پچھلے دو مہینوں سے ترک ریاست اور اردوگان کو ایک عجیب و غریب ذریعے سے حملوں کا سامنا ہے۔ جرائم کی دنیا میں طویل ریکارڈ رکھنے والا اور حیران کن طور پر انتہائی کم سزا یافتہ ایک بدنامِ زمانہ جلا وطن مافیا ڈان سعادات پیکر پچھلے دو مہینوں سے ہر اتوار کو ایک ویڈیو جاری کر رہا ہے جس میں وہ اہم AKP پارٹی (اردوگان کی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی) نمائندگان، ترک ریاست اور منظم جرائم کے درمیان گٹھ جوڑ کے راز افشاں کرنے کا دعویٰ کر رہا ہے۔
[Source]
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ان ویڈیوز میں سے کچھ کا دورانیہ ایک گھنٹے سے زیادہ ہے اور ان کی مقبولیت مسلسل بڑھ رہی ہے حتیٰ کہ اب 1 کروڑ سے زیادہ افراد انہیں ہر ہفتہ باقاعدگی سے دیکھ رہے ہیں۔ واضح نظر آ رہا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ پیکر اور زیادہ پراعتماد ہو کر اور زیادہ گھناؤنی تفصیلات جاری کر رہا ہے۔
آمریت کا پردہ فاش
پیکر نے AKP آمریت کے عوامی نمائندگان اور ان کے خاندانوں کے حوالے سے بہت زیادہ الزامات عائد کئے ہیں۔ اس عمل میں اس نے ان افراد کی ایسی منظر کشی کی ہے جس نے ان کی طرف سے میڈیا میں ”قابلِ عزت“ ہونے کے پراپیگنڈے کو تہس نہس کر کے رکھ دیا ہے۔ مثلاً پیکر نے ارکان یلدرم۔۔پچھلے وزیرِ اعظم بینالی یلدرم، AKP کا وائس چیئرمین اور صدر اردگان کے انتہائی قریبی ساتھی کا بیٹا۔۔پر الزام لگایا ہے کہ وہ پاناما کے راستے کولمبیا سے ترکی منشیات کی دیوہیکل اسمگلنگ میں ملوث ہے۔ پیکر نے دعویٰ کیا ہے کہ کولمبیا سے اسمگلنگ کروانے میں مشکلات بڑھنے کی وجہ سے (جون 2020ء میں 4.9 ٹن کوکین پکڑی گئی) یلدرم نے سال کے آغاز میں وینزویلا کا دورہ کیا تاکہ اسمگلنگ کے ایک نئے راستے کی ڈیل بنائی جائے۔
شامی خانہ جنگی کے حوالے سے ترک ریاست اور منظم جرائم کے ملوث ہونے کا بھی الزام لگا ہے۔ پیکر نے تفصیلات جاری کی ہیں کہ کس طرح اردوگان کے ایک سابق عسکری مشیر کی ایک کمپنی نے القاعدہ کی شامی تنظیم النصرہ فرنٹ جیسی جہادی تنظیموں کو ہتھیار سپلائی کیے۔ انٹیلی جنس ایجنسیوں نے ہتھیاروں کو ”انسانی فلاحی امداد“ کے پردے میں چھپا کر اس اسمگلنگ کی معاونت کی۔
لیکن پیکر کا مرکزی ہدف وزیرِ داخلہ سلیمان سویلو ہے۔ اس کی وجہ سادہ ہے اور پیکر نے اس پورے معاملے پر کھل کر اعلان کیا ہے کہ وہ یہ سب کچھ کیوں کر رہا ہے۔ سویلو اور پیکر کے درمیان ایک ڈیل ہوئی تھی لیکن سویلو نے اس پر عمل نہیں کیا۔ اس کے برعکس اس نے پیکر کے ”کاروباروں“ پر پولیس کی جانب سے چھاپے مروائے، یہاں تک کہ اس گھر پر بھی جہاں اس کی بیوی اور بچے رہتے ہیں۔
سویلو نے 2012ء میں AKP پارٹی میں شمولیت اختیار کی تھی لیکن اس کا جنون شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری ہے اورپچھلے چند سالوں میں سیاسی مخالفین کے خلاف وہ ان گنت جبری کاروائیوں کا ذمہ دار ہے۔ البتہ پیکر کی ویڈیوز منظرِ عام پر آنے سے پہلے ہی اس کی ساکھ کافی حد تک مجروح ہو چکی تھی۔
