچھلے دسمبر میں ہمارے سیارے سے 15 لاکھ کلومیٹر کے فاصلے پر مدار میں بھیجا گیا تھا، اور تقریباً 6 مہینوں کی پیمانہ بندی اور محض 12 گھنٹوں کے مکمل آپریشن کے بعد اس نے انتہائی متاثر کن تصاویر لی ہیں۔ اس کی 25 مربع میٹر کی طاقتور آنکھ پرانی ہبل ٹیلی سکوپ سے 100 گنا زیادہ طاقت کے ساتھ وسیع پیمانے پر انفراریڈ شعاعوں کو دیکھنے کی اہل ہے، جو کائنات اور اس میں ہمارے وجود کی سمجھ بوجھ کے حوالے سے ایک انقلابی تبدیلی کا پیش خیمہ ہے۔
ایک پریس کانفرنس میں ناسا نے 5 حیرت انگیز تصاویر جاری کیں۔
ان میں سے ایک تصویر زمین سے 7500 نوری سال کے فاصلے پر واقع کیرینا نیبولا کی ہے: گیس اور گرد کا ایک ڈھیر جو نئے ستاروں کی پیدائش گاہ ہے۔ یہاں سائنسدان ستاروں کے جنم لینے کے عمل کا قریب سے مطالعہ کرنے کے اہل ہوں گے۔ جیسا کہ ناسا کے سائنسدان ایمبر سٹران نے وضاحت کی: ”ہمیں ستاروں کی ایک بہت بڑی تعداد نظر آ رہی ہے اور وہاں وسیع کائناتی چوٹیوں اور ان کے لا محدود سمندر کو دیکھا جا سکتا ہے۔ کیرینا نیبولا میں نومولود ستاروں کو دیکھا جا سکتا ہے، جہاں الٹرا وائلٹ شعاعیں اور نجمی ہوائیں گرد اور گیس کی دیوہیکل دیواریں قائم کرتی ہیں۔ ہم سینکڑوں نئے ستاروں کو دیکھ سکتے ہیں۔ نومولود ستاروں کی لہروں اور ان کے پیچھے چھپی ہوئی مزید کہکشاؤں کو دیکھا جا سکتا ہے۔“
ایک اور انتہائی دلکش تصویر ’ایٹ برسٹ نیبولا‘ کی ہے۔ اس میں ہمارے سیارے سے 2500 نوری سال کے فاصلے پر ایک ستارے کو مرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے، جو واحد خلیے والے جاندار امیبا کی شکل سے مماثلت رکھنے والے گیس کے ایک دیوہیکل بادل کے بیچ روشن ہے۔ کیرینا میں سائنسدان ستاروں کو جنم لیتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں جبکہ یہاں پر وہ ان کی موت کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔
ایک انتہائی حیرت انگیز تصویر 30 کروڑ نوری سال دور واقع ’سٹیفنز کوئنٹیٹ‘ کی ہے۔ اس تصویر میں پانچ کہکشاؤں کو دیکھا جا سکتا ہے جن میں سے چار ایک دوسرے کے گرد گھوم رہی ہیں، کہکشاؤں کے اس قسم کے جھرمٹ کو پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا تھا۔ کہکشاؤں کا یہ دیوہیکل رقص ایک بلیک ہول کے گرد ہو رہا ہے جو گیس کو سورج کی روشنی سے 40 ارب گنا زیادہ توانائی کے ساتھ خارج کررہا ہے۔ یورپین سپیس ایجنسی کی ماہرِ فلکیات جیوانا جاردینو کے مطابق، ”ہم بذات خود بلیک ہول کو تو نہیں دیکھ سکتے، مگر بھنور میں موجود مواد کے ہڑپ کئے جانے سے اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔“ اس تازہ ترین ڈیٹا کو استعمال کرتے ہوئے، سائنسدان کہکشاؤں کے بیچ رونما ہونے والے باہمی عمل، اور اجرامِ فلکی کے جنم میں اس قسم کے ہنگامہ خیز رقص کا کردار سمجھنے کی امید کر رہے ہیں۔
زمین سے 1150 نوری سال کی دوری پر ’واسپ 96 بی‘ نامی ایک دیوہیکل گیسی سیارہ(gas giant)دیکھا جا سکتا ہے، جس کی کمیت (mass) مشتری (Jupiter) سے تقریباً آدھی ہے مگر یہ اس سے 1.2 گنا بڑا ہے، جس کی فضا میں پانی کی موجودگی کے شواہد ملے ہیں۔ آبی بخارات، جو زندگی کے ظہور کی اولین شرط ہیں، کائنات میں کثرت سے موجود ہو سکتے ہیں۔ 1995ء کے بعد اب تک ہمارے نظامِ شمسی کے باہر 5 ہزار سیارے(exoplanets)دریافت کیے جا چکے ہیں۔ جیمز ویب ٹیلی سکوپ ان کے مطالعے میں مدد فراہم کرے گی اور اس کا تعین کرے گی کہ ان میں سے بعض پر زندگی کے لیے سازگار حالات موجود ہیں یا نہیں۔
