تھیٹر اور انقلاب: کانسٹینٹن سٹینسلاوسکی کی حیات اور میراث

کانسٹینٹن سٹینسلاوسکی کو عام طور پر ’جدید اداکاری کا باپ‘ کہا جاتا ہے۔ اس کے ’حقیقت پسند‘ میتھڈ نے تھیٹر کی دنیامیں انقلاب برپا کر دیا تھا اور یہ آج بھی ناظرین کے دل موہ لیتا ہے۔ اس آرٹیکل میں نیلسن وین نے سٹینسلاوسکی کی زندگی، اس کے خیالات اور اس ثقافتی بیداری میں اس کے کردار کو اجاگر کیا ہے جس کے بعد اکتوبر انقلاب برپا ہوا۔

[Source]

انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

کانسٹینٹن سٹینسلاوسکی غالباً اداکاری کی تاریخ کا سب سے عظیم اور مؤثر نام ہے۔ اس کا تربیت کا جامع نظام بیسویں صدی کے اوائل سے لے کر آج تک تھیٹر اور فلم کی دنیا پر غالب ہے۔ انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے اوائل میں سٹینسلاوسکی کی تکنیک اور ہدایتکاری کا مقام فن میں کسی انقلاب سے کم نہیں تھا۔ اس نے زار کے تسلط میں جمود کا شکار روسی تھیٹر میں ایک نئی روح پھونک دی۔ تب سے اس کے نظریات کے زیرِ اثر مغربی اداکاری اور فنی تخلیق مسلسل تغیر پذیر ہے۔ فن میں سٹینسلاوسکی کا انقلاب اور روسی انقلاب باہم منسلک بھی ہیں۔ سٹینسلاوسکی کے نزدیک تھیٹر محض تفریح کا ذریعہ نہیں تھا بلکہ ایسا فنی اور اخلاقی مقصد تھا جس کے لیے زندگی وقف کی جا سکے۔ سٹینسلاوسکی نے اگرچہ کبھی باقاعدہ بالشویک پارٹی میں شمولیت تو اختیار نہیں کی مگر اس نے اکتوبر انقلاب کو خوش آمدید کہا اور وہ تغیر اور ترقی کی اس روح کا مجسم اظہار تھا جسے انقلاب نے بیدار کیا تھا۔

لینن اور بالشویک اپنے تئیں سٹینسلاوسکی کے کام کی مسلسل حمایت کرتے رہے کیونکہ انہیں اس کے کام میں لاکھوں مزدوروں اور کسانوں کی ثقافتی بیداری کی ناگزیر قوتِ محرکہ دکھائی دیتی تھی، جو سوشلسٹ انقلاب کا بنیادی فریضہ تھا۔ اسی لیے سٹینسلاوکی کو پورے وثوق کے ساتھ اکتوبر انقلاب کے بعد روحانی بیداری کے عظیم سرخیلوں میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ جب سوویت یونین پر سٹالن اور افسر شاہی براجمان ہوئے تو انہوں نے سٹینسلاوسکی کی فنی اختراعات کو گھٹیا طریقے سے استعمال کیا اور ’سوشلسٹ حقیقت پسندی‘ کی نئی فنی پالیسی کے مطابق مسخ کرنے کی کوشش کی جس کا سٹینسلاوسکی کے نظریات سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔ اس کے ساتھ ہی افسر شاہی نے اس کے باقی ماندہ کام کی شدید تخفیف شروع کر دی جس سے رفتہ رفتہ مشہورِ زمانہ ’ماسکو آرٹ تھیٹر‘ کے ذلت آمیز زوال کا آغاز ہوا۔ آج ہم سٹینسلاوسکی کے میتھڈ اور تاریخی کردار کے مطالعے سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ یہ نہ صرف تھیٹر اور فن کے عمومی نقطہِ نظر سے بلکہ کمیونزم کی جدوجہد میں فن اور ثقافت کے بھرپور کردار کے حوالے سے ہماری سمجھ بوجھ میں وسعت پیدا کرنے کے لیے بھی اہم ہے۔

سٹینسلاوسکی کی ابتدائی زندگی

کانسٹینٹن سرگیاوچ الیگزیاف 5 جنوری 1863ء کو تھیٹر سے وابستہ ایک متمول خاندان میں پیدا ہوا۔ 1884ء میں اس نے سٹیج کے لیے اپنا نام سٹینسلاوسکی منتخب کیا اور آج تک اسی نام سے ہی جانا جاتا ہے۔ وہ سٹیج پر پہلی دفعہ سات سال کی عمر میں اس وقت نمودار ہوا جب اس کی ماں کی سالگرہ کے موقع پر ٹیبلیوز (tableaux vivants) کے ایک سلسلے کا انعقاد کیا گیا تھا۔ اس کے شعوری فنی کیریئر کا آغاز 1877ء میں اس وقت ہوا جب اس نے اپنی خاندانی جاگیر پر متبدل (coverted) تھیٹر میں چار ون ایکٹ (one-act) ڈراموں میں کام کیا۔ اس شام کے بعد ایک تفریحی تھیٹر گروہ الیگزیاف سرکل کے نام سے تشکیل دیا گیا جو سٹینسلاوسکی کے بہن، بھائیوں، دوستوں اور چچیروں پھپھیروں پر مشتمل تھا۔

سٹینسلاوسکی خداداد قابلیت کا حامل اداکار نہیں تھا۔ اسے شوق تو بہت تھا لیکن وہ سٹیج سے بے حد خوفزدہ بھی ہوتا تھا اور ابتدا میں تو اکثر اس کی خوف کے مارے آواز تک نہ نکلتی تھی اور وہ اپنے پسندیدہ اداکاروں کی بے لطف نقالی سے آگے نہیں بڑھ پاتا تھا۔ سٹینسلاوسکی کی بطور اداکار ابتدائی زندگی اور ناقص کارکردگی نے ہی اسے اداکاری کے جملہ مسائل کو سمجھنے اور حل کرنے کی ترغیب دی۔ اس نے ایک نوٹ بک رکھنا شروع کی جس میں وہ اپنے تاثرات رقم کرتا، اپنی مشکلات کا جائزہ لیتا اور ان کے حل کا خاکہ بنانے کی کوشش کرتا رہتا تھا۔ اس نے اس معمول کو تاحیات یعنی 61 سالہ طویل سرگرم عرصے تک جاری رکھا۔ وہ اکثر خود سے سوال کیا کرتا تھا کہ کیوں اداکاری کے چند نمونے باقیوں سے کہیں زیادہ سچائی سے بھرپور ہوتے ہیں؟ کیوں دوسرے اداکار اتنی جلدی اور آسانی سے نیچرل اداکاری کر پاتے ہیں اور وہ ناکام رہتا ہے؟ یہ وہ سوالات تھے جن کو اپنے کیریئر کے آغاز میں اس نے سمجھنے کی کوشش کی۔ اس وقت کے ڈرامہ سکول اسے ان سوالات کے جوابات مہیا نہ کر سکے۔ اس کے اساتذہ اس کے سامنے مطلوبہ نتائج کی نشاندہی تو کر پاتے تھے لیکن ان نتائج کے حصول کا کوئی مستند میتھڈ پیش کرنے سے قاصر تھے۔

روسی تھیٹر کا زوال

انیسویں صدی کے اواخر میں روسی تھیٹر زوال پذیر تھا۔ پرانی نسل کا اداکاری پر غلبہ تھا اور سٹینسلاوسکی چاروں طرف سے خود کو فنی بونوں میں گھرا ہوا محسوس کرتا تھا۔ 1882ء میں شاہی تھیٹرز پر زار کی اجارہ داری ختم کر دی گئی۔ اس سے قبل ہر طرح کے پیشہ ورانہ سنگت ناچ، اوپرا یا ڈرامے وغیرہ صرف ماسکو اور پیٹرزبرگ میں زار کے اپنے سرکاری تھیٹرز میں ہی منعقد ہوتے تھے۔ اب کم از کم نظری اعتبار سے کوئی بھی تھیٹر کھول سکتا تھا۔ تاہم ان حالات میں تھیٹر کی ایک ’نئی‘ قسم ابھری جو بدانتظامی، گھٹیا مواد اور بری اداکاری کے عارضے میں مبتلا تھی۔ کمرشل منتظمین نے جلدی منافعے بٹورنے کے مقصد سے ڈرامے بنانے شروع کر دیے اور سٹینسلاوسکی کے بقول ان تھیٹرز کو شراب فروش اور افسران کنٹرول کرتے تھے۔ چند شاندار افراد بہرحال موجود تھے مگر تھیٹر کی پیشہ ورانہ دنیا ایسی تھی جس سے سٹینسلاوسکی اجتناب کرنا ہی پسند کرتا تھا۔ سکرپٹ اور آزمائشی مشق (ریہرسل) کی اداکاروں کے نزدیک کوئی وقعت نہیں تھی۔ وہ ہدایتکاروں کی ہدایات کو یکسر نظر انداز کر دیتے تھے اور عموماً انہی عادات اور کراتب تک خود کو محدود رکھتے تھے جن پر پہلے ہی انہیں عبور حاصل ہوتا تھا۔

دو کرداروں کے مابین حقیقی اور فطری مکالمہ پیش کرنے کی بجائے اداکار تماشائیوں کو متاثر کرنے کی بے سود کوششوں میں سٹیج کے بالکل سامنے والے تختے پر آ کر اور سامعین سے مخاطب ہو کر اپنی لائنیں ایسے بولتے تھے جیسے کہ وہ سامعین بھی ڈرامے کے کردار ہوں۔ لباس اور سیٹ (set) بھی اداکاری کی طرح بے جان ہی ہوتے تھے۔ پنکھ اور پسِ منظر ذخیرے سے بنے بنائے اٹھا لیے جاتے تھے، دروازے روایتی طور پر دیواروں کے بغیر خلا میں کھڑے کیے جاتے تھے اور کرسیاں بھی اس طریقے سے ترتیب دی جاتی تھیں کہ اداکاروں کو سامعین سے مخاطب ہونے میں آسانی ہو۔ شوقیہ یا تفریحی تھیٹرز اور بھی بھونڈے طریقے سے انہی روایات کی عکاسی کرتے تھے۔