اپریل میں تو اس کی تقریباً چھٹی ہونے لگی تھی جب اس نے کرفیون لگنے سے پہلے لاک ڈاؤن کے دوران یہ اعلان کیا کہ عوام کو دن میں دو گھنٹے ہی اشیاء ضرورت کی خریداری کی اجازت ہے۔ ماہرین کے مطابق اس اعلان کے بعد سپر مارکیٹوں اور دکانوں پر جو انتشار پھیلا اس سے کورونا وباء کے خلاف مدافعت کئی ہفتوں پیچھے چلی گئی۔
اگرچہ سویلو نے پہلے اعلان کیا تھا کہ ان تمام اقدامات کی منظوری اردوگان نے دی ہے لیکن بعد میں اس نے پوری ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اپنا استعفیٰ پیش کر دیا۔ لیکن ظاہر ہے اس حمام میں سب ننگے ہیں اور اس اقدام پر اردوگان نے شکرگزاری کے طور پر سویلو کو منصب سے ہٹانے سے انکار کر دیا۔ اب پیکر کا کہنا ہے کہ یہ میں ہی تھا جو پسِ پردہ سویلو کی آن لائن یکجہتی مہم چلا رہا تھا۔
لیکن اب لگ رہا ہے کہ اس واقعے کے کچھ عرصے بعد ہی دونوں میں لڑائی ہو گئی۔ آغاز کی کچھ ویڈیوز میں پیکر محتاط تھا کہ وہ سویلو پر براہِ راست حملہ نہ کرے اور وہ اسے اپنا ”ترکی میں واپسی کا ٹکٹ“ کہتا تھا۔ لیکن سویلو اور وزارتِ داخلہ نے اس کی شدید مذمت کی اور اس کی مہم کو ”سیکورٹی فورسز اور ریاست کے خلاف منظم جرائم کی سرگرمی“ قرار دیا۔
سویلو نے پیکر کے خلاف ایک کورٹ کیس بھی کر رکھا ہے۔ مفاہمت کے راستے بند ہونے کے ساتھ پیکر کے حملے بھی تندوتیز ہوتے جا رہے ہیں۔ اب وہ اردوگان کے راز افشاں کرنے کی دھمکی بھی دے رہا ہے۔
اگرچہ پیکر نے ابھی تک اپنے الزامات کی روشنی میں کوئی ٹھوس ثبوت فراہم نہیں کیے ہیں لیکن کئی رائے شماریوں کے مطابق ترکی کی اکثریت یہاں تک کہ 75 فیصد تک عوام سمجھتے ہے کہ وہ سچ بول رہا ہے۔ اگرچہ مخالفین کا ان الزامات پر یقین حیران کن نہ ہو گا لیکن AKP پارٹی کے ایک تہائی ووٹر بھی ان الزامات کو درست سمجھتے ہیں۔ یہ صورتحال واضح اظہار ہے کہ حالیہ سالوں میں اردوگان آمریت کی سماجی بنیادیں کس حد تک کمزور ہو چکی ہیں۔
ریاست
اس بات کی سادہ وضاحت ہے کہ عوام کی بھاری اکثریت ان الزامات کو درست کیوں سمجھتی ہے۔ منظم جرائم، سیاست اور ریاستی مشینری کے درمیان گہرے تعلقات ہی وہ طریقہ کار ہے جس سے ترکی میں ”تمام کام“ ہوتے ہیں۔ بورژوا ”جمہوریت“ اور ”قانون کی بالادستی“ وہ کمزور پردے ہیں جنہیں عسکری بغاوتوں نے متعدد بار چاک کیا ہے۔
لیکن ”عام“ حالات میں بھی ترک سیاست میں افواج اور جرائم پیشہ فسطائی گروہوں کی براہِ راست مداخلت رہی ہے۔ ان گروہوں میں انتہائی قوم پرست MHP (نیشنلسٹ مومنٹ پارٹی) سے منسلک ”گرے وولف“ جیسے گینگ بھی شامل ہیں جنہوں نے 1960ء کی دہائی اور اس کے بعد ہزاروں بائیں بازو کے کارکنان اور محنت کش تحریک کے سرگرم افراد کو قتل کیا۔ ”ولیج گارڈ“ جیسی دائیں بازو ملیشیا کو ترک ریاست نے خود کرد بغاوت کے خلاف پروان چڑھایا ہے۔
