روس: کمیونسٹ پارٹی کا اندرونی بحران؛ بالشویزم کی جانب لوٹنا ہوگا!

پیوٹن حکومت، جو اپنی بقا کے لیے بڑھتے ہوئے بے رحم اور ظالمانہ جبر پر انحصار کر رہی ہے، کی بنیادوں میں دراڑیں پڑنا شروع ہوگئی ہیں۔ حکومت بحران کے دور میں داخل ہو چکی ہے اور روسی آبادی کی بڑی اکثریت اس پر کھلے عام تنقید کر رہی ہے۔ اس ساری صورتحال کے پیشِ نظر، سوال ابھرتا ہے کہ؛ روسی وفاق (رشین فیڈریشن) کی کمیونسٹ پارٹی کا رد عمل اب کیا ہوگا؟


[Source]

انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

پیوٹن حکومت کے خلاف سیاسی ہلچل کے ایک نئے سلسلے نے روسی شہریوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ جہاں ایک طرف عالمی معاشی بحران عروج پر ہے، وہیں روس کے اندر بھی محنت کش طبقہ غربت کی دلدل میں پھنستا چلا جا رہا ہے اور افسر شاہی کے ساتھ پولیس کے جبر میں بھی اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ روس میں پچھلے سال کے دوران 10 لاکھ سے زائد افراد غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے ہیں۔ دوسری جانب اس بحران کے دوران روسی اشرافیہ نے اپنی دولت میں کروڑوں، اربوں روپوں کا اضافہ کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ ان دو حقائق کے بیچ براہِ راست تعلق موجود ہے۔

یہ حقیقت ملک بھر کے اندر آشکار ہوتی چلی جا رہی ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام محنت کشوں کے مسائل حل کرنے کا اہل نہیں ہے۔ اگرچہ سرمایہ داری میں پچھلی صدی کے اندر محنت کش طبقے کو سماجی اصلاحات کی شکل میں رعایتیں دینے کی گنجائش موجود تھی، مگر آج وہ انہیں گولیوں، ڈنڈوں اور بڑھتی ہوئی غربت کے علاوہ کچھ نہیں دے سکتی۔ اکتوبر انقلاب کی حاصلات ماضی کی نسبت زیادہ تیزی کے ساتھ تباہ کی جا رہی ہیں۔ سماجی تحفظ کو بتدریج کم سے کم تر سطح پر لے جایا جا رہا ہے، حتیٰ کہ صدر یلسن کے دور سے بھی کم تر سطح پر۔ اس کے ساتھ ساتھ پیوٹن کی بوناپارٹسٹ حکومت (خاص کر سیکورٹی فورسز)، جو اپنی حیثیت کے حوالے سے بڑھتے ہوئے عدم تحفظ کا شکار ہے، نے ایسے جبر کا سلسلہ شروع کیا ہے جو ایک ہی وقت میں غیر متوقع اور پُر انتشار بھی ہے اور انتہائی شدید بھی۔

جبر کے رائج طور طریقوں کے بر خلاف، ان حملوں کی اکثریت منتشر اور بد نظم ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر معلوم ہوا ہے کہ ماسکو کے اندر بلدیہ نمائندگان کی گرفتاری کے حالیہ واقعے کے دوران، میئر کا محکمہ ان گرفتاریوں کے فیصلے سے نا واقف تھا۔ پولیس اور ایف ایس بی (فیڈرل سیکورٹی سروس) کو جب پتہ چلا کہ یہ گرفتاریاں بالکل بے بنیاد ہیں اور وہ عوام کی نظروں میں مکمل بے وقوف بن گئے ہیں، تو وہ نہ صرف ذمہ داری قبول کرنے سے پیچھے ہٹ گئے، بلکہ ایسا لگ رہا تھا انہیں خود بھی نہیں پتہ کہ یہ کن بنیادوں پر کی گئیں۔