نئی تصاویر ارتقاء کے مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے مادے کی مختلف دلکش شکلوں کو دکھاتی ہیں۔ وہ ایک ایسی کائنات کو سامنے لاتی ہیں جو جنم اور تباہی کے دیوہیکل عمل کا منظر پیش کر رہی ہے، جہاں ستاروں اور کہکشاؤں کو تخلیق کرنے والے ناقابلِ تصور تناؤ کا عمل جاری ہے، جس کے نتیجے میں زندگی کے ظہور کے لیے سازگار حالات پیدا ہوتے ہیں؛ ان میں ہم وہ حیرت انگیز نظارے دیکھ سکتے ہیں جو جدلیاتی شکل میں مادے کی ارتقائی پیچیدگی کی منظر کشی کر رہے ہیں۔
بگ بینگ
شاید سب سے شاندار اور وسیع پیمانے پر گردش کرنے والی تصویر ’ویبز فرسٹ ڈیپ فیلڈ‘ کی ہے، جس میں دور دراز کی کہکشاؤں کا نظارہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ ناسا کے ڈائریکٹر بِل نیلسن کے مطابق، اس تصویر میں ”کائنات کا ایک نہایت چھوٹا سا حصہ دکھائی دیتا ہے، جو کسی پھیلائے ہوئے بازو کی انگلی پر ریت کے ایک ذرے کے برابر ہے۔“ آسمان کے اس چھوٹے سے حصے میں ہر قسم کی شکل والی بے شمار کہکشائیں دیکھی جا سکتی ہیں: لمبی، ہموار، گول؛ کچھ اتنی روشن کہ ان کی روشنی سے پڑوسی کہکشائیں چھپ رہی ہیں۔ ”کائنات ہمیں اچنبھے میں ڈالتی ہے،“ نیلسن کا کہنا تھا۔ ”ہم اس کی وسعت کے بارے میں پوری طرح تصور بھی نہیں کر سکتے۔ ایسی کوئی تصویر نہیں جو اس کو اس کی تمام تر عظمت کے ساتھ پیش کر سکے، مگر اس ہفتے اس حوالے سے ایک اہم پیش رفت ہوئی۔ پورا ہفتہ ہم جیمز ویب ٹیلی سکوپ سے لی جانے والی پہلی تصویر کو جذباتی ہو کر دیکھتے رہے ہیں۔ اگر آج کارل ساگان اس تصویر کو دیکھ پاتا تو وہ ضرور مسکراتا!“
ان میں سب سے دور دراز کہکشائیں ’ریڈ شفٹ‘ (دور ہونے والی کہکشائیں برقی مقناطیسی سپیکٹرم -Electromagnetic Spectrum- پر سرخ دکھائی دیتی ہیں) کے باعث سرخی مائل قوس دکھائی دیتی ہیں، اور ثقالتی(Gravitational)لینزنگ (جب کہکشاؤں کے جھرمٹ کا ثقالتی میدان اپنے پیچھے چھپی ہوئی دور دراز کہکشاؤں کی روشنی کو بڑھاتا اور مسخ کرتا ہے] یعنی اس کا رخ تبدیل کر دیتا ہے [اور یوں وہ نظر آنے لگ جاتی ہیں) کے باعث مسخ شدہ شکل میں نظر آتی ہیں۔ ابتدائی حساب کتاب کے مطابق ان کہکشاؤں کی روشنی 13 ارب سال سے زائد عرصہ پہلے خارج ہونا شروع ہوئی تھی۔یاد رہے کہ بگ بینگ تھیوری کے مطابق پوری کائنات 13 ارب 80 کروڑ سال پہلے بن گئی تھی، جس کا مطلب یہ کہکشائیں بگ بینگ کے چند کروڑ سال(جدید اندازوں کے مطابق 20 کروڑ سال) بعد کے عرصے میں وجود میں آئیں۔ مگر کائنات کے مبینہ آغاز کے بعد بننے والی ابتدائی کہکشاؤں کا مشاہدہ کرنے سے بگ بینگ تھیوری کی صداقت پر سنجیدہ سوالات کھڑے ہوتے ہیں۔ کائنات بننے کے بعد اتنے مختصر عرصے میں یہ روشن اور مکمل کہکشائیں کس طرح وجود میں آ سکتی ہیں؟ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کسی کا بالغ حالت میں جنم لینا۔ کہکشاؤں کے بننے کے مقبول ترین نظریات کے مطابق دیوہیکل کہکشائیں کائناتی گرد کے چھوٹے اور ہلکے بادلوں سے بنتی ہیں جو بتدریج ایک دوسرے میں ضم ہو تے جاتے ہیں۔ اس عمل میں اربوں سال لگتے ہیں۔
اگر یہ بگ بینگ تھیوری کے مطابق واقعی کائنات کے بچپن کا دور ہوتا، تو تب کی کہکشائیں اتنی چھوٹی اور کمزور ہوتیں کہ ہم شائد کچھ بھی دیکھنے کی توقع نہیں کر سکتے تھے۔ دیوہیکل کہکشائیں بعد میں کہیں جا کر باہمی انضمام کے ذریعے وجود میں آتیں۔ مگر یہاں پر تو جیمز ویب کی پہلی تصاویر میں ہی ہمیں کہکشائی دیو نظر آ رہے ہیں: جن کا وجود بگ بینگ تھیوری کے مطابق اس دور میں ممکن ہی نہیں تھا۔