ان غلیظ تعلقات کا پردہ (سرکاری طور پر) سال 1996ء میں ایک چھوٹے قصبے سوسورلوک میں ایک گاڑی کے حادثے کے بعد فاش ہوا۔ استنبول کے ڈپٹی چیف پولیس اور گرے وولف کا اہم ممبر اور مافیا ڈان عبداللہ شاتھ کی ایک حادثے میں موت واقع ہوگئی جبکہ ایک بڑا زمیندار، ولیج گارڈ کا قائد اور ایک قدامت پرست پارٹی کا ممبر پارلیمنٹ سادات ایدپ بوکاک شدید زخمی ہوا۔
ان تینوں افراد کے ہمراہ گاڑی میں سائلنسر والے کئی ہتھیار، منشیات اور ہزاروں ڈالر بھی موجود تھے۔ اس وقت یہ ایک ملکی سطح کا اسکینڈل بن چکا اور کئی افراد سمیت وزیرِ داخلہ محمت اگار کو استعفیٰ دینا پڑا کیونکہ گاڑی میں شاتھ کے نام پر ایک جعلی پاسپورٹ بھی ملا جس پر اگار کے دستخط موجود تھے۔
حالیہ ویڈیوز میں پیکر نے محمد اگار پر بھی حملے کئے ہیں اور اس اسکینڈل میں وہ سب سے پہلا نشانہ بنا ہے۔ 2019ء میں اگار اور دیگر کے خلاف 1990ء کی دہائی میں ہونے والے قتل (جن کا ابھی تک فیصلہ نہیں ہو پایا) میں ملوث ہونے کے الزامات کو مسترد کر دیا گیا تھا۔ مئی میں یہ کیس اس لئے دوبارہ کھولا گیا ہے کیونکہ پیکر نے اس حوالے سے الزامات لگائے ہیں۔
پیکر کے خود انتہاء پسند قوم پرستوں کے ساتھ ایک طویل عرصے سے بہت اچھے تعلقات رہے ہیں۔ شاتھ کی یاد میں ایک اعزازیئے میں پیکر نے اسے ”بڑا بھائی“ اور ”ہم سب کا آقا“ کہا تھا۔ 1998ء میں رومانیا میں ایک حکومتی وزیر کے ساتھ ملاقات کی خبروں کے بعد اس نے رضاکارانہ طور پر اپنی گرفتاری پیش کی تھی۔ دیگر جرائم کے علاوہ اس پر بھتہ خوری، ڈرانے دھمکانے اور قتل پر اکسانے کے الزامات بھی تھے۔ اگرچہ ریاستی وکیل نے ساڑھے سات سال قید کا مطالبہ کیا لیکن پیکر کو صرف چند ماہ کی سزا ہوئی تھی۔
کمیونسٹ مینی فیسٹو میں مارکس اور اینگلز نے جدید سرمایہ دارانہ ریاست کا جوہر بیان کیا ہے۔ ”جدید ریاست کی مجلس عاملہ درحقیقت سرمایہ دار طبقے کے عمومی امور کی نگہبان محض ایک کمیٹی ہے“۔ ایک ملک میں ریاستی مشینری کا مخصوص کردار جاننے کے لئے اس کے سطحی نظریاتی یا ادارہ جاتی کردار کا جائزہ ہی کافی نہیں ہے۔ ہمیں ایک ریاست کے طبقاتی کردار کا تعین کرنے والی زیرِ سطح کارفرماء معاشی قوتوں کو جاننا ضروری ہے۔
ترکی ایک ایسا ملک ہے جس میں سرمایہ دارانہ ارتقاء دیر سے شروع ہوا اور اس کے سبب ترک بورژوازی ہمیشہ کمزور رہی ہے، خاص طور پر ترکی میں ایک مضبوط محنت کش طبقے کے مقابل، جس کی شاندار انقلابی روایات بھی ہیں۔ اس بنیاد پر حکمران طبقہ مجبور ہے کہ باقاعدگی سے عوام کے خلاف براہِ راست جبر کا ہتھیار استعمال کیا جائے۔ اس حکمت عملی نے ریاستی مشینری کو سماج میں ایک مخصوص آزادی اور متعلقہ قوت فراہم کی ہے۔