چنانچہ پولیس کے شعبہ جات، جو آج کل پیوٹن کا بنیادی سہارا ہے، خود انتشار کے عالم میں ہیں۔ آج ہم اعتماد کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ روسی بوناپارٹزم زوال پذیری کے عہد میں داخل ہو رہا ہے۔ ہم اس مخصوص تاریخی عہد میں داخل ہو رہے ہیں جب کمیونسٹوں کو بہترین مواقع ملتے ہیں کہ وہ عوام تک اپنے پروگرام کو پہنچائیں اور مستقبل میں اقتدار پر قبضہ کرنے کی تیاری بھی کریں۔ عوام کی اکثریت کو زندگی خود لبرلز کے اصلاح پسند وعدوں کے کھوکھلے پن اور ان کی طبقاتی فطرت سکھا دے گی۔

یقینا اس صورتحال میں یہ سوال ابھرنا بنتا ہے کہ؛ ملک میں بائیں بازو کی سب سے بڑی قوت یعنی روسی کمیونسٹ پارٹی (سی پی آر ایف) کی قیادت، جس کا جنرل سیکرٹری گنادی زیوگانوف ہے، اس لمحے کیا کرنے میں مگن ہے؟ وہ بہت سے کاموں میں مگن ہے؛ وہ پیرم کی پارٹی اور کومسومول تنظیموں کی تطہیر منظم کر رہی ہے، جو مقامی سطح پر دائیں بازو کے کیرئیر اسٹ ایفونن کے حامیوں کو بڑے عہدوں پر تعینات کر رہی ہے۔ وہ ماسکو سٹی ڈوما (علاقائی پارلیمان) سے بائیں بازو کے ممبران لوکتیف اور شووا لووا کو برطرف کر رہی ہے۔ وہ پارٹی کی ماسکو قیادت پر حملہ آور ہونے کی تیاری کر رہی ہے۔ اور زیوگانوف ماضی کی طرح ایک بار پھر بورژوا ریاست کو بحران سے نکالنے کی خاطر پیوٹن کو پارٹی کے ’اصلاحی پروگرام‘ کے حوالے سے سمجھانے کی باتیں کر رہا ہے۔ مرکزی کمیٹی کی انتظامیہ عمومی طور پر ہر کام میں مصروف ہے، سوائے ان کاموں کے جن کا موجودہ صورتحال میں کمیونسٹوں کو فائدہ پہنچے گا۔

ایک جانب انتخابات اور ناگزیر سماجی دھماکے کا وقت سر پر آن پہنچا ہے، جبکہ زیوگانوف اور ساری مرکزی کمیٹی کے رویے سے ایسا لگ رہا ہے کہ وہ پارٹی کو تحلیل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس سارے عمل نے سی پی آر ایف اور کومسومول (نوجوانوں کا فرنٹ) کی صفوں میں موجود کئی مخلص کمیونسٹوں کے لیے، جو اصلاح پسندی کے زہر سے محفوظ ہیں، فطری طور پر خطرے کی گھنٹیاں بجا دی ہیں اور انہیں غم و غصّے کا شکار کیا ہے۔ ایک اہم سوال یہ ابھرتا ہے کہ؛ کیا اس صورتحال کو واپس گھما کر پارٹی کو انقلابی راستے پر گامزن کرنا ممکن ہے؟ اور اگر یہ نا ممکن ہے، پھر کیا کِیا جائے؟ آئیے ان سوالات کے جوابات تلاش کریں۔

ناگزیر بحران

پارٹی کی موجودہ حالت اور بحران کوئی حادثہ نہیں ہے۔ یہ سوویت یونین کے انہدام کے بعد والے سارے عرصے میں پارٹی قیادت کی جانب سے کئی سالوں سے جاری پالیسی، اور اس کے اندر پائے جانے والے تضادات کا براہِ راست یا بالواسطہ نتیجہ ہے۔