جیمز ویب سے پہلے کے مشاہدات بھی ماہرین فلکیات کو پریشان کن شکوک و شبہات کا شکار کر رہے تھے۔ 2016ء میں ’جی این ز11‘ کہکشاں دریافت کی گئی تھی۔ پہلی مرتبہ اس کی روشنی 13 ارب 40 کروڑ سال قبل خارج ہوئی تھی، یعنی رائج نظریات کے مطابق کائنات کے آغاز کے 40 کروڑ سال بعد۔ فلکیاتی حوالے سے 40 کروڑ سال محض ہوا کا جھونکا ہے۔ 2020ء میں قدیم ترین بلیک ہول دریافت کیا گیا تھا جو 12 ارب 80 کروڑ سال پرانا تھا۔ مگر بلیک ہول ایک ایسے عرصے میں کیسے جنم لے سکتا ہے جب مادہ اتنا بکھرا پڑا ہو کہ ثقالتی انہدام(gravitational collapse)ہونے کے امکانات ہی نہ ہوں؟ یونیورسٹی آف آکسفورڈ کی جونیئر محقق اور بلیک ہولز میں مہارت رکھنے والی بیکی سمیتھرسٹ کا کہنا ہے:
”فرض کیجیے کہ ابتدائی ستاروں نے بگ بینگ کے 20 کروڑ سال بعد بلیک ہول بنایا تھا۔ ان(ستاروں) کے منہدم ہونے کے بعد سے لیکر اب تک تقریباً ساڑھے تیرہ ارب سال کا عرصہ تھا جس میں ان بلیک ہولز کی کمیت بڑھتے بڑھتے سورج سے اربوں گنا زیادہ ہو گئی۔ یہ کافی مختصر عرصہ ہے جس میں یہ ممکن نہیں ہے۔“
پھر 2021ء میں ’بی آر آئی 0417-1335‘ کہکشاں دریافت کی گئی، 12 ارب 40 کروڑ سال پرانی ایک خم دار کہکشاں، مگر بگ بینگ تھیوری کے مطابق اس قسم کی پیچیدہ کہکشاں بننے کے لیے ایک ارب سال مزید درکار تھے۔ ”ہم نے کائنات کے ایک ایسے دور میں دیوہیکل کہکشائیں دریافت کی ہیں جب ان کا وجود میں آنا ممکن معلوم نہیں ہوتا۔ اب ہمیں یہ جاننے کے لیے مزید ڈیٹا کی ضرورت ہے کہ یہ کیسے وجود میں آئیں،“ یونیورسٹی آف دی پیسیفک کے طبیعیات دان گیئیرمو بارو نے کہا۔ جیمز ویب ان سوالات پر مزید روشنی ڈالے گی۔ مگر یہ ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ نیا ڈیٹا بگ بینگ تھیوری کے حامیوں کے لیے مزید مسائل ہی کا باعث بنے گا۔
ابھی اتنا عرصہ نہیں گزرا، اور ابتدائی مشاہدات کی تصدیق کے لیے مزید سخت تجزیے کی ضرورت ہے، مگر بعض کا ابھی سے ماننا ہے کہ جیمز ویب نے قدیم ترین کہکشاؤں کو دریافت کر لیا ہے: یعنی گلاس-ز11 اور گلاس-ز13، جنہیں ’گلاسی‘ کہا جا رہا ہے۔ ابتدائی تجزیے کے مطابق، یہ کہکشائیں بگ بینگ کے محض 30 کروڑ سال بعد بنی ہیں۔ ان کے موازنے میں ہمارا سیارہ 4 ارب 50 کروڑ سال پرانا ہے، اور ہماری کہکشاں ملکی وے کو محض ایک گردش مکمل کرنے میں 20 کروڑ سال لگتے ہیں! کہکشاؤں کے ارتقاء کی روایتی تھیوری یہ وضاحت نہیں کر سکتی کہ اتنے مختصر عرصے میں یہ کہکشائیں کس طرح وجود میں آئیں۔ اور یہ تو بس شروعات ہے۔ کچھ غیر شائع شدہ (پری پرنٹ) تحقیقی مضامین میں ان سے بھی پرانی کہکشاؤں کی دریافت کے دعوے کیے گئے ہیں۔ ایک سائنسی صحافی کے الفاظ میں:
”در حقیقت، فلکی طبیعیات دان ابھی سے ابتدائی کائنات کو توقعات سے کافی زیادہ فعال پا رہے ہیں۔ بعض نظریات کی پیشگوئی کے برعکس ستارے شاید کافی تیز تر رفتار کے ساتھ بننا شروع ہوئے ہوں گے۔ اتنا جلدی مادے نے کس طرح آپس میں ضم ہو کر ان کہکشاؤں کو تخلیق کیا؟ ہم ابھی نہیں جانتے۔ مگر لگتا ہے کہ جیمز ویب ابھی سے ہی کائنات کے آغاز کے بارے میں ہمارے پرانے خیالات کو رد کر رہا ہے۔“
’گلاسی‘ پر بات کرتے ہوئے اسی مضمون میں مزید لکھا گیا ہے:
”۔۔۔ ماہرین فلکیات گلاسی کے امکانات پر خوشی سے پھولے نہیں سما رہے، جو ممکنہ طور پر ریکارڈ توڑنے کے علاوہ ان کے تصورات سے کافی زیادہ عجیب بھی ہے۔ ماہرین فلکیات ہمیشہ سے سوچتے آئے تھے کہ کائنات کی تاریخ کے اتنے آغاز میں اتنی بڑی کہکشاؤں کا وجود ممکن نہیں تھا، جن کے ستاروں کی تعداد بگ بینگ سے تقریباً 50 کروڑ سال بعد بڑھنے لگی تھی۔ مگر گلاسی انتہائی درخشاں ہے، جو اس میں ستاروں کی کثرت کی جانب اشارہ ہے، اور جو مل کر ہمارے سورج سے 1 ارب گنا زیادہ بڑے ہیں۔“