اپنی نامیاتی کمزوری کے باعث بورژوازی کا ایک بڑا حصہ مشکوک کاروباروں، مجرمانہ سرگرمیوں، سٹہ بازی اور بدمعاشی کے ذریعے منافعوں کو قائم رکھنے پر مجبور ہے۔ اس طرح کے ”کاروباری ماڈل“ کی فعالیت کے لئے انہیں ریاست کے ساتھ انتہائی قریبی تعلق بنا کر رکھنا پڑتا ہے۔
اگرچہ بورژوازی کے اس حصے کی سب سے اہم نمائندہ ترک انتہاء پسند قوم پرست تحریک ہے جس میں MHP کی مرکزی حیثیت ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ پوری ترک بورژوازی کم و بیش بدمعاش ہی ہے۔ اس نے کامیابی کے ساتھ پیٹی بورژوازی اور محنت کشوں کی پچھڑی ہوئی پرتوں کے ایک قابل ذکر حصے کو، خاص طور پر کردوں کے خلاف، شاونسٹ اشتعال انگیزی کے ذریعے اپنے گرد اکٹھا کیا ہے۔
بحرانی ادوار میں ترک بورژوازی کے زیادہ ”قابلِ عزت“ دھڑے نے، جس کی نمائندگی کمالسٹ ریپبلیکن قوم پرست روایت کرتی ہے، ان کو برداشت کیا ہے بلکہ ان کی حوصلہ افزائی بھی کی ہے کیونکہ انہیں ایک طاقتور محنت کش طبقے کے خلاف انتہاء پسند قوم پرستوں کے فسطائی گروہوں اور قاتلوں کی ضرورت رہتی ہے۔
1970ء کی دہائی میں تو حالات یہ تھے کہ گرے وولف دعویٰ کر سکتی تھی کہ ان کا انٹیلی جنس نیٹ ورک کسی بھی ریاستی ایجنسی سے بہتر ہے۔ 1980ء کی دہائی اور اس سے بھی پہلے ایک خفیہ انٹیلی جنس ایجنسی JITME (پولیس ایجنسی) بنائی گئی جو سیاسی مخالفین کو ٹارچر اور قتل کرتی تھی حالانکہ سال 2005ء تک اس کے وجود سے ہی انکار کیا جاتا رہا۔
”اسٹیبلشمنٹ“ کے ساتھ اردوگان کے تعلقات
اسلامی قدامت پرست AKP پارٹی اور اردوگان، بورژوازی کے جونیئر دھڑے کی نمائندگی کرتے ہیں جو زیادہ تر اناطولیا میں مرکوز ہے۔ حکمران طبقے کا یہ دھڑا ہمیشہ حاوی اکثریتی کمالسٹ دھڑے کے ساتھ متصادم رہا ہے۔
اردوگان بطور استنبول میئر کے پہلے ہی کمالسٹ دھڑے کے ساتھ متصادم تھا اور اس نے کامیابی کے ساتھ 1990ء کی معاشی اور سیاسی پر انتشار دہائی میں اپنے آپ کو ایک صاف ستھرا ”نیا بندہ“ بنا کر پیش کیا۔ درحقیقت یہ جھوٹ ہے۔ اگرچہ بورژوازی کا اسلامی قدامت پرست دھڑا ہمیشہ کمالسٹ دھڑے سے کمزور رہا ہے لیکن اس نے بطور رجعتی سیاسی ذخیرے کے ہمیشہ ترک سماج میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے اور اس لئے اس کے ریاستی مشینری کے ساتھ ہمیشہ تعلقات رہے ہیں۔ بہرحال 1990ء کی پرانتشار دہائی میں اپنے آپ کو ”نیا چہرہ“ منوانے کے بعد اردوگان سال 2002ء کے انتخابات جیتنے میں کامیاب ہوا تھا۔
لیکن اس کامیابی کے نتیجے میں وہ کمالسٹ بورژوازی کے روایتی طور پر طاقتور دھڑے، فوج اور ”اسٹیبلشمنٹ“ کے بڑے حصوں کے ساتھ براہِ راست تصادم میں آ گیا۔ 2000ء کی دہائی میں اردوگان کو سب سے بڑا یہی خطرہ تھا اور کئی مواقعوں پر جیسے سال 2003ء اور 2007ء میں فوجی بغاوت کی افواہیں گردش کرتی رہیں اور بڑے عوامی احتجاج بھی ہوتے رہے۔