پارٹی کو جن موجودہ مسائل کا سامنا ہے، ان میں سے ایک بڑا مسئلہ 1920ء کی دہائی میں شروع ہونے والی پارٹی مشینری اور حکومت کی زوال پذیری کا تاریخی ورثہ ہے۔ بطورِ مادہ پرست، ہم اس بات سے واقف ہیں کہ تاریخ کے سفر میں اور ارتقائی سلسلے میں تبدیلیاں نسل در نسل تقریباً غیر محسوس انداز میں رونما ہوتی ہیں۔ موجودہ پارٹی کی بیرونی ساخت کو دور کھڑے دیکھنے سے کسی کو یہ غلط فہمی ہو سکتی ہے کہ یہ وہی پرانی بالشویک پارٹی ہے۔ جبکہ اس دوران، اندرونی و بیرونی عناصر کی وجہ سے اس کے جسم کے اندر ہوتا چلا آ رہا بوسیدگی کا عمل سطحی نظر ڈالنے والے کو نظر نہیں آتا۔ کسی چیز کی تفصیلات اور اساس دور کھڑے دیکھنے سے نظر نہیں آ پاتی، چاہے وہ تاریخی عناصر ہوں، سماجی ہوں، یا پھر خلائی۔

1920ء کی دہائی میں پارٹی اور سماج میں جاری تاریخی تبدیلیوں کے مجموعے کو نہ سمجھ پانا ایک ایسی عام غلطی ہے جو حتیٰ کہ ان لوگوں سے بھی سرزد ہوتی ہے جو ان واقعات میں بذات خود شامل تھے۔ ان غلطیوں کی کثرت سے ایک معیاری تبدیلی جنم لیتی ہے، جیسا کہ اگر برف کے چھوٹے چھوٹے ذرّات کا کسی پہاڑی ڈھلوان پر ڈھیر بن جائے تو اس کا نتیجہ برفانی تودہ گرنے کی صورت میں نکلتا ہے۔ بیسویں صدی کے بائیں بازو کے یورپی دانشوروں کی اکثریت سے یہی غلطی سرزد ہوئی تھی، جو یہ سمجھ پانے میں ناکام ہو رہے تھے کہ بالشویک پارٹی اور سوویت ریاست میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کیا تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ کچھ لوگ سوویت یونین میں جنت تلاش کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ باقی اسے ’زمین پر جہنم‘ سمجھ رہے تھے۔ دونوں جانب سب سے اہم چیز کو نظر انداز کر دیا گیا؛ یعنی سوویت یونین کے اندر سیاست، طبقاتی جدوجہد اور معیشت کی اصلی فطرت کو۔ آئیے سب سے پہلے سوویت یونین کی ارتقا اور اس کی دوبارہ بحالی کی شرائط سے شروع کرتے ہیں۔

اس عمل کی اساس کو کامریڈ ٹیڈ گرانٹ نے اپنی تصنیف ’سٹالنزم کی فطرت‘ میں درست طور پر بیان کیا ہے۔ جیسا کہ مارکسزم کی کلاسیکی تصانیف میں وضاحت کی گئی ہے، سرمایہ داری سے سوشلزم تک کا سفر ایک ہی جست کے ذریعے نا ممکن ہے۔ سوشلزم کی جانب بڑھنے کے لیے ایک مخصوص عبوری دور کی ضرورت ہوتی ہے، جس دوران دو مظاہر جو پچھلے عہد کی خصوصیات ہوتی ہیں، برقرار رہتے ہیں؛ یعنی ریاست اور قدر کا قانون۔ محنت کش طبقہ اس عبوری دور سے پرانے بورژوا ریاست کے اداروں کو استعمال میں لا کر نہیں گزر سکتا، اس کو اپنے علیحدہ اوزار کی ضرورت ہوتی ہے؛ یعنی مزدور ریاست کی۔ اقتدار پر قبضہ کرنے سے دو مہینے پہلے (اگست 1917ء میں)، لینن نے اپنی کتاب ’ریاست اور انقلاب‘ میں لکھا:

”یہ بات تو سارے موقع پرست بھی کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ پرولتاریہ کو ریاست کی ضرورت ہوتی ہے، مگر موقع پرست یہ اضافہ کرنا بھول جاتے ہیں کہ پرولتاریہ کو محض خاتمے کی جانب گامزن (غیر مستقل) ریاست کی ضرورت ہوتی ہے، جو اس طرز پر تعمیر کی گئی ہو کہ وہ فوراً مرنا (ختم ہونا) شروع جائے اور اپنی موت کو روک سکنے کی قابل نہ ہو۔“

عبوری ریاست کا کردار نا گزیر طور پر متضاد نوعیت کا ہوتا ہے۔ سوویت حکومت کی بنیاد نئے ملکیتی تعلقات پر مبنی تھی جو اکتوبر انقلاب کی وجہ سے سامنے آئے، البتہ اس دوران پرانے بورژوا سماج کے کئی عناصر کو برقرار رکھا گیا۔ سوشلزم کی جانب بڑھنے کی سب سے بنیادی شرط ذرائع پیداوار کو قومی ملکیت میں لینا ہے، مگر کسی سماج کے انسانی ترقی کے بلند تر مرحلے میں داخل ہونے کے امکانات ذرائع پیداوار کی ترقی پر انحصار کرتے ہیں۔ سوشلزم کے لیے لازمی ہوتا ہے کہ ٹیکنالوجی، محنت کی تخلیقی صلاحیت اور ثقافت کو سب سے زیادہ ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ سماجوں سے بھی بلند تر سطح پر لے جائے۔ پسماندگی کی بنیادوں پر سوشلزم تعمیر کرنا نا ممکن ہوتا ہے۔

اپنی کتاب ’انقلاب سے غداری‘ میں ٹراٹسکی نے عبوری ریاست کی دوہری فطرت کو واضح کیا ہے:

”(عبوری ریاست میں) مادی طاقت کی بڑھوتری کو تیز کرتے ہوئے تقسیم کے بورژوا طریقوں کو سوشلسٹ مقاصد حاصل کرنے کے لیے استعمال کرنا ہوتا ہے۔ مگر ایک مخصوص حد تک۔ بہرحال ریاست شروع سے ہی دوہرا کردار اپنا لیتی ہے؛ ذرائع پیداوار کی اجتماعی ملکیت کی حفاظت کرنے والا سوشلسٹ کردار؛ اور تمام ممکنہ نتائج کا خطرہ مول کر سرمایہ دارانہ قدر کے پیمانے کو استعمال کرتے ہوئے ضروری اشیاء کی تقسیم کرنے والا بورژوا کردار۔“

روس کے حالات تب ہی حقیقی معنوں میں تبدیل ہو پاتے اگر مغربی یورپ، خصوصاً جرمنی میں انقلاب کامیاب ہو جاتا۔ ایک سوشلسٹ فیڈریشن میں روس کے وسیع قدرتی و انسانی وسائل کے ساتھ جرمن صنعت و ٹیکنالوجی کے امتزاج سے ایسے مادی حالات پیدا ہوتے کہ محنت کش طبقے کو صنعت اور ریاست کے امور کے انتظام کے لیے درکار اوقاتِ کار نہایت کم سطح پر آ جاتے۔

مگر سوشل ڈیموکریٹس کی غداری نے جرمن انقلاب کو خون میں نہلا دیا اور روسی انقلاب ایک ملک میں تنہا رہ جانے پر مجبور ہو گیا۔ افسر شاہی کا ابھار براہِ راست اسی غداری کی وجہ سے ممکن ہوا۔ 1920ء میں شروع ہونے والی افسر شاہی، قانونی و غیر قانونی دونوں طریقوں سے محنت کش طبقے کی پیدا کی گئی زائد پیداوار میں سے زیادہ حصّہ ہڑپ کرتی رہی۔ اس کے ساتھ ساتھ، ریاست اور معیشت کے اوپر محنت کش عوام کی اکثریت کا براہِ راست قبضہ بتدریج ختم کیا گیا۔ سیاسی طاقت اور قدرِ زائد کی تقسیم کے اوپر قبضہ ایک مخصوص پرت کے ہاتھوں میں آ گیا، جو سوویت پارٹی کی بیوروکریسی کی پرت تھی۔