اس دور کا اداکاری اور فنکاری کا سٹائل زیادہ تر مصنوعی اور جذبات انگیز ہوتا تھا اور اسے مکمل طور پر تبدیل کرنے کی ضرورت تھی۔ یہ ضرورت سٹینسلاوسکی پر بہت جلد واضح ہو گئی۔ سچ کو شعوری طور پر اور مرتبط انداز میں پیش کرنے کی ضرورت تھی۔ اس نے تھیٹر کے حوالے سے اپنی نئی اپروچ کو ان الفاظ میں پیش کیا ہے، ”ہمارے تخریبی اور انقلابی مقصد یعنی فن کے احیا میں، ہم تھیٹر کی تمام رائج الوقت روایات کے خلاف اعلانِ جنگ کرتے ہیں، وہ روایات چاہے اداکاری، منظر نگاری، لباس، کھیل کی تشریح، پردے یا تھیٹر اور ڈرامے میں کہیں بھی پائی جاتی ہوں۔ وہ سب کچھ جو نیا ہے اور تھیٹر کے پرانے رواج کے برعکس ہے، ہمارے لیے خوبصورت اور مفید ہے“۔

حقیقت پسندی کا ارتقا

اداکاری میں حقیقت پسندی اپنے لیے جس مقصد کا تعین کرتی ہے وہ قابلِ شناخت انسانوں کو ان صورتوں میں پیش کرنا ہے جن سے سامعین شناسائی محسوس کریں۔ دوسرے الفاظ میں اداکار کا برتاؤ ایسا ہونا چاہیے کہ جیسے وہ جو کچھ بھی کر رہا ہے، وہی سچ ہے، بھلے ہی وہ ہزاروں لوگوں کے سامنے سٹیج پر اپنے جوہر دکھا رہا ہو۔ اداکاری کی فنی سچائی کا دارومدار اداکار کے اپنے اعتقاد اور دی گئی صورتحال کی صداقت پر ہے۔ اس طرح کی اداکاری محض لباس، سیٹ اور دیگر خارجی عوامل کی بجائے کرداروں کی داخلی زندگی اور نفسیات پر توجہ دینے سے ہی ممکن ہے۔ اس طرح کے تھیٹر کا مقصد حقیقت کی محض نقالی (جو تھیٹر میں شاید ممکن بھی نہیں) نہیں ہوتا، بلکہ ناظرین کو ایسے تجربات سے روشناس کرانا ہوتا ہے جن سے وہ خود کو جذباتی طور پر جڑا ہوا محسوس کریں اور مختلف کرداروں، ان کے داخلی درپردہ تعلقات کی گہرائی کو مکمل صداقت کے ساتھ ناظرین اور سامعین تک پہنچایا جا سکے۔ مثال کے طور پر اچھے نبھائے گئے ڈراموں میں تصوراتی عناصر اور پیچیدہ شاعرانہ زبان لطف اور جذباتی وابستگی میں خال خال ہی کسی رکاوٹ کا باعث بنتے ہیں۔

اداکاری کے حقیقت پسند سٹائل کو ترویج دیتے ہوئے سٹینسلاوسکی رغبت اور کشف کے لیے روسی اداکاروں کی پہلے کی نسل، خاص طور پر میخائل شیپکن اور مصنف نکولائی گوگول کی طرف دیکھتا ہے۔ حقیقت پسندی کی ترویج کی طرف پہلے قدم اسی دور میں اٹھائے گئے تھے۔

میخائل شیپکن 1788ء میں کاؤنٹ ولکانسٹن کی اسٹیٹ میں ایک زرعی غلام کے طورپر پیدا ہوا۔ اٹھارویں صدی کی روسی اشرافیہ اکثر اپنے میخائل شیپکن جیسے باصلاحیت غلاموں کے ساتھ تھیٹر کمپنیاں بھی بنایا کرتی تھی اور نتیجتاً یہ غلام کبھی کبھار تعلیم و تربیت بھی حاصل کر پاتے تھے۔ شیپکن نے مشاہدہ کیا کہ بہترین اداکار وہ تھے جو اپنی اداکاری کو غیر ضروری اشاروں اور جذبات سے بے ہنگم کرنے کی بجائے آرام سے انتہائی سادہ انداز میں چند الفاظ ادا کرتے تھے۔

اس نے ان مشاہدات کو اداکاری کے نئے سٹائل یعنی حقیقت پسندی کی کاشتکاری کے لیے بروئے کار لانا شروع کر دیا۔ جب 1821ء میں اس کے مداحوں نے رقم دے کر اسے آزاد کروایا تو شیپکن نے 1823ء میں ماسکو میں شاہی تھیٹر میں شمولیت اختیار کر لی اور 1824ء میں مالے تھیٹر (Maly theatre) کی ابتدائی پرفارمنس میں سٹیج پر نمودار ہوا۔ شیپکن کے حقیقت پسندانہ انداز نے سٹینسلاوسکی کے سامنے اس کے فلسفے اور اداکاری میں اس کی اپروچ دونوں حوالوں سے ایک ماڈل پیش کیا۔ شیپکن نے سٹینسلاوسکی کے ذہن میں جو سوال پیدا کیا وہ یہ تھا کہ کیا اداکار اپنے کردار کو محسوس بھی کرتا ہے یا اس کے خارجی پہلوؤں کی سطحی سی نقالی کرتا ہے؟ کیا ناظرین یہ فرق بتا سکتے ہیں؟ فنِ اداکاری کے یہ وہ داخلی تضادات تھے جن کا سٹینسلاوسکی کو سامنا کرنا پڑا۔

ہر طرح کے فنون جبلی طور پر دوہری فطرت کے حامل ہوتے ہیں، سماجی اور شخصی۔ واقعی کوئی بھی سچا کردار بننے کے لیے اداکار کو اپنی فردیت کو بالائے طاق رکھنا ہوتا ہے اور مصنف کی منشا کے مطابق چلنا، بولنا، سوچنا اور محسوس کرنا ہوتا ہے اور پھر بیک وقت یہ بھی لازمی ہوتا ہے کہ اداکار اپنی ذاتی خصوصیات کو کردار میں اس طرح سمو دے کہ انسانی خاصے کی داخلی زندگی کی تخلیق ممکن ہو سکے، جو آفاقی ہو گی اور سب کے ساتھ جڑی ہوئی ہو گی۔ نکولائی گوگول بھی شیپکن کا دلدادہ تھا اور خود بھی ایک باصلاحیت اداکار تھا۔ ستم ظریفی دیکھیے کہ گوگول شاہی تھیٹر کے آڈیشن میں اس لیے ناکام ہو گیا کیونکہ اس کا کام کچھ زیادہ ہی ’حقیقی‘ تھا۔

سٹینسلاوسکی کی طرح گوگول نے بھی روسی اداکاری کے مروجہ طریقوں پر خوب لعن طعن کی۔ مالے تھیٹر میں کیے گئے گوگول اور شیپکن کے کام نے اداکاری کے اس سٹائل کو تقویت دی جو جامد روایات پر سچے مشاہدات کو ترجیح دیتا تھا۔ اداکاروں کو گوگول کی نصیحت ہے کہ ”سب سے پہلے تو تضحیکی خاکوں اور نقالی سے اجتناب برتا جائے۔ حتیٰ کہ ایک چھوٹے سے کردار میں بھی کچھ بھی مبالغہ آمیز اور فرسودہ نہیں ہونا چاہیے۔ جتنا کم ایک اداکار شوخا بننے اور سامعین کو ہنسانے کی کوشش کرتا ہے، اتنے ہی اس کے کام کے مزاحیہ پہلو دیکھنے والوں کے سامنے اجاگر ہوتے ہیں“۔ ان دو اداکاروں نے سٹینسلاوسکی کے ذہن پر اہم نقوش ثبت کیے اور انہی کو بنیاد بناتے ہوئے وہ اپنے آپ کو اس حقیقت پسند روایت کا امین سمجھتا تھا جس کو ان دونوں نے استوار کیا تھا۔

فن کا مقصد

سٹینسلاوسکی اس خیال پر کامل یقین رکھتا تھا کہ تھیٹر کا ایک سماجی مقصد ہوتا ہے اور اس کے نزدیک اس مقصد کو حاصل کرنے کا بہترین طریقہ ’حقیقت پسندی‘ کے اصولوں پر عمل کرنا ہے۔ وہ ملکہ الزبتھ کے دور کے برطانوی فنکاروں اور قدیم یونانیوں کی طرح تھیٹر کو سماج کی روحانی صحت اور زندگی کے بنیادی جزو کے طور پر دیکھتا ہے۔ ایک اداکار اور ڈرامہ نویس کے طور پر جینز بنیڈتے لکھتا ہے، ”سٹینسلاوسکی کے کام کی سنجیدگی کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے اس محکم یقین پر غور کیا جائے کہ تھیٹر وہ اخلاقی اوزار ہے جس کے وظائف میں تہذیب کاری، حساسیت کی بیداری، ادراک کی رفعت اور جو آج شاید ہمارے لیے بے معنی ہیں یعنی خیال کی تعظیم اور روحانی ترقی شامل ہیں۔“