اقتدار کی اس لڑائی میں ایک واقعہ نام نہاد ایرگینیکون مقدمہ بھی ہے، مبینہ طور پر ایک انتہاء پسند قوم پرست سازش جس کا سربراہ ایک سابق فوجی چیف تھا، جو 2007ء سے 2013ء تک جاری رہا۔ یہ بھی قابلِ ذکر ہے کہ اس مقدمے میں ایک نامزد فرد سادات پیکر بھی تھا جسے 2013ء میں دس سال قید کی سزا سنائی گئی۔ اردوگان اس لڑائی میں بے مثال معاشی خوشحالی کی بنیاد پر عوام کے ایک حصے کی حمایت اور کردوں کو مراعات دینے کے ذریعے کامیاب رہا۔
لیکن جیسے جیسے معیشت بحران کا شکار ہونے لگی اور عوامی مخالفت بڑھنے لگی تو اردوگان کو نئی حکمت عملی اپنانی پڑی۔ عوام کی براہِ راست مخالفت نے، خاص طور پر غازی پارک بغاوت، جس کا آغاز مئی 2013ء میں ہوا اور کروڑوں افراد نے اس میں حصہ لیا، آمریت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور صورتحال ہمیشہ کے لئے تبدیل ہو گئی۔
اس کے بعد حکمران طبقے میں بڑے پیمانے پر دراڑیں پڑ گئیں۔ دسمبر 2013ء میں AKP پارٹی کے صفِ اول کے ممبران کے خلاف ایک دیو ہیکل کرپشن تفتیش شروع کی گئی جس میں 52 افراد کو گرفتار کیا گیا۔ یہ واقعہ اردوگان اور طاقتور گُلن تحریک کے درمیان لڑائی کے آغاز کی وجہ بنا۔ اگرچہ گُلن تحریک نے اب تک اردوگان کی حمایت کی تھی لیکن غالب امکان یہی ہے کہ ان گرفتاریوں کے پیچھے اس تحریک کا ہاتھ تھا۔ اس کے بعد پولیس کی جانب سے گُلن تحریک کے حامیوں کی تطہیر کا آغاز ہوا اور پھر 2016ء کی فوجی بغاوت کی کوشش کے بعد پوری ریاستی مشینری میں اس تطہیری عمل کو پھیلا دیا گیا۔
نئے دوست
اردوگان کو سیاسی اتحادیوں اور سماج میں عوامی بنیادوں کی اشد ضرورت تھی۔ اسے عوام کے خلاف مزید بوٹوں اور ریاستی مشینری پر زیادہ سخت گرفت کی ضرورت تھی۔ اس نے ایک ہی ممکن نتیجہ اخذ کیا کہ اسے انتہاء پسند قوم پرستوں اور ”اسٹیبلشمنٹ“ کے ان دھڑوں سے مفاہمت کرنی پڑے گی جن کے ساتھ وہ پہلے متصادم تھا۔
اس ضمن میں ایرگینیکون مقدمے میں پیکر سمیت کچھ سزا یافتہ افراد کو سزا کے چند ماہ بعد ہی رہا کر دیا گیا۔ 2016ء میں سپریم کورٹ نے پورے کیس کو ”جعل سازی، ثبوتوں کی عدم موجودگی اور ثبوتوں کو غیر قانونی طور پر حاصل کرنے“ کی بنیاد پر خارج کر دیا اور اگر کسی کو ترک ریاست کا تھوڑا بہت بھی پتا ہے تو اس منطق کے خلاف دلیل مشکل ہی ہے۔
اردوگان کے اتحادی ہونے کے ناطے انتہاء پسند قوم پرستوں کو دیگر مراعات بھی حاصل تھیں۔ جیسے ہم پہلے بیان کر چکے ہیں، ایک طرف انہیں ریاستی مشینری کی ضرورت ہے تاکہ ان کی آمدن کو ان کی سکیموں سے آنکھیں پھیر کر یا براہِ راست نوکریوں اور عہدوں کی شکل میں تحفظ ملے۔ اس لئے ایسے اتحاد کے لئے سازگار بنیادیں پہلے سے موجود تھیں جس کا اظہار ماضی میں حاوی انتہاء پسند قوم پرست تحریک میں موجود سیکولرازم کی کمزوری میں ہوا۔ ”اسلامی قوم پرستی“ کی بالادستی مسلسل بڑھ رہی تھی۔
دوسری طرف اردوگان نے کرد سوال پر اپنی پوزیشن مکمل طور پر تبدیل کرتے ہوئے انتہاء پسند قوم پرستوں کے ساتھ ڈیل کر لی۔