جنوری 1921ء میں لینن نے لکھا:

”میں نے اس بات پر زور دیا تھا کہ ”ہماری ریاست در حقیقت مزدور ریاست نہیں، بلکہ مزدور کسان ریاست ہے“۔۔۔اس حوالے سے ایک رپورٹ پڑھنے کے بعد، مجھے پتہ چلا کہ میں غلط تھا۔۔۔مجھے یہ کہنا چاہیے تھا کہ؛ مزدور ریاست ایک تجریدی خیال ہے۔ ہماری ریاست ایک مزدور ریاست ہے، مگر اس کی اپنی خاصیت ہے، پہلے یہ کہ ملکی آبادی کی اکثریت مزدور طبقے پر نہیں بلکہ کسانوں پر مشتمل ہے، اور دوسرا یہ کہ اس مزدور ریاست میں افسر شاہی کی خرابیاں پائی جاتی ہیں۔“

لینن کی موت کے بعد والے سالوں میں، افسر شاہی جن رجعتی رجحانات کی نمائندگی کر رہی تھی وہ اپنی انتہاؤں کو پہنچ گئے، جس نے 1930ء کی دہائی میں محنت کش طبقے کے اوپر مکمل طور پر سیاسی قبضہ جما لیا اور بڑے پیمانے پر پارٹی سے بر طرفیوں اور حزبِ اختلاف پر جبر کا سلسلہ شروع کیا، اس عمل سے پارٹی حکومتی مشینری میں تبدیل ہو گئی جس کی قیادت مٹھی بھر مراعات یافتہ اشرافیہ کے پاس تھی۔ اس سارے عمل کے بعد سوویت ریاست سٹالنسٹ افسر شاہی کے مفادات کی نمائندگی کرنے لگی۔ مگر چونکہ یہ بوناپارٹزم کی ہی مخصوص شکل تھی، اس لیے انہیں اپنی بنیاد بالآخر محنت کش طبقے کی اکتوبر 1917ء والی فتوحات پر کھڑی کرنی پڑی؛ جہاں وہ ذرائع پیداوار کی قومی ملکیت، منصوبہ بند معیشت اور غیر ملکی تجارت کی اجارہ داری کا دفاع کرتے تھے۔ قومی ملکیت میں موجود منصوبہ بند معیشت کو محض اسی لیے برقرار رکھا گیا کیونکہ افسر شاہی کی مراعات اس کی وجہ سے ہی ممکن تھیں۔ اس صورتحال میں، اگرچہ افسر شاہی محنت کش طبقے کے استحصال پر قائم تھی، اسے تب تک ان بنیادی فتوحات کا دفاع بھی کرنا پڑ رہا تھا جب تک منصوبہ بند معیشت حکومت کے لیے سماجی بنیادیں فراہم کرتی رہے۔ البتہ اس کے ساتھ ساتھ، افسر شاہی اور محنت کش طبقے کے طویل مدتی مفادات ایک دوسرے کے متضاد تھے۔

پارٹی افسر شاہی کو، جو محنت کش طبقے سے مسلسل دور ہوتی جا رہی تھی اور اپنے مخصوص معاشی مفادات کو پہچان رہی تھی، نا گزیر طور پر دائیں جانب جھک کر سرمایہ داری اور نجی ملکیت کو بحال کرنا پڑا۔ اس عمل کو سمجھے بغیر، ہم حقیقی معنوں میں وضاحت نہیں کر سکتے کہ پارٹی اور سوویت ریاست میں پیریسٹرائیکا تحریک (80ء کی دہائی کے اندر گورباچوف کی قیادت میں منظم ایک اصلاحاتی تحریک) کے دوران کیا تبدیلیاں رونما ہوئیں، جب پارٹی اور کومسومول قائدین نے ردّ انقلاب کے دوران کاروباروں کے ”سربراہان“ بننے کا راستہ اختیار کیا، جو 1993ء میں سپریم سوویت (سوویت یونین کا سب سے اعلیٰ قانون ساز ادارہ) کے اندر گولیاں چلنے پر اختتام پذیر ہوا۔