یہ محض ان کہکشاؤں کا حجم نہیں جو رائج نظریے کے لیے مسئلے کا باعث بن رہا ہے۔ ان کی ساخت میں بھی یہی چیز نظر آتی ہے۔ یہ جس مواد سے بنی ہیں، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ستاروں کی کئی نسلوں سے بارہا ری سائیکل ہوتا رہا ہے۔ بگ بینگ کے نظریہ دانوں نے حساب لگایا تھا کہ ابتدائی دھماکے کے بعد فقط ہائیڈروجن، ہیلیئم اور بھاری عناصر کی تھوڑی سی مقدار موجود تھی۔ مگر ان ابتدائی کہکشاؤں کے ابتدائی ستاروں میں ابھی سے ہی بکثرت بھاری عناصر اور گرد کے شواہد ملے ہیں۔ اس قسم کی ابتدائی کہکشاؤں کا مطالعہ کرنے والے ایک سائنسدان نے 2020ء میں لکھا تھا:
”پچھلے مطالعات سے ہم سمجھتے تھے کہ اس قسم کی نئی کہکشاؤں میں گرد کی کمی ہوگی۔ البتہ، اس ابتدائی دور میں بننے والی 20 فیصد کہکشاؤں کو ہم نے نہایت گرد آلود پایا ہے اور نومولود ستاروں کی الٹرا وائلٹ شعاعوں کا ایک بڑا حصہ اس گرد نے چھپایا ہوا ہے۔“
کہکشاؤں کے بننے۔۔۔ گیس، گرد اور ستاروں کی دیوہیکل پُر پیچ جھرمٹوں۔۔۔ کا سوال ابھی محض ایک چھوٹا پہلو ہے۔ مشاہداتی فلکیات نے اس سے کئی گنا بڑے ڈھانچے دریافت کیے ہیں جس نے بگ بینگ پر یقین رکھنے والے علم کائنات کے ماہرین کو حیرت اور الجھن میں ڈال دیا ہے۔ بگ بینگ کے مفروضوں کے مطابق فلکیاتی ڈھانچوں میں سے کوئی بھی 25 کروڑ نوری سال سے زائد چوڑائی نہیں رکھ سکتا۔ مگر پھر بھی ہر سال ماہرین فلکیات ایسے بڑے سے بڑے دیوہیکل ڈھانچے دریافت کر رہے ہیں جو اربوں نوری سال کی چوڑائی رکھتے ہیں۔
2021ء میں ماہرین فلکیات نے ’دی جائنٹ آرک‘ نامی ڈھانچہ دریافت کیا۔ اگرچہ اسے انسانی آنکھ سے دیکھ پانا ممکن نہیں ہے، مگر اگر ایسا ممکن ہوتا تو یہ آسمان میں 20 پورے چاند جتنے حصے پر پھیلا ہوا نظر آتا۔ اس کے باوجود کہ کہکشاؤں کی چونکا دینے والی یہ دیوہیکل ڈور 9 ارب نوری سال کے فاصلے پر واقع ہے، اور 3 ارب 30 کروڑ نوری سال لمبی ہے۔ بلاشبہ جیمز ویب اسی طرح کے دیگر دیوہیکل ڈھانچے دریافت کرتا جائے گا، جن میں سے بعض شاید ’دی جائنٹ آرک‘ سے بھی بڑے نکلیں گے۔
اس قسم کے ڈھانچے میں سے گزرنے کے لیے روشنی کو بھی اربوں سال درکار ہوں گے۔ جبکہ کششِ ثقل کے ذریعے کسی مادی شے کو گرتے ہوئے تو ان گنت زمانے لگ جائیں گے۔
ان دریافتوں سے بگ بینگ تھیوری کو مسائل کا سامنا ہے۔ اس تھیوری کے حامی محض حیلے بہانے کر کے نئے مشاہدات کو زبردستی اپنے پرانے نقطہ نظر کے مطابق ڈھالنے کی کوشش ہی کر سکتے ہیں، جیسا کہ وہ دہائیوں سے کرتے آئے ہیں۔
حقیقی سائنس تب ہی آگے بڑھتی ہے جب ہمارے نظریات ہمارے مشاہدات کی وضاحت کرنے کے اہل ہوں۔ ایک مرحلے پر جا کر ناقابلِ وضاحت مشاہدات کے بڑھ جانے کے ساتھ نئے نظریات ترتیب دینے پڑتے ہیں۔ بلاشبہ ماہرین فلکیات کے بیچ الجھن پائی جا رہی ہے۔ ایک غیر شائع شدہ مضمون کا عنوان تھا ”پریشانی کی لہر!“۔ یونیورسٹی آف کینساس کی پروفیسر ایلیسن کرکپیٹرک نے ٹویٹ کیا: ”اس وقت رات کے تین بج رہے ہیں اور میں سوچ رہی ہوں کہ میں نے جو کچھ کیا ہے وہ سب کہیں غلط نہ ہو۔“
بہرحال، سائنسی اشرافیہ کا شعور کافی قدامت پرست ہے۔ چنانچہ بنیادی نظریے، یعنی کائنات کا بگ بینگ سے وجود میں آنا، پر سوال اٹھانے کی بجائے وہ کہکشاؤں سے ان کا بچپن چھین رہے ہیں۔ تقریباً کائنات جتنی پرانی کہکشاؤں کے بارے میں بگ بینگ کے حامی یہ مفروضہ اپناتے ہیں کہ ابتدائی کہکشاؤں کے بننے کی رفتار اس سے زیادہ رہی ہوگی جتنا ہم نے سوچا تھا۔
یہ کہنا بالکل غلط نہیں ہے کہ کائنات میں تیز ارتقائی عرصے بھی آتے رہے ہیں۔ کہکشاؤں کے بننے میں بھی شاید ایک یا زائد جست لگے ہوں گے۔ کائنات غیر متوقع اور اچانک جدلیاتی تبدیلیوں کے عمل سے بھری پڑی ہے۔ البتہ کہکشاؤں کی شرح پیدائش میں تبدیلی کرنے کی کوششوں کا تعلق کہکشاؤں کے جنم لینے کی وضاحت کرنے کیساتھ نہیں، بلکہ اس کا واحد مقصد ایک ایسے نظریے کو بچانا ہے جس کے اوپر نئی دریافتیں سوالات اٹھا رہی ہیں۔