تاہم وہ کھلم کھلا سیاسی تھیٹر کے تصور کے سخت خلاف تھا اور اس کا اصرار تھا کہ سامعین کو موقع ملنا چاہیے کہ وہ خود کوئی بھی سیاسی معانی اخذ کر سکیں۔ ’میری فنی زندگی‘ میں سٹینسلاوسکی کہتا ہے ”میلانیت اور فن باہم غیر موافق ہیں اور ایک دوسرے کو خارج کر دیتے ہیں۔ جب بھی کوئی سٹیج کو میلانیت، افادیت یا کسی بھی دوسرے غیر ادبی پیمانے پر پرکھتا ہے تو فن کو نقصان پہنچاتا ہے۔ کسی خطبے یا پروپیگنڈے کو سچا فن تسلیم کرنا ناممکن ہے۔“

لیکن بہرحال یہ کبھی نہیں کہنا چاہیے کہ سٹینسلاوسکی کے خیال میں اچھے فن کے لیے سیاسی مواد کا حامل ہونا سراسر ناممکن ہے۔ ڈرامے میں موجود ہر سبق کو لازماً اس طرح مخفی اور مضمر ہونا چاہیے کہ وہ اصل مدعے کی سچی نمائندگی کے ذریعے ہی ظاہر ہو سکے۔ سامعین کو محض عقلی بنیادوں پر قائل کرنا کافی نہیں ہوتا بلکہ تھیٹر پر لازم ہے کہ وہ ایسا کامل انسانی تجربہ فراہم کرے جسے سامعین اپنے مکمل وجود کے ساتھ محسوس کر سکیں۔

سٹینسلاوسکی کے الفاظ دیکھیں، ”فن میں رجحان یا میلان کو ہر صورت میں اپنے تصورات میں تبدیل ہونا ہوتا ہے، پھر جذبے کی شکل اختیار کرنی ہوتی ہے اور اداکار کی دیانتدارانہ کاوش اور دوسری فطرت میں مکمل ہونا ہوتا ہے۔ صرف اسی صورت میں فن اداکار، کردار اور ڈرامے میں جیتے جاگتے انسانی جوہر (روح) کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔ لیکن اس صورت میں وہ میلان رہتا ہی نہیں بلکہ شخصی اعتقاد میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ یعنی تماشائی تھیٹر میں جو دیکھتا ہے اس سے اپنے نتائج خود اخذ کرتا ہے اور اپنا رجحان خود تخلیق کرتا ہے۔ اداکار کی تخلیقی کاوش کو تماشائی یوں بھانپتا ہے کہ اس کا دماغ اور روح اس تخلیقی کاوش کے فطری نتائج تک پہنچ جاتے ہیں۔ صرف اور صرف اسی پیرائے کی معینہ شرائط کے تحت تھیٹر میں سیاسی اور سماجی کردار کے ڈرامے بنائے جا سکتے ہیں۔“

سٹینسلاوسکی کے نزدیک حقیقت پسندی کا مدعا یہ ہے کہ زندگی کی بھونڈی نقالی کی بجائے سٹیج پر پیش کیے جانے والے موضوع کے حقیقی جوہر تک رسائی حاصل کی جائے۔ حقیقت پسندی کے تحت صرف انہی عناصر کا انتخاب کیا جاتا ہے جن کے ذریعے کرداروں کی نفسیات میں مخفی اور فنی کاوش میں کارفرما رجحانات کو عیاں کیا جا سکے۔ سٹینسلاوسکی تھیٹر کے اس انسانی مواد کو دیگر تمام امور پر فوقیت دیتا ہے۔

ماسکو آرٹ تھیٹر

روس کی تاریخ میں ڈرامے کا سب سے مشہور اور معتبر ادارہ ماسکو آرٹ تھیٹر تھا اور سٹینسلاوسکی نے اسی ادارے میں کام کرتے ہوئے اپنے نظریات کی ترویج کی۔ ماسکو آرٹ تھیٹر کو سب سے بڑھ کر انتون چیخوف کے ڈراموں ’سیگل‘، ’انکل وانیا‘ اور چیری آرچرڈ کی وجہ سے یاد کیا جاتا ہے۔ جزوی طور پر چیخوف کے ڈراموں میں اداکاری اور ہدایتکاری کے ذریعے ہی سٹینسلاوسکی نے فنی تخلیقات سے متعلق اپنے نظریات کو پروان چڑھایا۔

یہ ڈرامے تھیٹر اور اداکاری کے حوالے سے تہلکہ خیز پیش رفت تھے۔ ماسکو آرٹ تھیٹر کی سماجی و سیاسی شعور سے بھرپور ڈرامے بنانے کی بھی طویل تاریخ ہے۔ اس تھیٹر کو سٹینسلاوسکی اور ڈرامہ نویس ولادیمیر نمیرووچ ڈنچنکو نے مل کر بنایا تھا جو اس وقت ماسکو کے ایک اداکاری کے سکول ’دی ماسکو فلفارمونک سوسائٹی‘کا سربراہ تھا۔ اس کا افتتاح 1898ء میں ماسکو کے عوام تک رسائی رکھنے والے آرٹ تھیٹر کے طور پر کیا گیا۔

یہ طے تھا کہ یہ نیا تھیٹر سب سے بڑھ کر سماجی اور تعلیمی کردار ادا کرے گا۔ یہ سب کے لیے کھلا ہو گا، بالخصوص محنت کش طبقے کے لیے اور محنت کش اگر بظاہر سستے ٹکٹ بھی نہ خرید پائیں تو انہیں خاص مفت ڈراموں کی باقاعدہ دعوت دی جائے گی۔

پہلی کمپنی 39 اداکاروں پر مشتمل تھی جن میں اولگانیپر جس سے بعد میں چیخوف نے شادی کی اور وسووولڈ میئرہولڈ جو مستقبل میں سٹیج کا ہدایتکار اور بالشویک بنا، بھی شامل تھے۔ یہ اداکار سٹینسلاوسکی کے مشہور تفریحی تھیٹر کا بھی حصہ تھے جس میں اس کی اپنی بیوی ماریہ لیلینا اور بعد میں ایک سرگرم بالشویک اور میکسم گورکی کی بیوی بننے والی ماریہ اینڈریانا بھی شامل تھیں۔

کچھ ہی عرصے میں مالیاتی مسائل نے بانیوں کو مجبور کیا کہ وہ ٹکٹ کی قیمتیں بڑھائیں اور اپنے نام سے ’عوام تک رسائی‘ کو حذف کر دیں۔ عوامی خدمت اور منافع خوری اس وقت بھی اتنے ہی باہم غیر موافق تھے جتنے آج ہیں۔ ماسکو آرٹ تھیٹر نے نہ چاہتے ہوئے بھی ایک امیر تاجر ساوا مروذوف کی سرپرستی قبول کر لی جو اس وقت لینن کے اخبار ’اسکرا‘ کی بھی مالی معاونت جاری رکھے ہوئے تھا۔

زار کے حکام کی مخاصمت بھی سٹینسلاوسکی کے عوامی تھیٹر کے تصور کو عملی جامہ پہنانے میں رکاوٹ کا باعث تھی۔ یہ ڈراموں میں محتسبوں (censors) کی براہِ راست مداخلت کا سب سے زیادہ شکار ہونے والا تھیٹر تھا۔ جب سٹینسلاوسکی اور نمیرووچ نے 1902ء میں گورکی کا ڈرامہ ’چھوٹے لوگ‘کرنے کی ٹھانی تو انہوں نے حالانکہ پہلے ہی اس میں تخفیف کر لی تھی مگر پھر بھی محتسبوں نے اس میں حکمران زار کے خدشات کے پیشِ نظر مزید کٹوتی کی۔

اس سے بھی بڑھ کر ڈرامے کی اشاعت کی پہلی شام تھیٹر پولیس اہلکاروں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا، اگرچہ نمیررووچ نے طویل مذاکرات کے بعد انہیں عام طور پر شام کو پہنے جانے والے ملبوسات میں تھیٹر میں بیٹھنے پر آمادہ کر لیا تھا تاکہ عوام خوفزدہ نہ ہوں۔ محتسبوں کی کاروائیوں کے باوجود ماسکو آرٹ تھیٹر نے خود کو زار کے خلاف مزاحمت کا غیر اردای اظہار بنتے ہوئے بھانپ لیا۔ مثال کے طور پر 1901ء میں سینٹ پیٹرزبرگ اور ماسکو سمیت روس کے مختلف شہروں میں اس وقت عوامی احتجاج پھوٹ پڑے جب کیف یونیورسٹی کے 183 طلبہ کو سیاسی سرگرمیوں میں شمولیت کی پاداش میں جبراً فوج میں بھرتی کر دیا گیا۔ محنت کش اور طلبہ سڑکوں پر نکل آئے اور زار کے حکام کی طرف سے ان پر وحشیانہ تشدد کیا گیا۔

پولیس اور کوساکوں نے مظاہرین پر ہلہ بول دیا اور سینکڑوں طلبہ کو گرفتار اور یونیورسٹیوں سے نکال باہر کر دیا گیا۔ 1 مارچ 1901ء کوسینٹ پیٹرزبرگ میں کازان کیتھڈرل کے سامنے منعقدہ احتجاجی مظاہرے کو روایتی جبر سے منتشر کرنے کے لیے متعدد طلبہ کو قتل کر دیا گیا۔ اس وقت سٹینسلاوسکی ہینرک ابسن کے ڈرامے ’عوام کے دشمن‘ میں کام کر رہا تھا اور اس کے دماغ میں ان واقعات سے قطعی کوئی تعلق بھی نہیں تھا لیکن جب اس نے یہ لائنیں ادا کیں کہ ’جب تم سچ اور آزادی کی لڑائی لڑنے جاؤ تو تمہیں نئے پاجامے نہیں پہننے چاہیئیں‘ تو عوام مشتعل ہو گئے۔