ترکی میں غازی پارک تحریک کے علاوہ شامی خانہ جنگی نے بھی اردوگان کو اپنی پوزیشن پر نظرِ ثانی کرنے پر مجبور کر دیا۔ وہاں قومی آزادی کی جدوجہد میں PKK پارٹی (کردستان ورکرز پارٹی) کی متوازی PYD پارٹی (ڈیموکریٹک یونین پارٹی) کو اردوگان کی حمایت یافتہ جہادی ملیشیاؤں کا سامنا تھا۔ بلآخر صورت حال پھٹ پڑی۔ 2014ء میں ترک ریاست کی حمایت کے ساتھ نام نہاد داعش نے کوبانی قصبے پر حملہ کر دیا۔ YPG ملیشیا (پیپلز پروٹیکشن یونٹ) کی ولولہ انگیز مزاحمت نے ترکی میں کروڑوں کردوں کو بغاوت کرنے کا حوصلہ عطا کیا جس کے بعد HDP پارٹی (پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی) کی بنیاد رکھی گئی جو پورے ترکی میں بائیں بازو کے نوجوانوں اور محنت کشوں کے لئے نکتہ اتحاد بن گئی۔ اردوگان کی مخالفت میں ایک کرد تحریک جو ترک بائیں بازو سے منسلک ہو، اردوگان آمریت کے لئے شدید خطرہ بن گئی۔ اپنی بقاء کے لئے ایک جنگ کے ذریعے ترک سماج میں دراڑیں ڈالنا ناگزیر ہو گیا۔
انتہائی خونی دہشت گرد حملوں کے ایک تسلسل نے اردوگان کو دوبارہ خانہ جنگی مسلط کرنے اور انتہاء پسند قوم پرست MHP کے ساتھ ایک مستحکم اتحاد بنانے کی کوشش کرنے کا بہانہ فراہم کر دیا۔ لیکن اقتدار کی تمام تر ممکنہ مراعات کے باوجود اردوگان کی مخالفت میں رہنے کا دباؤ بہت شدید تھا جس نے انتہاء پسند قوم پرست کیمپ کو اندر سے پھاڑ کر رکھ دیا اور نتیجے میں میرال اکشینیر کی IYI پارٹی (اچھی پارٹی) وجود میں آ گئی۔
اس ماحول میں پیکر پھلتا پھولتا رہا۔ کافی عرصے سے یہ بات زبان زدِ عام تھی کہ وہ اور اردوگان ایک دوسرے کے ساتھ ذاتی تعلق میں موجود ہیں۔ ایک مشترکہ دوست کی شادی پر دونوں کی آپس میں بات چیت کرتے ہوئے تصاویر بھی موجود ہیں۔ پچھلے چند سالوں میں سیاسی طور پر بھی دونوں ایک دوسرے کے بہت قریب ہوئے ہیں۔ جنوری 2016ء میں کردوں کے خلاف ترک فوج کے آپریشن کے آغاز پر ایک ہزار سے زائد ترک اکادمک نے جنگ کے خلاف ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا اور مذاکرات کی اپیل کی۔ پیکر نے اعلان کیا کہ میں ان افراد کے ”خون میں نہاؤں“ گا۔ ان بیانات پر ایک عدالتی مقدمہ ”آزادی اظہارِ رائے“ کی بنیاد پر خارج کر دیا گیا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ عین اسی وقت ہزاروں افراد پر ”صدر کی بے عزتی“ کے جرم میں مقدمات چلائے جا رہے تھے۔
پیکر کی ذاتی طاقت اتنی زیادہ بڑھ گئی کہ سال 2016ء میں دائیں بازو کے امریکی سیاسی تجزیہ نگار مائیکل روبن نے لکھا کہ مستقبل میں اردوگان کے ساتھ اس کی لڑائی ہو سکتی ہے۔ ”خواہ پیکر سرکاری طور پر ریاست کا انتظام اپنے ہاتھوں میں نہ بھی لینا چاہے، اس کے روایتی ترک سیاست دانوں کے ساتھ اتنے تعلقات ضرور ہیں کہ اسے سرپرستِ اعلیٰ کے طور پر صدارتی محل میں بٹھا دیا جائے۔ اردوگان کو تو شاید یہ یقین ہو کہ وہ سلطان ہے لیکن درحقیقت اس کے دن گنے جا چکے ہیں اور اب وہ محض چلتی پھرتی ایک لاش ہی ہے۔