ڈوپلر شفٹ
بگ بینگ تھیوری میں ہمیشہ اسی طرح کی ’تبدیلیاں‘ کی جاتی رہی ہیں۔ علم کائنات کا یہ نظریہ شاید سائنسی تاریخ کے احمق ترین اندازوں کا نتیجہ ہے۔ 1920ء کی دہائی میں، ماہرِ فلکیات ایڈوین ہبل نے دریافت کیا کہ کوئی کہکشاں ہم سے جتنی دور ہوتی ہے، اتنی وہ سرخی مائل دکھائی دیتی ہے۔ سرخی مائل نظر آنے کی وضاحت ’ڈوپلر ایفیکٹ‘ کے ساتھ کی جا سکتی ہے، جس کے مطابق ہم سے مخالف سمت میں سفر کرنے والی اشیاء برقی مقناطیسی سپیکٹرم پر سرخی مائل نظر آتی ہیں۔ ماہرین فلکیات نے اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ قابلِ مشاہدہ کائنات پھیلتی ہوئی معلوم ہو رہی ہے۔ البتہ، اس کا ایک انتہائی احمقانہ نتیجہ یہ بھی نکالا گیا کہ: اگر سب کچھ ایک دوسرے کی مخالف سمت میں جا رہا ہے، تو کائناتی تاریخ کے کسی عرصے میں سارا مادہ لازماً ایک ساتھ جڑا ہوا بھی رہا ہوگا، جس کو بگ بینگ کے حامی ’اکائیت‘ (Singularity) کہتے ہیں، اور جس کا حجم ہائیڈروجن کے سنگل ایٹم کے برابر ہوا ہوگا۔ ان کے مطابق بگ بینگ میں نہ صرف تمام مادہ اور توانائی وجود میں آئی، بلکہ زمان و مکان (time and space) کا جنم بھی ہوا۔
مگر ڈوپلر شفٹ کائنات کے ایک حصے کی توسیع کی شہادت ہونے کے علاوہ اور کچھ نہیں، یہ کسی’اکائیت‘ سے زمان و مکان کی مطلق ابتداء کی دلیل نہیں ہے۔ یہاں پر ہمیں ایک حقیقت کے اوپر احمقانہ حد تک زور ڈالنے اور اسے متعلقہ حدود وقیود سے متجاوز کرنے کی مثال ملتی ہے، جسے غلط طور پر ایک فلکیاتی جست بنا دیا گیا۔ بگ بینگ دراصل سائنسی شہادت کا نہیں، بلکہ شہادت کی فلسفیانہ تشریح کا معاملہ ہے۔ ہماری قابلِ مشاہدہ کائنات کے ایک حصے کے پھیلنے سے اس کی تصدیق نہیں ہوتی کہ پوری کی پوری کائنات میں یہی عمل جاری ہے۔ اور اس حقیقت سے یہ اندازہ تو بالکل نہیں لگایا جا سکتا کہ یہ سب کچھ اکائیت کے نقطے سے شروع ہوا تھا جہاں زمان و مکان پراسرار طور پر وجود میں آئے تھے۔
بعض اس کی تردید کرتے ہیں کہ بگ بینگ کا مطلب وقت کا آغاز ہے۔ ان کا دعویٰ ہے علم کائنات میں بگ بینگ کا مطلب محض یہ ہے کہ ماضی میں کائنات ایک گرم اور گاڑھی حالت میں موجود تھی۔ مگر جدید فلکیات کے نمایاں ماہرین درحقیقت وقت کے آغاز پر یقین رکھتے ہیں۔ ”کائنات ہمیشہ سے موجود نہیں تھی“، سٹیفن ہاکنگ نے وضاحت کی تھی۔ ”بلکہ کائنات، اور خود وقت، کا آغاز بگ بینگ کے ساتھ ہوا۔۔۔ حقیقی وقت کے آغاز میں ایک اکائیت ہو گی، جہاں طبیعیات کے قوانین لاگو نہیں ہوتے ہوں گے۔“ سچ تو یہ ہے کہ اکائیت رد کرنے کی کوشش کرنے والے متبادل بگ بینگ نظریات (’بگ باؤنس‘، ممبرینز کا ٹکراؤ، وغیرہ) اکائیت کے تصور سے کچھ کم قیاس آرائی پر مبنی یا کم احمقانہ نہیں ہیں۔
1920ء کی دہائی میں بگ بینگ کا مفروضہ پہلی مرتبہ پیش کرنے والے ماہرِ فلکیات جارج لومتر کو اس خیال سے کوئی مسئلہ نہیں تھا کہ فلکیاتی ریڈ شفٹ ایک طرح سے کائنات کے عدم سے وجود میں آنے کو ثابت کرتی ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ ایک عیسائی پادری تھا اور اس کے پاس عدم سے کائنات کے وجود میں آنے کا جواب یہ تھا کہ ایسا تخلیق کرنے والے خدا نے کیا ہے۔ رومن کیتھولک چرچ نے لومتر کو ان مذہبی خدمات پر سراہتے ہوئے اعزازات سے نوازا۔