سٹینسلاوسکی یاد کرتا ہے ”سامعین نے از خودد اس لائن کو کازان میں ہونے والے قتلِ عام کے ساتھ جوڑ دیا، جہاں بلاشبہ بہت سے نئے سوٹ آزادی اور سچائی کے نام پر چیتھڑوں میں بدل دیے گئے تھے۔ ان الفاظ نے تحسین اور احتجاج بھری تالیوں کا وہ طوفان برپا کر دیا کہ ہمیں ڈرامے کی کارروائی کو روکنا پڑا۔ لوگ کھڑے ہو گئے، سٹیج کے قمقموں کی طرف لپکے اور مجھے اپنے بازوؤں میں جکڑنے لگے“۔

وہ بات کو جاری رکھتا ہے ”شاید مخصوص ڈرامے کے انتخاب اور اس کے کرداروں کی مخصوص انداز میں نمائندگی کے ذریعے ہم وجدانی طور پر ملک کے حالاتِ زندگی اور سماج میں حاوی ذہنی کیفیت کی ترجمانی کر رہے تھے۔ لیکن جب ہم سٹیج پر تھے ہم نے ڈرامے کو کوئی خاص سیاسی زاویہ دینے کی کوشش نہیں کی تھی کیونکہ ڈرامے کا جو اصل ’پیغام‘ تھا، اسے ہم نے دریافت نہیں کیا تھا بلکہ وہ ہم پر وارد ہوا تھا۔“

1905ء کے انقلاب کی ناکامی سے ماسکو آرٹ تھیٹر بھی بعین ہی متاثر ہوا۔ اس شکست کے ردِعمل میں تھیٹر کے سرپرست تاجر مروذوف نے خود کشی کر لی جس سے سٹینسلاوسکی پر ذاتی اور مالی دباؤ میں شدید اضافہ ہوا۔ اس عرصے میں ماسکو آرٹ تھیٹر نے علامتی اور صوفیانہ ڈرامے بنائے جو کہ اس وقت انقلابی تحریک کی مایوسی اور بدظنی کی عکاسی تھی۔ پھر بھی ماسکو آرٹ تھیٹر کی مزاحمتی روایت 1917ء تک برقرار رہی جب شدید قابلِ نفرت زار شاہی کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا گیا۔

انقلابِ روس کے بعد کے سالوں میں ماسکو آرٹ تھیٹرکو عالمی شہرت اور پذیرائی نصیب ہوئی مگر اس سے بھی بڑھ کر سٹینسلاوسکی کا عوامی تھیٹر کا خواب بھی شرمندہِ تعبیر ہوا۔

اکتوبر کے بعد تھیٹر

اکتوبر 1917ء کے انقلاب کے بعد کے سالوں میں یہ روسی تاریخ میں پہلی دفعہ ہوا کہ فن کی دنیا میں عام لوگوں کی حقیقی بنیادوں پر آزاد اور برملا شمولیت دیکھنے میں آئی اور واضح طور پر اس کا سب سے زیادہ اظہار تھیٹر میں ہوا۔ انقلاب میں عوام گمنامی سے نکل کر تاریخ کے روشن باب کا حصہ بنے اور انہوں نے اپنے مفادات میں سماج کو از سرِ نو منظم کرنے کا آغاز کیا۔ اس کاوش میں انہوں نے پہلی دفعہ خود کو حقیقی انسانوں کے طور پر پیش کیا، حقیقی انسانی وجود کی تعمیم کی اور یہ ساری صورتحال کا سب سے روشن اور نمایاں پہلو تھا۔

فن کی یہ ضرورت انسانی روح کی نشوونما کا ناگزیر حصہ ہے۔ روسی انقلاب نے نہ صرف سیاست اور سماج کو تبدیل کرنے کی خواہش بیدار کی بلکہ سٹینسلاوسکی کے الفاظ میں فن اور ثقافت کو سیکھنے، شمولیت اختیار کرنے اور تجربہ کرنے کی آرزو بھی پروان چڑھائی۔ روس بھر میں مقامی فیکٹریوں اور دیہاتوں سے منسلک سینکڑوں تھیٹر کھمبیوں کی طرح اگ آئے۔ بالشویک حکومت کے ابتدائی اقدامات میں بہت سی تھیٹر کمپنیوں کا قیام، ان کی مالی معاونت اور تھیٹر سے متعلق بے شمار تربیتی سکولوں کا قیام شامل تھے۔

روس کی اکثریتی آبادی کو تھیٹر کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ تاہم سوویت حکومت بھی سٹینسلاوسکی کی طرح لوگوں کی تعلیم و تربیت کے لیے تھیٹر کے مفید کردار کو سمجھتی تھی، لہٰذا انہوں نے زیادہ سے زیادہ لوگوں کی تھیٹر تک رسائی کی ہر ممکن کوشش کی۔

لینن اور ٹراٹسکی بار بار اس بات پر زور دیتے تھے کہ کمیونسٹ سماج کی تعمیر کا فریضہ محض معاشی نہیں ہے بلکہ ثقافتی بھی ہے۔ اس زمانے میں بالشویکوں کی روسی تھیٹر کی فعال معاونت اسی اپروچ کی آئینہ دار تھی۔ جب بالشویک اقتدار میں آئے تو انہیں ورثے میں کسان اکثریت والا ملک ملا، جس میں بہت پسماندگی اور جہالت تھی اور صرف 37.9 فیصد مرد اور 12.5 فیصد خواتین ہی خواندہ تھے۔ پیداواری قوتوں کی مزید ترقی اور مزدور ریاست کی بقا ناخواندگی جیسے بنیادی مسئلے کے خاتمے اور انقلابی روس کے ثقافتی معیار کو بلند کرنے کی مسلسل جدوجہد کے بغیر ناممکن تھے۔

جیسا کہ ٹراٹسکی نے ’روزمرہ کے مسائل‘ میں لکھا ہے کہ ”ہماری جدوجہد کیا ہے؟ ہمیں مستعدی، درستگی، باقاعدگی اورکفایت شعاری سے کام کرنا سیکھنا ہو گا۔ ہمیں کام، زندگی اور زندگی کے حالات میں ثقافتی معیار درکار ہے۔ طویل جدوجہد کے بعد ہم مسلح سرکشی کے ذریعے استحصالی راج کو اکھاڑ پھینکنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ لیکن ہمارے پاس پلک جھپکتے ہی نئی ثقافت کی تخلیق کے کوئی ذرائع نہیں ہیں۔ محنت کش طبقے کو اور ساتھ ہی کسانوں کو بھی اپنی تعلیم و تربیت کے طویل مراحل عبور کرنے ہوں گے۔“

اس عمل میں تھیٹر بھی اتنا ہی اہم کردار ادا کر سکتا ہے جتنا کہ کلاس روم کرتا ہے۔ انقلاب کے ایک حامی کے طور پر سٹینسلاوسکی نے فوری طور پر خود کو اور ماسکو آرٹ تھیٹر کو نئے ابھرتے ہوئے سماج کے لیے نئے تھیٹر کی تنظیم و تشکیل کے مقصد کے لیے وقف کر دیا۔

”تھیٹر نے اپنے کام میں ایک نئے مشن کا اضافہ کیا اور وہ مشن یہ تھا کہ تماشائیوں کی وسیع تر عوامی پرتوں کے لیے تھیٹر کے دروازے کھول دیے جائیں، یعنی ان کروڑوں لوگوں کے لیے جنہیں اس سے پہلے کبھی ثقافتی نشاط و کیف سے بہرہ مند ہونے کا موقع ہی نہیں ملا تھا۔ ہمارے دل اس تاریخی ذمہ داری کی بے پناہ اہمیت کے شعور سے لبریز ہو کر فکر اور لطف کی شدت سے زور زور سے دھڑکتے ہیں، جو ہمارے کاندھوں پر آن پڑی ہے۔ فنکاروں کے ہاں ایک خیال یہ بھی پایا جاتا ہے کہ ہم کسانوں کے لیے ایسے ڈرامے تخلیق کریں جو ان کی اپنی زندگیوں اور دنیا کے بارے میں ان کے اپنے نظریات سے مطابقت رکھتے ہوں تو وہ بہترین ڈرامے تصور ہوں گے، یہ نہ صرف بڑی غلط فہمی ہے بلکہ بہت بڑا جھوٹ بھی ہے۔ کسان جب اپنی زندگی پر بنایا گیا ڈرامہ دیکھتا ہے، اس پر تنقید کرتا ہے، وہ جس زندگی سے متعارف ہے سٹیج پر دکھائی جانے والی زندگی اس سے مختلف ہے، وہ اس زبان کو پہچانتا ہی نہیں جو اس کی اپنی ہے، کیونکہ وہ سٹیج کے لوگوں سے بالکل مختلف گفتگو کا عادی ہے۔ اس کا کہنا یہ ہے کہ وہ اپنی گھریلو زندگی سے بیزار ہے۔ وہ اپنی زندگی کو، جیسی کہ وہ ہے دیکھ دیکھ کر اس سے اکتا چکا ہے اور اسے لا متناہی طور پر اب یہ جاننے میں دلچسپی ہے کہ دوسرے لوگ زندگی کیسے بسر کر رہے ہیں۔ سادہ لوح تماشائی خوبصورت زندگی کا خواہشمند ہے۔“

لینن کی طرح سٹینسلاوسکی بھی روسی سوشل ڈیموکریٹک تحریک میں پائے جانے والے معیشت پسند رجحان اور ان کی نام نہاد ’مزدوریت‘ پر تنقید کرتا ہے اور وضاحت کرتا ہے کہ کیوں عام مزدور اور کسان نہیں چاہتے کہ انہیں وہی سب کچھ بتایا جاتا رہے جو وہ پہلے ہی جانتے ہیں یا انہیں وہ سب کچھ دکھایا جائے جس کے وہ پہلے سے ہی عادی ہو چکے ہیں۔ کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ ان کا ذوق بلند ہو، انہیں سیکھنے اور دنیا کی سچائی پر مبنی خوبصورتی کی کرن سے وہ بھی فیض یاب ہو سکیں۔