رجعتی قوتیں آپس میں لڑ مر رہی ہیں لیکن عوام جواب ضرور دیں گے
یہ واضح ہے کہ رجعتی قوتوں کی آپسی لڑائی کا تماشہ لگا ہوا ہے اور جرائم میں ملوث دو ساتھیوں کی ان بن ہو گئی ہے۔ اگر پیکر نے اب تک اردوگان پر براہِ راست حملہ نہیں کیا تو کچھ بائیں بازو سے منسلک دانشوروں کے تجزیئے کے برعکس اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ اس کے پیچھے اردوگان کھڑا ہے۔
پیکر نے اردوگان پر حملے کرنے سے اس لئے اجتناب کیا ہے کیونکہ جلا وطنی میں اس کی پوزیشن بہت کمزور ہے اور اسے ابھی بھی امید ہے کہ کوئی نہ کوئی ڈیل ہو جائے گی۔ لیکن اگر کوئی ڈیل نہیں ہوتی تو پھر وہ ایسے ہی بغیر کسی لڑائی کے چپ چاپ مرنے کو بھی تیار نہیں ہے۔ درحقیقت اس نے اسی آر یا پار ذہنیت کا مظاہرہ کیا ہے جو اردوگان اس وقت اپنی بقاء کی جنگ کیلئے اپنائے ہوئے ہے۔
آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ وہ کس حد تک جانے کو تیار ہے۔ لیکن بقاء کی جنگ لڑنے کے عمل میں وہ اردوگان آمریت اور پوری ریاستی مشینری کی ساکھ تار تار کرتے ہوئے رہی سہی حمایت کو بھی برباد کر رہا ہے۔
ترکی میں لبرلز اور اصلاح پسند حالات کا رونا روتے ہوئے اصلاحات، زیادہ جوابدہی اور ”قانون کی بالادستی“ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ مارکس وادی ہونے کے ناطے ہم ہر قسم کے رجعتیوں اور قدامت پرستوں کے دشمن ہیں اور ہمیشہ ریاستی جبر کے خلاف سب سے زیادہ ثابت قدمی سے جدوجہد کرتے ہوئے وضاحت کرتے رہیں گے کہ حقیقی اصلاحات کا کوئی چانس موجود نہیں۔ ”اسٹیبلشمنٹ“ اور پیکر سے لے کر اردوگان تک تمام رجعتی کردار بند گلی میں پھنسی ترک سرمایہ داری کا غلیظ اظہار ہیں۔
اس لئے آگے بڑھنے کا واحد راستہ 2013ء کی طرز پر ایک بلند پیمانے پر جدوجہد کا راستہ ہی ہے۔ آج کئی سالوں کے بحران اور بدانتظامی نے موجودہ آمریت کی ساکھ تباہ و برباد کر کے رکھ دی ہے۔ افراطِ زر، بے روزگاری اور غربت میں پستے محنت کش طبقے میں یہ جذبات لاوا بن کر دہک رہے ہیں۔
آج کرد بائیاں بازو بھی اس آمریت کا شدید مخالف ہے جو HDP کو غیر قانونی قرار دینے جا رہی ہے اور جس نے اس کے مرکزی قائد صلاحتین دیمرتاس کو پانچ سال کے لئے قید میں ڈال دیا ہے۔ اردوگان کے ہاتھوں سے وقت نکلتا جا رہا ہے۔ ایک انقلابی دھماکہ ناگزیر ہے۔ آج ترکی میں انقلابی نوجوانوں اور محنت کشوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ اس عمل کو ایک مضبوط مارکسی تنظیم تعمیر کر کے تیز تر بڑھاوا دیں تاکہ عوام صرف اردوگان اور اس کے رجعتی ٹولے کے خلاف ہی نہیں بلکہ پورے سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف فتح یاب ہوں۔