بہرحال، یہ بات شاید متاثر کن معلوم ہو کہ یہ تھیوری، جو پہلی مرتبہ 1920ء کی دہائی میں پیش کی گئی تھی، پوری ایک صدی تک مشاہداتی فلکیات کی جانچ پڑتال کے باوجود رائج رہی ہے۔ مگر بگ بینگ تھیوری آج جس شکل میں موجود ہے وہ لومتر کے اصلی مفروضے کے ساتھ محض ہلکی سی مماثلت رکھتی ہے، کیونکہ وہ مشاہداتی دریافتوں کے ساتھ مطابقت رکھنے میں بارہا ناکام ہوئی ہے اور نتیجتاً اسے بارہا تبدیل کرنا پڑا۔ پچھلی صدی میں بگ بینگ تھیوری کی واحد مشاہداتی ’کامیابی‘ 1965ء میں نام نہاد کائناتی مائیکرو ویو بیک گراؤنڈ ریڈی ایشن (سی ایم بی آر) کی حادثاتی دریافت تھی، جو پوری کائنات میں پھیلی ہوئی بلیک باڈی (تمام شعاعی توانائی جذب کرنے والی ایک آئیڈیل باڈی) ریڈی ایشن ہے، اور جس کا درجہ حرارت محض 2.7 کیلون ہے۔ (اس کو دلیل کے طور پر پیش کیا گیا کہ یہ ریڈی ایشن بگ بینگ کی گرمائش کی باقیات ہے۔)
مگر یہ غیر متوقع دریافت بھی پیشگوئیوں کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتی۔ مان لیجیے کہ کائنات پھیلتی جا رہی ہے، مگر پھر آسمان کے دو بالکل مخالف سمت میں واقع حصوں،جن کا آپس میں کوئی علتی رابطہ نہیں ہو سکتا، سے ہم تک پہنچنے والی روشنی کا درجہ حرارت کس وجہ سے ایک جیسا ہوتا ہے۔ اس کا اور دیگر نا قابلِ وضاحت مشاہدات سے نمٹنے کے لیے نام نہاد ’انفلیشن فیلڈ‘ ایجاد کیا گیا: کائنات کی ابتدائی تاریخ میں انتہائی تیز رفتار توسیع کا دور۔ اس قسم کی معجزاتی توسیع کے دور کا کوئی طریقہ کار پیش نہیں کیا جا سکا۔ یہ محض اس تھیوری کو بچانے کے لیے ایجاد کیا گیا تھا۔ یہ ان خالصتاً ریاضیاتی موشگافیوں میں سے ایک ہے جن کے ہونے کا کوئی ثبوت نہیں، مگر جو علم کائنات کے ماہرین نے بگ بینگ تھیوری کو بچانے کے لیے ایجاد کی ہیں۔ اسی طرح کے دیگر اشیاء میں تاریک مادہ اور تاریک توانائی شامل ہیں، جنہیں علم فلکیات کے ماہرین نے کبھی دیکھا نہیں ہے مگر دعویٰ کرتے ہیں کہ تمام موجودات کا 95 فیصد انہی سے بنا ہے۔ کہکشاؤں کی تازہ ترین کہانی اور ان کا غیر متوقع مختصر بچپن اپنے تضادات میں دبتی ہوئی بگ بینگ تھیوری کو بچانے کی ایک اور بھونڈی کوشش ہے۔
زمان و مکان، مادے اور توانائی کا عدم سے وجود میں آنے کا خیال فطرت کے مادی نقطہ نظر کا سراسر مخالف ہے۔
انسانیت کا تمام تجربہ ظاہر کرتا ہے کہ مادے(یہاں مادے کی فلسفیانہ تعریف لی جا رہی ہے۔مترجم) کا ایک ذرہ تک نہ تخلیق کیا جا سکتا ہے اور نہ فنا۔ مادہ اپنی علت (cause) خود ہے: جو دائمی طور پر یکجا ہوتا ہے، منتشر ہوتا ہے، اور پھر یکجا ہوتا ہے۔ تخلیق کا مفروضہ پیش کرنے سے یہ سوال ابھرتا ہے کہ: اس کی علت کیا تھی؟ اگر یہ مادی عنصر نہیں تھا (اور بگ بینگ علم کائنات کے مطابق یہ مادی عنصر نہیں ہو سکتا کیونکہ مادہ خود بگ بینگ کے ساتھ وجود میں آیا تھا) تو پھر لازمی یہ غیر مادی خالق رہا ہوگا: یعنی خدا۔
تخلیق کی تاریخ بھلے ہی 6 ہزار سال سے 13 ارب 80 کروڑ سال تک پیچھے دھکیلی جا چکی ہو، مگر ایسا کرنے سے اس کے احمقانہ پن میں کوئی کمی نہیں آتی۔ بطورِ مادیت پسند ہم عدم سے مادے کے وجود میں آنے کا خیال مسترد کرتے ہیں۔ مادی دنیا لا محدود اور ارتقاء پذیر ہے۔ یقیناً اس سے نئے مسائل سامنے آتے ہیں: لا محدود کائنات کا مطلب ہماری دریافتیں کبھی ختم نہیں ہوں گی۔پرانے سوالات کا جواب نئے سوال ابھار لاتا ہے۔ مگر جس طرح انجیل نے زمین کے وجود میں آنے کا سوال ’حل‘ کر دیا تھا، جو دراصل 18 ویں صدی میں زمین کے فلکیاتی پسِ منظر کی دریافت نے حل کیا؛ اسی طرح بگ بینگ کا نظریہ تخلیق محض ڈوپلر شفٹ اور سی ایم بی آر جیسے سوالات کو ’حل‘ کرتا دکھائی دیتا ہے۔
ہم علم کائنات کے ماہرین نہیں ہیں۔ ہم کسی بھی طرح اس قسم کے سوالات کا مکمل حل پیش کرنے کا دکھاوا نہیں کرتے۔ مگر ہم پُر اعتماد ہیں کہ نئی دریافتیں اور مشاہدات، جیسا کہ جیمز ویب نے کی ہیں، مادہ پرستانہ نقطہ نظر کی تصدیق کریں گے اور تخلیق کے خیال کو غلط ثابت کریں گے۔