بورژوا مفکرین کے دلائل کے برعکس، عام لوگ جاہل نہیں ہوتے کہ وہ فن سے استفادہ ہی حاصل نہ کر سکیں، انہیں دراصل فن سے مستفید ہونے اور اسے سمجھنے کے مواقع سے محروم رکھا گیا ہوتا ہے۔ سٹینسلاوسکی روسی سماج کے سب سے پسماندہ سمجھے جانے والے کسان طبقے میں غیر معمولی تبدیلیوں کی ان الفاظ میں نشاندہی کرتا ہے، ”ہمیں یہ سمجھ آنا شروع ہو گیا کہ یہ لوگ تھیٹر تفریح کے لیے ہی نہیں بلکہ سیکھنے کے لیے آتے ہیں۔ مجھے ایک کسان یاد آ رہا ہے جو میرا بہت اچھا دوست تھا، وہ سال میں ایک بار ماسکو ہمارے تھیٹر کے تمام ذخائر کو دیکھنے کے مقصدسے آتا تھا، رات کے کھانے کے بعد وہ ہم سے بہت خوشی خوشی ہمارے تھیٹر سے متعلق تمام خبریں سنتا تھا اور پھر اپنے خوبصورت لباس میں تھیٹر دیکھنے جایا کرتا تھا۔ تھیٹر دیکھتے ہوئے وہ جوش اور ولولے سے لال پیلا ہو جاتا اور تھیٹر ختم ہونے کے بعد وہ سونے کے لیے گھر نہیں جاتا تھا بلکہ ڈرامے سے متعلق اپنے وچار کو ترتیب دینے کے لیے گھنٹوں اکیلا گلیوں میں چہل قدمی کرتا رہتا تھا اور یونہی ہمارا سارا ذخیرہ ختم کر دینے کے بعد پھر وہ آئندہ سال گزارنے اپنے گاؤں لوٹ جایا کرتا تھا۔ وہاں سے وہ بے شمار فلسفیانہ نوعیت کے خطوط لکھا کرتا تھا جو اسے ان تمام محسوسات کو جذب کرنے اور پورا سال ان پر گزر بسر کرنے میں معاونت کرتے تھے جو وہ ماسکو سے اپنے ساتھ لے کر آتا تھا۔ میرا خیال ہے کہ ہمارے تھیٹر میں آنے والے ایسے تماشائیوں کی تعداد کم نہیں تھی۔ ہم ان کی موجودگی اور ان کی طرف اپنے فنی فرائض کو محسوس کیا کرتے تھے۔“

سٹینسلاوسکی اپنی بات جاری رکھتا ہے، ”ہمارے تھیٹر کے دروازے غریب لوگوں کے لیے مکمل طور پر کھل گئے مگر انٹیلی جنشیہ کے لیے کچھ وقت کے لیے بند ہو گئے۔ ہمارا تھیٹر ان تمام لوگوں کے لیے مفت ہوتا تھا جو اپنی فیکٹریوں یا اداروں سے ہمارے بھیجے گئے ٹکٹ لے کر آتے تھے۔ ہم پہلی مرتبہ آنے والے تماشائیوں کو ڈگری جاری کرنے کے بعد بالمشافہ ملاقات بھی کرتے تھے، جن کی بھاری اکثریت نہ صرف ہمارے تھیٹر بلکہ کسی بھی تھیٹر کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے ہوتے تھے۔ انقلاب کے بعد سماج کے بہت سے طبقات ہمارے تھیٹر آیا کرتے تھے۔ سپاہیوں، روس کے طول و عرض سے ڈپٹی صاحبان، بچے اور نوجوان اور آخر میں مزدور اور کسان، ان سب کا آنا جانا لگا رہتا تھا۔ وہ لفظ کے صحیح معنوں میں تماشائی ہوتے تھے، وہ حادثاتی طور پر ہمارے تھیٹر نہیں آتے تھے بلکہ وہ بہت پرجوش ہوتے تھے اور انہیں کسی بہت اہم اور پہلے نہ دیکھے گئے تجربے کی توقع ہوتی تھی۔“

حتیٰ کہ انقلاب کے دشمن بھی یہ تسلیم کرتے تھے کہ فن کی دنیا میں دھماکہ خیز صورتحال جنم لے چکی ہے۔ ایک امریکی بالشویک مخالف تھیٹر نقاد اولیور سیلر جو انقلاب کے وقت روس پہنچا تھا، نے 1922ء میں عام روسیوں کو دستیاب تھیٹر کی غیر معمولی درجہ بندی کی تھی۔ یہ تھیٹر سارا سرما چلتے تھے اور صرف مذہبی ایام میں ہی تعطیل ہوتی تھی۔ سارے ملک میں تھیٹر کی وبا پھیل گئی تھی۔ حتیٰ کہ دور افتادہ پسماندہ دیہاتوں میں بھی کسان انفرادی طور پر یا مل کر ڈرامے لکھا کرتے تھے۔ جہاں مسلمہ معیار کے ڈرامے یا ڈرامائی ادارے نہیں ہوتے تھے وہاں روایتی روسی گیت ہی سٹیج پر پیش کیے جاتے تھے۔

ملک میں کوئی ایک ایسی فیکٹری نہیں تھی جس کا اپنا ڈرامہ سرکل نہیں تھا اور خانہ جنگی کے وقت 3000 پیشہ ور دستے بھی الگ سے موجود تھے۔ سرخ فوج کے سپاہی ڈرامے لکھتے تھے اور ہزاروں رجمنٹل سرکلز کے گرد ان کوبنایا اور پیش کیا جاتا تھا۔ اور 1920ء میں سرخ فوج کے اپنے 1800 کلب تھے جن کے ساتھ 1210 تھیٹر اور 911 ڈرامہ سرکلز بھی منسلک تھے۔ دنیا میں کوئی اور ایسا ملک نہیں تھا جہاں اتنے وسیع پیمانے پر تھیٹر ہوتا ہو اور اتنے بڑے پیمانے پر عوام کی تھیٹر تک رسائی ہو۔

دوسرے عوامی تماشوں میں چھٹی کے دن کیے جانے والے خاص ڈرامے شامل تھے۔ ان ڈراموں کا مرکزی خیال عام طور پر 1848ء اور 1917ء کے انقلابات کے ساتھ ساتھ پیرس کمیون اور سپارٹکس کی قیادت میں غلاموں کی تاریخی بغاوتوں پر مبنی ہوتا تھا۔ سب سے مشہور ڈرامہ ’سرما محل پر دھاوا‘ تھا جو 7 نومبر 1920ء میں سرما محل کے سامنے سٹیج پر دکھایا گیا تھا جہاں 8000 سے زیادہ شرکا اور لگ بھگ 500 پر مشتمل آرکیسٹرا بھی موجود تھے۔ ان میں ایسے لوگ بھی شامل تھے جنہوں نے انقلاب کے وقت سرما محل پر دھاوے کے حقیقی واقعہ میں بھی حصہ لیا تھا۔

یہ پہلی دفعہ ہو رہا تھا کہ تھیٹر بورژوازی کی تفریح نہیں رہ گیا تھا بلکہ سماج کی تعمیرِ نو کا لازمی اوزار بن گیا تھا۔ سٹینسلاوسکی کے خیال میں اب اداکار محض ایک پیشہ ور شخص نہیں تھا بلکہ ایک ایسا شخص تھا جسے سماج کی تعمیرِ نو کے عمل میں اپنا حصہ بھی ڈالنا تھا۔

”اور تمہیں، یعنی آج کے اداکار کو کیسا ہونا چاہیے؟ سب سے پہلے تو تمہیں جیتے جاگتے انسان ہونا چاہیے اور تمہارے دل و دماغ ان تمام خصوصیات سے لبریز ہونے چاہیئیں جو نئے شعور کی تعمیر میں ہمارے لیے معاون ہوں۔ کس شعور کی تعمیر؟ ایسا شعور جس میں سب کی فلاح پر مبنی زندگی محض جامد خوابوں اور ناقابلِ حصول تصورات کا موضوع نہ رہ جائے۔“

سٹینسلاوسکی کا کام بہرحال ہر دیکھنے والے کو سمجھ نہیں آتا۔ مثال کے طور پر پرولتاری مصنفین کی ایسوسی ایشن نے اداکار کے لیے سٹینسلاوسکی کی نفسیاتی اور روحانی اپروچ کو ’خیال پرست‘ قرار دیا ہے۔ یہ نقاد سٹینسلاوسکی کے پسِ منظر اور جس طرح کے ڈراموں کو وہ ترجیح دیتا تھا (جو دراصل روس اور عالمی کلاسکس میں شامل ہیں) ان کا سطحی سا جائزہ لیتے ہیں اور ماسکو آرٹ تھیٹر پر دائیں بازو یا بورژوا رجحان کا غلط لیبل لگا دیتے ہیں۔

ان میں سے کچھ جیسا کہ ’پرولیٹ کلٹ‘ والوں کی دلیل یہ تھی کہ قبل از انقلاب کی تمام فنی اشکال بورژوا ہیں لہٰذا ان سب سے گریز کرنا چاہیے یا انہیں مکمل طور پر تباہ کر دینا چاہیے۔ تاہم بالشویک اور خاص طور پر لینن فن کی اس میکانکی اور یکطرفہ تشریح کے مخالف تھے اور ان کا خیال تھا کہ انقلابی روس کو نہ صرف ماضی کی عظیم فنی حاصلات کو اپنا لینا چاہیے بلکہ انہی کی بنیاد پر آگے تعمیر کا سفر شروع کرنا چاہیے۔