بظاہر تو یہ لگتا ہے کہ جب افسر شاہی کا ایک حصّہ ردّ انقلاب کا آغاز کر کے پارٹی سے الگ ہو گیا، اور سرمایہ داری اور بورژوا جمہوریت بحال ہو گئی، تو اس صورتحال میں سی پی ایس یو (سوویت یونین کی کمیونسٹ پارٹی) سے کمیونسٹ پارٹیوں کا ابھار ہونا چاہیے تھا جو خود کو دائیں بازو اور افسر شاہی کی خرابیوں سے آزاد کر کے حقیقی بالشویک روایات کی جانب لوٹ جاتیں۔ مگر در اصل یہ تاریخی سفر بہت پیچیدہ شکل میں سامنے آیا۔

سی پی ایس یو کی باقیات کے ایک حصّے کے پاس، جیسا کہ نینا آندریوا کی آل یونین کمیونسٹ پارٹی آف دی سوویت یونین اور آر سی ڈبلیو پی (رشین کمیونسٹ ورکرز پارٹی)، اگرچہ 1990ء کی دہائی میں بہت بڑی حمایت موجود تھی مگر وہ سٹالنسٹ جکڑ بندیوں سے نکل نہیں پایا۔ ان گروہوں کے قائدین اور نظریہ دانوں نے پارٹی کی تاریخ کو دیانتداری سے اور تنقیدی انداز میں دیکھنے کی بجائے سی پی ایس یو کی بائیسویں کانگریس میں منظور کیے گئے قوانین کے ساتھ جڑے رہنے کو ترجیح دی۔ مادی حقیقت کا سامنا نہ کر سکنے کی وجہ سے، انہوں نے سوویت یونین کی تاریخ کے سنجیدہ سماجی و سیاسی تجزیے کی بجائے سازشی نظریات کو ترجیح دی۔ آنے والے سالوں میں ان کے اندر یہود مخالف خیالات کے پائے جانے کی بھی یہی وجہ تھی۔ اس سب کے نتیجے میں وہ نسبتاً عوامی تنظیموں سے زوال پذیر ہو کر چھوٹے گروہوں تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں جن کا سیاست میں کوئی اثر و رسوخ نہیں ہے، جو روسی محنت کش طبقے کی نئی نسل سے کٹ کر رہ گئے ہیں۔

دوسری جانب، آج تک سی پی آر ایف کا سفر اس سے بھی زیادہ پیچیدہ رہا ہے۔ یہ 1993ء کے اندر پرانی سی پی ایس یو کی مرکزی تنظیموں کی بنیاد پر قائم ہوئی تھی، جو ابتداءً میں مختلف نظریاتی گروہوں اور پارٹی افسر شاہی کے گروہوں کا ایک پیچیدہ مجموعہ تھا۔ ان گروہوں کی اکثریت ایک جانب مستعفی ہونے تک گورباچوف کی حمایت کرتی رہی، جبکہ دوسری جانب براہِ راست ردّ انقلاب کا راستہ بھی نہیں اپنایا۔

اس وقت پارٹی قیادت میں سب سے غالب رجحان سنٹر ازم (میانہ روی) کا تھا، جس نے زیوگانوف کے دھڑے کے لیے پارٹی کی نئی قیادت کے طور پر ابھرنے کی راہ ہموار کی۔ اگرچہ یہ سننے میں ایک عجیب پہیلی معلوم ہوگی، مگر سی پی آر ایف نے ایک ہی وقت میں صرف کمیونسٹ نہیں بلکہ مارکسسٹ مخالف عناصر کو بھی اپنے ساتھ شامل کیا۔ آخر الذکر نے آنے والی دہائیوں میں پارٹی کے لیے تباہ کن کردار ادا کیا۔