کوپرنیکن انقلاب
جب ہم غور و فکر کر کے جدید علم فلکیات کی موجودہ حالت کا تجزیہ کرتے ہیں، تو ہمیں 15 ویں صدی میں ارض مرکزیت (geocentric) والے نظریے (یہ خیال کہ کائنات میں تمام اجرام فلکی زمین کے گرد گردش کرتے ہیں) کو درپیش بحران کی مماثلت ملتی ہے۔ آج کی بگ بینگ تھیوری کی طرح کائنات کے بارے میں ارض مرکزیت والا نقطہ نظر کافی لمبے عرصے سے چلا آ رہا تھا۔۔۔ جو در حقیقت بگ بینگ تھیوری کی نسبت کافی زیادہ عرصے سے رائج تھا! اینیکسی میندر (سقراط سے پہلے گزرنے والا ایک یونانی فلسفی) نے چھٹی صدی قبل مسیح میں اس نظریے کو اپنایا تھا۔ ارسطو نے 350 قبل مسیح میں اس پر مزید کام کیا، جس نے سورج، چاند، ستاروں، اور سیاروں کا زمین کے گرد دائرے کی شکل میں گردش کرنے کا ماڈل پیش کیا۔ مگر یہ اسکندریہ سے تعلق رکھنے والا ماہرِ فلکیات بطلیموس (Ptolemy) تھا جس نے دوسری صدی عیسوی میں اس نظریے کو کامل اور ایک حد تک نفیس شکل دی۔
اس ’بطلیموسی‘ کائنات میں سورج، چاند اور ستارے زمین کے گرد گردش کرنے والے غیر متغیر حلقوں کے ساتھ جڑے ہوئے تھے۔ اس میں سیاروں کی حرکت ہمیشہ زبردستی کی معلوم ہوتی تھی۔ ان کی پیچھے کی جانب حرکت (یعنی زمین سے دوری) کی وضاحت کرنے کے لیے ان کو دو قسم کے حلقوں پر رکھا گیا، ایک ’ایپی سائیکل‘ یعنی ہر سیارے کا اپنا انفرادی حلقہ، اور دوسرا ’ڈیفیرینٹ‘ یعنی زمین کے گرد والا بڑا حلقہ۔ اپنے تمام زبردستی والے عناصر کے باوجود اس ماڈل نے اپنے دَور تک ہونے والے تمام مشاہدات کو بہت احسن طریقے سے بیان کیا۔ البتہ، مزید صدیاں گزرنے کے ساتھ نئے اور زیادہ درست مشاہدات جمع ہوتے گئے۔ اس پرانے علم کائنات، جو اب ماضی کا قصہ ہے، کی بنیاد پر فلکیات کے میدان میں شاندار کام کیا گیا مگر پرانی تھیوری کے لیے خود کو برقرار رکھنا مشکل ہو رہا تھا۔
پرانی تھیوری مسترد کرنے کی بجائے ماہرین فلکیات نے حلقوں کے اندر نئے حلقے ایجاد کیے۔ اکسینٹرک (بیضوی، جو مکمل طور پر گول نہ ہو)، ایپی سائیکل اور ڈیفیرینٹ حلقوں کی تعداد احمقانہ حد تک بڑھا دی گئی تاکہ نئے حقائق کو زبردستی تھیوری میں فٹ کیا جا سکے، جیسا کہ آج بگ بینگ کے حوالے سے ’انفلیشن فیلڈ‘، ’تاریک مادہ‘ اور ’تاریک توانائی‘ ایجاد کیے گئے ہیں۔ 15 ویں صدی تک پرانی تھیوری شدید بحران کی کیفیت میں تھی جس کے اوپر بس ایک مہلک ضرب لگانا باقی تھا، جو 1543ء میں کوپرنیکس نے درست انداز میں لگائی، جب بسترِ مرگ پر پڑے اس نے اپنی کتاب ’اجرامِ فلکی کے مداروں پر‘ شائع کروائی۔
کوپرنیکس کے مطابق، کائنات کا مرکز زمین نہیں تھی، بلکہ زمین خود نظام شمسی کے تمام دیگر سیاروں سمیت دائرہ نما حلقوں میں سورج کے گرد گھومتی ہے۔ یہ فلکیات کے میدان میں ایک بہت بڑا انقلاب، اور یورپ کے اندر جدید سائنس کا حقیقی نقطہ آغاز تھا۔ مگر پرانی تھیوری کی نفی کا مطلب اس کی مکمل بربادی نہیں تھا۔ در حقیقت، کوپرنیکس کی تھیوری پرانے بطلیموسی نقطہ نظر سے ریاضیاتی طور پر بالکل مختلف نہیں تھی، جیسا کہ بعد میں ڈنمارک کے ماہرِ فلکیات تیکو براہی نے کوپرنیکس کے خلاف قدامت پرستانہ جدوجہد کرتے ہوئے غیر ارادی طور پر ثابت کیا۔ در حقیقت، جب بھی پرانی تھیوری کی جگہ نئی سائنسی تھیوری لیتی ہے، تو وہ نفی کے جدلیاتی عمل کے ذریعے ہمیشہ پرانی تھیوری میں سے معقول عناصر اپنے آپ میں ضم کرتی ہے، یعنی نئے کی حمایت کرنے کا مطلب پرانے کو مکمل طور پر رد کرنا کبھی نہیں ہوتا۔