ماسکو آرٹ تھیٹر کی تیرھویں سالگرہ 1928ء میں منائی گئی۔ لونا چارسکی لینن کو نقل کرتا ہے، ”اگر کوئی ایسا تھیٹر ہے جسے ہمیں ہر قیمت پر محفوظ کرنا ہے تو وہ ظاہر ہے کہ یہی آرٹ تھیٹر ہے۔“ بالشویک حکومت کی حمایت سے ماسکو آرٹ تھیٹر نے 1917ء اور 1918ء میں کام جاری رکھا اور صرف یہ انقلاب کے ایک ماہ کے دوران معطل رہا۔ 1919ء میں ماسکو آرٹ تھیٹر ماسکو اکیڈمک آرٹ تھیٹر بن گیا جو سرکاری تھیٹر تھا جسے حکومتی مالی معاونت سے چلایا جاتا تھا۔

حکمران طبقے کے دعووں کے برعکس، انقلاب کے ابتدائی دنوں میں بالشویک حکومت نے زار کے دور کی طرح یا بعد ازاں سٹالن کی مانند فنی آزادی کو قطعی طور پر سلب نہیں کیا۔ لینن اور کلیدی بالشویک رہنما فنی آزادی کے معاملے میں بہت حساس تھے اور اسے اسی داد و تحسین سے نوازتے تھے جس کی وہ مستحق ہوتی ہے۔ یہ وہ حقیقت ہے جس کا سٹینسلاوسکی نے خود بھی اعتراف کیا ہے۔

ماسکو آرٹ تھیٹر کی تیرھویں سالگرہ کے موقع پر اس نے کہا، ”ان دنوں حکومت نے ہماری مدد کی جس کے باعث ہم ان طوفانی حالات کا سامنا کرنے کے قابل ہوئے لیکن میں اپنی حکومت کی ایک اور بالکل منفرد وجہ سے بھی بہت تعریف کرنا چاہتا ہوں۔ جب ہمارے ملک میں طوفانی سیاسی واقعات برپا ہو رہے تھے، ہماری حکومت نے ہمیں خود پر سرخ روغن کرنے پر کبھی مجبور نہیں کیا اور ہمیں کبھی ایسا کوئی دکھاوا کرنے پر مجبور نہیں کیا گیا۔“

سٹالنزم کے زیرِ تسلط روس میں جمالیاتی تخلیق کو درپیش حبس کی نشاندہی کرتے ہوئے 1938ء میں ٹراٹسکی رقمطراز ہے کہ، ”ایک سچی انقلابی پارٹی طاقت پر قبضہ کرنے سے پہلے یا بعد میں کبھی بھی فن کی ’رہنمائی‘ یا اس پر جکڑ قائم کرنے میں نہ تو کامیاب ہو سکتی ہے اور نہ ہی اس کا ایسا کچھ ارادہ ہوتا ہے۔ ایسی خواہش صرف جاہل اور بے غیرت افسر شاہی کے دماغ میں ہی جنم لے سکتی ہے جو اپنی مطلق العنانیت کے نشے میں دھت ہو اور جو پرولتاری انقلاب کا اینٹی تھیسس بن چکی ہو۔ جمالیاتی تخلیق، حتیٰ کہ جب وہ شعوری طور پر ایک تحریک کی خدمت پر مامور ہی کیوں نہ ہو، کے اپنے قوانین ہوتے ہیں۔ جھوٹ، منافقت اور جبر یا دباؤ کے ماحول میں سچی دانشورانہ تخلیق ممکن نہیں ہوتی۔ فن انقلاب کا مضبوط اتحادی صرف اسی صورت میں بن سکتا ہے جب وہ اپنے آپ سے وفادار ہو۔“

سوویت ماسکو آرٹ تھیٹر: کلاسکس بمقابلہ ایوانٹ گراڈ (جدت کاری)

بالشویکوں کی حمایت سے ماسکو آرٹ تھیٹر انقلاب کے بعد ترقی کی منازل طے کرتا رہا، یہ عملاً سب سے بڑا ریاستی حمایت یافتہ تھیٹر تھا جو ایک قومی ورثے کی شکل اختیار کر چکا تھا۔ 1922ء اور 1924ء کے یورپی اور امریکی دوروں کے بعد ماسکو تھیٹر کو عالمی سطح پر مقبولیت ملی اور دنیا بھر کے نقادوں نے داد و تحسین سے نوازا۔ اس زمانے میں تھیٹر نے روس اور یورپ کے سرکردہ ڈرامہ نویسوں کے کام کو بڑے پیمانے پر اپنے ذخیرے کا حصہ بنایا۔

1924ء میں ماسکو واپسی کے بعد ماسکو آرٹ تھیٹر نے نئے سوویت ڈراموں کے ساتھ ساتھ روسی کلاسکس پر بھی کام جاری رکھا۔ سٹینسلاوسکی نے 1925-27ء میں ایک نوجوان کمپنی کے ساتھ ’سوویت ماسکو آرٹ تھیٹر‘ کا از سرِ نو اجراء کیا۔ ماسکو آرٹ تھیٹر نے انہی دنوں لیوٹالسٹائی کے ’محشر‘ کو نئے ڈھنگ سے دوبارہ تخلیق کیا جس میں حکمران طبقے کو کوئی چھوٹ نہیں دی گئی بلکہ شدید لعنت ملامت کی گئی تھی۔ ایسے ہی گوگول کے ’انسپکٹر جنرل‘ اور ’مردہ ارواح‘ کو بھی نئے انداز سے دوبارہ بنایا گیا۔

’سوویت نظریات سے مسلح ٹرین‘ نے بھی 1927ء میں ماسکو آرٹ تھیٹر کی کامیابیوں میں اضافہ کیا اور اسے کلاسک کے درجے پر پہنچا دیا، یوں غیر ارادی طور پر مستقبل کے سوشلسٹ حقیقت پسند تھیٹر کی راہ ہموار ہوئی۔ 28 اپریل 1927ء کو ماسکو تھیٹر کا پیش کردہ ’فگارو کی شادی‘ بھی فوراً ہی سوویت تھیٹر کے کلاسک کے طور پر سامنے آیا۔ پیئرے بیومارچیس کا یہ ڈرامہ قدیم سلطنت اور مراعات یافتہ اشرافیہ پر دھواں دار تنقید کا حامل تھا اور غالباً یہ اٹھارویں صدی کا سب سے انقلابی ڈرامہ تھا۔ سٹینسلاوسکی نے سیٹ پر گھومنے کی تکنیک کو فنکارانہ طور پر استعمال کیا جس نے آخری ایکٹ کو چار مختلف مقامات کے استعمال سے باغ میں بھگدڑ میں تبدیل کر دیا۔

اکتوبر انقلاب کے بعد ماسکو آرٹ تھیٹر کے علاوہ دیگر تھیٹرز کا بھی احیا ہوا۔ سابقہ شاہی تھیٹر ’الیگزینڈر نسکی‘ ریاستی ڈرامہ تھیٹر بن گیااور الیگزینڈر نسکی کے ساتھ ساتھ مالے تھیٹر کے حوالے سے تعلیم کی عوامی کمیساریت کا پہلا اقدام کلاسکس کے ذخیرے کی بہتری میں ان کی معاونت کرنا تھا۔ 1917ء کے بعد کے سالوں میں ریاستی ڈرامہ تھیٹر نے ’فگارو کی شادی‘، شیلر کے ’محبت اور سازش‘ اور 1918ء میں گورکی کے ’پاتال لوک‘ جیسے شاہکار تخلیق کیے۔ انقلاب کے بعد روسی تھیٹر کے حلقوں میں سب سے زیادہ زیرِ بحث رہنے والا سوال یہ تھا کہ کیا روسی کلاسکس پر دوبارہ کام کیا جائے یا صرف جدید انقلابی تھیٹر (ایوانٹ گراڈ) کو ہی فروغ دیا جائے۔

میئرہولڈ اگرچہ سٹینسلاوسکی کا پرانا طالبِ علم تھا مگر اس نے ماسکو آرٹ تھیٹر اور اپنے استاد کے بنائے گئے قدیم روسی کلاسکس کی مخالفت کی اور ادب، نفسیات اور نمائندہ حقیقت پسندی میں ’کعبیت (cubism)‘، فیوچرازم اور سپرمیٹزم کو متبادل کے طور پر پیش کیا۔ اس وقت سوویت یونین میں ثقافت اور تعلیم کی ذمہ دار روشن خیالی کی عوامی کمیساریت (وزارت) نے اس تجویزکی اس لیے مخالفت کی کیونکہ بالشویک فن پر ایوانٹ گرانڈ یا کسی بھی دوسرے گروہ کی اجارہ داری کے سخت خلاف تھے۔

بالشویک یہ سمجھتے تھے کہ فنی تخلیق کی قدیم اور جدید تجرباتی اپروچ ایک دوسرے کو خارج نہیں کرتی بلکہ ایک دوسرے کی تکمیل کرتی ہیں، لہٰذا انہیں ایک دوسرے کی معاونت کرنی چاہیے۔

’نظام‘کی تخلیق

سٹینسلاوسکی کا نظام اداکاری کے سب سے جامع مطالعے کی شکل میں موجود ہے۔ اسے ارادتاً ایسے عملی قواعد و ضوابط میں مربوط کیا گیا ہے جو اداکاروں کو اپنے تحت الشعور اور تخیلاتی اٹھان کے دم پر اپنے کام میں مستقل مزاجی اور کامیابی کے تسلسل کو برقرار رکھنے میں معاونت کرتا ہے۔ عشروں تک سٹینسلاوسکی اپنی ڈائری مرتب کرتا رہا جس میں اس نے اپنی اداکاری، تجربات، فتوحات، ناکامیوں اور دوسرے عظیم اداکاروں کے کام سے سیکھے گئے اسباق درج کیے۔