پرانے مسترد شدہ بطلیموسی نقطہ نظر نے خاموشی کے ساتھ مرنے سے انکار کیا، اور کوپرنیکس کی موت کے بعد لمبے عرصے تک اس کے بہت سارے کافی طاقتور حامی موجود رہے۔ یہ چرچ کے دنیاوی نقطہ نظر کا لازمی حصہ بن چکا تھا، جس کے مطابق زمین اور انسان خدائی تخلیق کے مرکز میں تھے، جو نقص سے پاک فلکیاتی حلقوں میں گھرے ہوئے تھے۔ ان اجرامِ فلکی میں فرشتے اور مقرّب فرشتے مکمل درجہ بندی کے ساتھ رہ رہے تھے، اور ستاروں سے آگے اعلیٰ ترین فلکیاتی حلقہ خدا کا مقام تھا۔ پرانی اشرافیہ چرچ کی جانب سے مقدمہ چلانے کی دہشت پھیلا کر نئی تھیوری کے خلاف لڑ رہی تھی، اسی طریقے سے گلیلیو کو خاموش کروایا گیا اور گیوردانو برونو کو زندہ جلانے کی سزا دی گئی۔
تعجب کی بات ہے کہ آج سائنسی اشرافیہ کے لیے بگ بینگ تھیوری کے دفاع میں کیتھولک چرچ نہایت وفادار اتحادی ہے۔ پرانے دشمنوں نے ہاتھ ملا لیا ہے! شکر ہے بگ بینگ تھیوری کے منکرین کو زندہ جلانے کی سزا نہیں سنائی جاتی۔ البتہ شاید انہیں اس سے زیادہ زبردست رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ اکیڈیمک سائنس انتہائی بڑا کاروبار بن چکا ہے، تھیوریوں اور تعلیمی اداروں میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری ہوتی ہے۔ کسی تھیوری کی زندگی کی مدت شاید ختم ہوچکی ہو، مگر جب اس میں کروڑوں ڈالر کی سرمایہ کاری جاری ہو، تو پھر اس سے چھٹکارا پانا آسان نہیں ہوتا۔ سائنسی انقلاب کے آغاز میں سرمایہ داری ایک انقلابی قوت تھی۔ آج وہ سائنسی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن چکی ہے۔ بگ بینگ تھیوری آج تک اسی لیے زندہ ہے کیونکہ اس کے ساتھ اشرافیہ کے مفادات جڑے ہوئے ہیں۔
تکنیکی صلاحیت رکھنے والے ایسے بہت سے سائنسدان موجود ہیں جنہوں نے بگ بینگ علم کائنات کے میدان میں ہر قسم کی شاندار خدمات سر انجام دی ہیں۔ ہم ان کی صلاحیتوں پر نہیں، بلکہ ان کی فلسفیانہ تشریح پر اعتراض کرتے ہیں۔ اکثریتی سائنسدان شعوری طور پر خود کوئی فلسفہ نہیں رکھتے۔ چنانچہ وہ ناگزیر طور پر سماج میں غالب فلسفے کی جانب جھکیں گے، جو بوسیدہ حکمران طبقے کے مفادات کی عکاس ہے، وہ حکمران جو اپنی بوسیدگی میں صدیوں پرانے مذہبی خیالات کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ماہرینِ تعلیم کا جھکاؤ فلسفیانہ خیال پرستی کی جانب ہے، جو کائنات میں خدا کی مداخلت پر پختہ یقین رکھنے والے حکمران طبقے کے پیچھے چلتے وہاں آئے ہیں، اور جن کے اوپر اپنے مفادات، حیثیت، بجٹ اور سکالرشپ کا بھرپور دفاع کرنے والی تعلیمی اشرافیہ مسلط ہے۔ سائنسی علوم کا معاملہ کوئی الگ نہیں۔ خیال پرستی کا منطقی نتیجہ دنیا کی تخلیق کا نظریہ ہے: یعنی عدم سے کائنات کا وجود میں آنا۔ اس قسم کے خیال نے بگ بینگ تھیوری کی شکل میں معزز ماہرین تعلیم کے بیچ جگہ بنائی ہے۔
مگر یہ محض ایک رجحان ہے۔ اس کی مخالفت میں ایسے کئی سائنسدان موجود ہیں جو سائنسی میدان میں خیال پرستی اور مذہبی خیالات سے لڑ رہے ہیں۔ اس حوالے سے ایرک لیرنر قابلِ ذکر ہے، جس کو بگ بینگ کی جرات مندانہ مخالفت کے باعث سائنسی برادری نے بے دخل کر دیا ہے۔ ہم آپ کو اس کا مضمون ’بگ بینگ نہیں ہوا‘ پڑھنے کی پُر زور تجویز دیتے ہیں، جس میں جیمز ویب کے مشاہدات پر تجزیہ کیا گیا ہے۔
مارکس وادی سمجھتے ہیں کہ بوسیدہ سرمایہ داری کے خلاف جنگ نہ صرف سیاسی و معاشی نوعیت کی ہے، بلکہ نظریاتی جدوجہد بھی اس میں شامل ہے۔ جیسا کہ لینن نے وضاحت کی تھی، اس جنگ میں، مارکس وادیوں کو ان جدید فطری سائنسدانوں کے بیچ اتحادی ڈھونڈنے کا عمل سیکھنا ہوگا ”جو مادیت پسندی کی جانب جھکاؤ رکھتے ہیں اور نام نہاد تعلیمِ یافتہ پرت میں غالب خیال پرستی اور تشکیک کے رائج بہکاوے کے خلاف اس کا دفاع اور تبلیغ کرنے سے نہیں ڈرتے۔“