یہی ڈائری سٹینسلاوسکی کے شائع شدہ کام اور نظام کی بنیاد ہے۔ روس میں سٹالنسٹ جبر کے دور میں جب وہ ستر سال کا ہوا تو سٹینسلاوسکی اداکاری کے بارے میں اپنے نظریات کی تدوین پر آمادہ ہو گیا۔ وہ شروع میں اس لیے بھی متذبذب تھا کیونکہ وہ اپنے نظریات کو مسلسل ارتقا پذیر سمجھتا تھا جہاں کوئی بھی فارمولہ اسے زیادہ دیر مطمئن نہیں کر پاتا تھا۔ درحقیقت وہ اداکاری پر کسی بھی تحریری مشق سے یکسر باغی تھا کیونکہ اس کے خیال میں ایسی تحریری مشق کے بہت آسانی سے اداکاروں کی طرف سے اپنے جذبات اور خیالات سے عاری میکانکی ریاضت میں بدل سکنے کے امکانات تھے۔ بہت سوچ وچار کے بعد اس نے اپنی تصانیف کو سات کتابوں کے نیم افسانوی سلسلے کے طور پر شائع کرنے کا فیصلہ کیا۔

سٹینسلاوسکی کا نظام عام طور پر دو حصوں پر مشتمل ہے، اداکاروں کا خود پر داخلی اور خارجی کام اور اداکاروں کا کرداروں پر داخلی اور خارجی کام۔ اداکاروں کے داخلی کام کا مقصد مختلف نفسیاتی تکانیک کو بروئے کار لاتے ہوئے مخصوص تخلیقی اور تلقینی ذہنی کیفیت کا حصول ہے۔ اداکاروں کے خارجی کام سے مراد داخلی زندگی کی کیفیات کو سٹیج پر پیش کرنے کے لیے اپنے جسم کو طبعی طور پر تیار کرنا ہے۔ کردار پر کام کا مطلب ہے کہ تحریر کا گہرائی میں مطالعہ کیا جائے اور اس کے داخلی مفاہیم اور قوانینِ محرکہ کو اچھی طرح سے سمجھا جائے۔ یہی داخلی مفاہیم سارے ڈرامے اور اس کے تمام انفرادی کرداروں کو زندگی عطا کرتے ہیں۔

سٹینسلاوسکی نظام پر اپنے تحریری سلسلے کی تکمیل سے پہلے ہی انتقال کر گیا اور اس کے مسودات کو پایہِ تکمیل تک پہنچانے کا فریضہ اس کے شاگردوں، شرکا اور اس کے مدیروں کے کندھوں پر آن پڑا۔ سٹینسلاوسکی کے نظام کے کچھ حصے نظام کی تکمیل سے قبل ہی ماسکو آرٹ تھیٹر کے 1920ء میں عالمی دورے جیسے دیگر مواقع پر عوامی سطح پر ریلیز کیے جا چکے تھے۔

غالباً اس سلسلے کا سب سے مشہور واقعہ نیویارک ایکٹرز سٹوڈیو میں لی سٹراسبرگ کی طرف سے اس میتھڈ کی ترویج تھا جس نے اداکار کی ’جذباتی یادداشت‘ کے استعمال پر بہت زیادہ زور دیا۔ اس سٹوڈیو میں اداکاروں کو ترغیب دی جاتی تھی کہ وہ اپنے کرداروں میں مکمل طور پر ڈوب جائیں اور ڈرامے کے جذبات کو حقیقی زندگی کا عملی تجربہ بنانے کی کوشش کریں۔ یعنی اگر سٹیج پر ایک کردار دل شکستگی کے احساسِ زیاں سے مغلوب ہے تو اداکار سے توقع کی جاتی تھی کہ وہ اسی جذبے کو حقیقی زندگی میں لائے اور اسے اپنی فنی کاوش میں عملی جامہ پہنائے۔

یہ سٹینسلاوسکی کی تعلیمات سے براہِ راست متصادم تھا کیونکہ اس کے خیال میں ایک اداکار کو زندگی کے تجربات کو براہِ راست سٹیج پر من و عن منتقل کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے کیونکہ ایسا کیا ہی نہیں جا سکتا۔ اس طرح کی اپروچ سے مصنف کے اصل کام کے عمیق مطالعے کو نظر انداز کر دیا جانے کا خدشہ سر اٹھاتا ہے اور اداکار کی شخصیت میں کردار کی عکاسی کی روش بھی عام ہو سکتی ہے حالانکہ ہونا اس کے برعکس چاہیے۔

سٹینسلاوسکی کا نظام ہمیشہ ایک نامیاتی کُل کی نمائندگی کا آرزو مند نظر آتا ہے۔ نامیاتی کُل سے مراد نفسیاتی، تصوراتی اور طبعی یا جسمانی تیاری کا ایسا امتزاج ہے جو مصنوعی طور پر منقسم یا درجہ بند نہ ہو۔ اس کا ارادہ سخت گیر قوانین کی کتاب مرتب کرنا نہیں تھا بلکہ اداکاروں کے لیے ایسے رہنما اصول مرتب کرنا تھا جن کے ذریعے وہ تخلیقیت کے مسائل کو حل کرنے میں کامیاب ہو سکیں۔ صرف اداکاری کے قوانین کو سمجھ لینا ہی از خود اچھی اداکاری کے لیے کافی نہیں ہے اور اسی طرح ایک اچھی کہانی لکھنے کے لیے بھی محض زبان اور صرف و نحو پر عبور کافی نہیں ہے۔ یہ درست ہے کہ سٹینسلاوسکی نے اداکاری کے قوانین کی سائنسی تفہیم کو رواج دیا مگر اس کے نظام کا مقصد تخلیقیت یا عملی تجربے کا متبادل پیش کرنا ہرگز نہیں تھا۔

سٹالنزم اور سوشلسٹ حقیقت پسندی

تاہم انقلابی روس میں تھیٹر کا سنہرا دور زیادہ عرصہ قائم نہ رہ سکا کیونکہ انقلاب کی زوال پذیری کا نتیجہ فنون سمیت ہر اس شعبے میں ردِ انقلاب کی صورت میں برآمد ہوا جس میں بعد ازاں نقلاب خاطر خواہ پیش رفت ہوئی تھی۔ 1917ء کے بعد بالشویکوں کی روادارانہ روش سٹالن کے دور میں سر کے بل کھڑی نظر آئی۔ سٹالنسٹ ردِ انقلاب اور افسر شاہی کے ابھار کے ماحول میں ایک وقت میں عظمت کی بلندیوں کو چھونے والے ماسکو آرٹ تھیٹر کو عشروں پر محیط ذلت آمیز زوال کا سامنا کرنا پڑا جس سے وہ کبھی روبہ صحت نہ ہو سکا۔

دسمبر 1927ء میں پارٹی کی پندرھویں کانگریس میں ٹراٹسکی کی متحدہ حزبِ مخالف کو شکست سے دوچار ہونا پڑا جس سے طاقت پر افسر شاہی کی جکڑ مزید مضبوط ہو گئی۔ تھیٹر روس میں جاری سیاسی و سماجی رجعت سے محفوظ نہیں رہ سکتا تھا۔ بڑے پیمانے پر شرکت، مزید پروڈکشن اور زیادہ ڈراموں کی مانگ کو پرولتاریہ کے نام پر نااہل اور گھٹیا ’تفریح پسندی‘ کو فروغ دے کر پورا کیا گیا۔ یہ گھٹیا تفریح پسندی دراصل بے رنگ اور بے جان افسر شاہی کے تقاضوں کی عکاسی کرتی تھی۔ اس کے سبب سٹینسلاوسکی کی اپنی پیشکش ’اوتھیلو‘ کو بھی مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔

سٹینسلاوسکی کوجو اس وقت ملک سے باہر تھا، اچانک پتہ چلا کہ ڈرامہ سٹیج پر ریلیز کیا بھی جا چکا ہے جبکہ اس نے ڈرامے کا منصوبہ ابھی تک مکمل ہی نہیں کیا تھا۔ ڈرامے کے لیے صرف تین ماہ تک ہی ریہرسل کی اجازت دی جاتی تھی اور سٹینسلاوسکی کے منصوبوں کو بھی خاطر میں نہیں لایا جاتا تھا۔

اس بات کا سہرا بہرحال سٹینسلاوسکی کے سر ہے کہ اس نے 1931ء میں حکامِ بالا کو براہِ راست چیلنج کیا اور ماسکو آرٹ تھیٹر کو کسی حد تک خود مختاری نصیب ہوئی۔ اس سب کے باوجود المیہ یہ ہے کہ ماسکو آرٹ تھیٹر کا خاتمہ سٹالن کی فنون سے متعلق حکمتِ عملی کے ذاتی مہرے کے طور پر ہوا۔ اس دور میں، ماسکو آرٹ تھیٹر کے زمانہ شباب میں اختیار کردہ اور 1917ء کے بعد کی انقلابی پالیسی کو منظم طریقے سے سوشلسٹ حقیقت پسندی کی پالیسی کے لیے پامال کیا گیا جو 1932ء میں فن کے حوالے سے سرکاری سطح پر ریاست کی پالیسی بن چکی تھی۔

سوشلسٹ حقیقت پسندی فن کا وہ سٹائل ہے جس کا مقصد کمیونزم کی اقدار کا احاطہ کرنا ہے۔ تاہم حقیقت میں یہ ہر قسم کی فنی تخلیقیت کو سٹالنسٹ افسر شاہی کے اوہام اور ضروریات کے تابع کرنے کی پالیسی تھی۔ سوویت کے حالاتِ زندگی اور حکومت کے قصیدوں سے کم کچھ بھی قابلِ قبول نہیں تھا۔ تھیٹر میں اس کا مطلب ہر قسم کی انفرادیت اور تجربے کی مکمل تباہی تھا۔ سٹالنزم اور سوشلسٹ حقیقت پسندی نے ہر اس چیز کو دوبارہ اپنایا جس کے روسی تھیٹر سے انخلا کے لیے سٹینسلاوسکی نے لڑائی لڑی تھی۔

یوں سٹینسلاوسکی کی رائج کردہ حقیقت پسندی نے خود کو سٹالنسٹ افسر شاہی کی گرفت میں محبوس پایا۔ انقلاب کے بعد کے ابتدائی سالوں میں سوویت نقادوں کی طرف سے کی جانے والی شدید تنقید اب بے انت خوشامد اور داد و تحسین میں تبدیل ہو گئی تھی۔ سٹالن نے فیصلہ کر لیا تھا کہ ماسکو آرٹ تھیٹر ریاست کی فن کے حوالے سے پالیسی کی علامت بنا دیا جائے گا اور روس بھر کے تمام تھیٹرز اس ماڈل کی پیروی کرنے پر مجبور ہوں گے۔ اداکاروں کی تربیت بھی سٹینسلاوسکی کے نظام کے تحت ہی ہوا کرے گی۔ مگر سٹالن نے اس نظام کو انتہائی سخت گیر اور ناقابلِ تغیر شکل میں رائج کیا تھا۔ دوسرے آزادانہ ذہنیت کے حامل فنکاروں کا بھی یہی یا اس سے بھی بدتر انجام ہوا۔

سٹالن کی فن سے متعلق پالیسی کا شکار ہونے والوں میں موسیقار دمتری شوستا کووچ، فلم ہدایتکار سرگئی آئزنسٹائن اور الیگزینڈر روڈچنکو جیسے فنکاروں کے نام شامل ہیں، جنہیں خاموش کرا دیا گیا اور ان کے فن کے پر کتر دیے گئے۔ اپنے تجربات اور جدت کاری کے باعث بیسویں صدی کے تھیٹر میں انقلاب برپا کر دینے والے میئرہولڈ نے سٹالن کے ردِانقلاب کے خلاف مزاحمت کرنے کی شاندار کوششیں کیں۔ اس نے اپنے ناقدین کو گھاس نہیں ڈالی اور نتیجتاً حکامِ بالا نے اسے سٹیج سے بے دخل کر دیا۔ مئیرہولڈ کے تھیٹر کو 1938ء میں تحلیل کر دیا گیا اور مئیرہولڈ خود بیروزگار ہو گیا۔

1939ء میں ہدایتکاروں کی آل یونین کانگریس میں مئیرہولڈ کی آخری شاندار تقریر سوشلسٹ حقیقت پسندی اور سوویت کے فنون کی گردن پر اس کی جان لیوا گرفت کی آگ لگا دینے والی مذمت ہے۔ ”جاؤ، ماسکو کے تھیٹروں کے چکر لگاؤ اور دیکھو کہ سوشلسٹ حقیقت پسندتھیٹر کے عنوان کی آڑ میں جو افسوسناک اور بدبخت رجحان مضمر ہے اس کا فن سے کوئی تعلق نہیں۔ ان کی بھدی اور بدمزہ فنی کاوشیں ایک دوسرے جیسی ہی ہیں اور ایک دوسرے سے زیادہ بھدی ہیں۔ فنون سے وابستہ لوگ تلاش کرتے ہیں، غلطی کرتے ہیں، ٹھوکر کھا جاتے ہیں اور منحرف ہو جاتے ہیں لیکن بہرحال وہ تخلیق کرتے ہیں، یہ تخلیقات بعض اوقات قدرے بری ہوتی ہیں اور بعض اوقات شاندار۔ ایک وقت تھا جب یہاں پر دنیا کے بہترین تھیٹر ہوا کرتے تھے۔ اب دیکھو اور مجھے یہ کہنے کی اجازت دو کہ فن میں ہر چیز مایوس کن، محبوس، اوسط درجے کی حسابی کتابی، بدحواس اور مضر حد تک قابلیت سے محروم ہے۔ کیا یہ ہے تمہارا مقصد؟ اگر یہی ہے تو آہ تم کتنے سفاک اور بدمعاش ہو۔ روایت شکنی کے نام پر تم نے فن کا صفایا کر دیا ہے۔“

اس تقریر نے مئیرہولڈ کے مقدر کا فیصلہ کر دیا۔ حکامِ بالا کی طرف سے کئی سالوں کی لعنت ملامت کے بعد اسے گرفتار کر لیا گیا، اس پر ٹراٹسکائیٹ اور جاسوس ہونے کے الزامات لگائے گئے، بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور آخر کار 2 فروری 1940ء کو گولی مار کر قتل کر دیا گیا۔

سٹینسلاوسکی کی میراث

آج دنیا میں کوئی ڈرامہ سکول ایسا نہیں ہے جو سٹینسلاوسکی کے نظام کو کسی نہ کسی شکل میں استعمال یا اس کی تعلیم نہیں دیتا۔ اداکاروں، ہدایتکاروں اور فنکاروں کی کئی نسلیں اس کی حقیقت پسندی اور اداکاری کے قوانین کے مطالعے کا سنگِ بنیاد رکھنے پر اس کی مشکور اور مقروض رہی ہیں۔ اداکاری اور فن کی دنیا میں حقیقت پسندی سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتا ہے جیسا کہ مئیرہولڈ اور بیسویں صدی کے ایک اور عظیم انقلابی ڈرامہ نگار برتولت بریخت نے ثابت کیا کہ بیسویں صدی میں اداکاری کی جو شکل غالب رہی ہے وہ حقیقت پسندی ہی ہے۔

حقیقت پسندی نے دنیا بھر کے ناظرین کو رلایا بھی ہے، محظوظ بھی کیا ہے اور ترغیب بھی دی ہے۔ اس کے داخلی قوانین کو دریافت کرنے کے باعث سٹینسلاوسکی کو جدید اداکاری کا باپ کہا جا سکتا ہے۔ سٹینسلاوسکی روس میں انقلابی تبدیلی کے عہد کی پیداوار تھا اور اپنی ساری زندگی وہ زار شاہی کے خلاف جدوجہد میں متحرک رہا۔ اس دور میں روسی تھیٹر کا شاندار ابھار خاص طور پر چیخوف، سٹینسلاوسکی، مئیرہولڈ اور دیگر کی فنی عظمت ہی کے مرہونِ منت نہیں تھا۔

ان سب عظیم دماغوں کی قابلیت پر کوئی سوال اٹھانے کی گنجائش نہ ہونے کے باوجود یہ حقیقت اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ 1917ء کے اکتوبر انقلاب اور سماجی تبدیلی کے بغیر یہ سب ناممکن ہوتا۔ یہ انقلاب ہی تھا جس کی بدولت فنی تخلیقیت کو کبھی نہ دیکھا گیا عروج نصیب ہوا اور یہ کہنے دیجیے کہ اس کے بعد بھی ایسا عروج آج تک نہیں دیکھا گیا۔

اس تخلیقی چنگاری کو سٹالنزم نے مجرمانہ طور پر بجھا دیا۔ لیکن افسر شاہی کا بدترین جبر بھی اس روشن خیالی اور کروڑوں لوگوں کے ثقافتی افق کی وسعت کو ماند نہیں کر سکا جو انقلاب اور سٹینسلاوسکی جیسے لوگوں کی حاصلات تھیں۔ مثال کے طور پر اس میراث کی ہلکی سی کرن آج بھی مشہورِ زمانہ روسی سنگت ناچ (ballet) اور آرکیسٹرا میں دیکھی جا سکتی ہے۔

1929ء میں نئے سال کی آمد پر ماسکو آرٹ تھیٹر سے خطاب کرتے ہوئے سٹینسلاوسکی نے یہ تاریخی الفاظ ادا کیے تھے، ”وقت آئے گا اور بہت جلد آئے گا جب ایک عظیم کھیل لکھا جائے گا جو ایک عظیم دماغ کی تخلیق ہو گا۔ یہ ڈرامہ ظاہر ہے کہ انقلابی ہو گا۔ کوئی بھی عظیم کام اس کے علاوہ اور ہو بھی کیا سکتا ہے۔ لیکن یہ ڈرامہ اس لیے انقلابی نہیں ہو گا کہ اس میں سرخ جھنڈے لہراتے ہوئے مارچ کیا جائے گا۔ انقلاب اس ڈرامے میں خارجی عنصر نہیں ہو گا بلکہ اس کے اندر سے برآمد ہو گا۔ ہم ایک نئے اور ابھی تک غیر تفہیم شدہ یا غیر محسوس حال اور بوسیدہ ماضی کی داخلی کشمکش کو روحِ عصر کی ہئیتی تبدیلی کی شکل میں سٹیج پر ملاحظہ کریں گے۔ یہ مساوات، آزادی، ایک نئی زندگی اور بلند ثقافت کی جدوجہد ہو گی۔“

اس عظیم کام کا امکان آج بھی دنیا بھرکے محنت کشوں کی صلاحیت میں مخفی ہے۔ یہ انقلابیوں کا فریضہ ہے کہ اس امکان کو حقیقت کا روپ دیں اور سماج میں انقلاب کی تکمیل کے ذریعے فن میں بھی انقلاب برپا کریں۔ تمام سچے فنکاروں پر لازم ہے کہ وہ اس مقصد کے لیے جدوجہد کریں، کیونکہ یہی وہ واحد چیز ہے جو فن اور تخلیقیت کو سرمایہ داری اور طبقاتی معاشرے کے چنگل سے آزاد کروا کر فن کی آزادی اور حقیقی انسانی محسوسات کا اظہار بنے گی۔