اس عرصے کے دوران، سی پی آر ایف کی قیادت نے اعلان کیا کہ پارٹی کی (اگر واحد نہیں تو) اولین ترجیح انتخابات میں حصّہ لینا اور اصلاحات کرنے کی کوشش ہوگی، اور یوں پارٹی کو منشوک اصلاح پسندوں کی راہ پر گامزن کیا گیا۔ مگر حقیقت میں پارٹی قیادت خالصتاً قانون کے دائرہ کار کے اندر بورژوا حکومت کے خلاف کس حد تک لڑ سکتی تھی؟ 1996ء کے صدارتی انتخابات اس بات کا واضح اظہار تھے کہ زیوگانوف کا حکمران ٹولہ پارٹی اور محنت کش طبقے کے مفادات سے غداری کرنے کے لیے مکمل طور پر تیار تھا۔

سیاسی منظر نامے کے مطابق، 1996ء میں یلسن کی حکومت کا خاتمہ ہونا چاہیے تھا۔ سارا ملک ایک نہ رکنے والے بحران کی لپیٹ میں تھا؛ مہینوں اور سالوں سے تنخواہوں کی ادائیگی نہیں ہوئی تھی؛ صنعت کے بہت سارے شعبے منجمد ہو چکے تھے؛ بے مطلب چیچن جنگ میں جبری طور پر بھرتی کیے گئے ہزاروں سپاہی لقمہ اجل بن رہے تھے؛ عوام لبرل ’اصلاح پسندوں‘ کے لیے نفرت کا اظہار کر رہے تھے؛ انتخابات کی شام یلسن کی جیتنے کی توقع سب سے کم کی جا رہی تھی۔ یلسن کو اس کی عوامی حمایت حاصل کرنے کی بہت بڑی مہم بھی نہ بچا پائی، جب اس نے چیچنیا کا دورہ کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ جنگ جیتی جا چکی ہے (اب کئی دہائیوں بعد، ہم جانتے ہیں کہ اگرچہ سرکاری طور پر یہ جنگ 2009ء میں ختم ہو گئی تھی، مگر در حقیقت یہ آج بھی جاری ہے)۔ 1995ء کے پارلیمانی انتخابات میں سی پی آر ایف نے پارلیمان میں اکثریت حاصل کی، جس نے اپنے سب سے بڑے مخالف چرنومیردن کی پارٹی این ڈی آر سے تین گنا زیادہ سیٹیں حاصل کیں۔

یلسن کو ہارنا چاہیے تھا، مگر وہ نہیں ہارا۔ ایسا کیوں ہوا؟ اس کی وجہ عموماً حکمران طبقے کی جڑت اور اقدامات بتائی جاتی ہے؛ یلسن کو بڑے بڑے سرمایہ کاروں اور مقامی بورژوا اشرافیہ کی جانب سے بہت بڑی حمایت حاصل ہوئی۔ کمیونسٹوں کے بارے میں رائے عامہ کو بدلنے کا غلیظ پراپیگنڈا کیا گیا۔ متوقع فتح یاب امیدواروں کے ووٹ کم کرنے کے لیے نئے امیدوار نامزد کیے گئے (جیسا کہ جنرل لیبیڈ)۔ بڑے پیمانے پر دھاندلی کی گئی وغیرہ وغیرہ۔ بلاشبہ ان سب کا اثر ضرور پڑا، مگر حالات میں حقیقی موڑ انتخابات کے دوسرے مرحلے کے اختتام پر سامنے آیا۔

1996ء کے موسمِ گرما میں، الیکشن کمیشن نے انتخابات کے دوسرے مرحلے میں یلسن کی فتح کا اعلان کیا، جس نے زیوگانوف سے تقریباً 14 فیصد زیادہ ووٹ حاصل کیے۔ مزید برآں، اس وقت زیوگانوف کو مختلف خطوں میں بڑے پیمانے پر حمایت حاصل تھی، جس میں یلسن مخالف تمام رجحانات کی حمایت بھی شامل تھی۔ حتیٰ کہ سالوں بعد لبرل سیاستدان یاؤلینسکی نے بھی دعویٰ کیا کہ انتخابات کے نتائج جھوٹ پر مبنی تھے:

”ظاہر ہے کہ انتخابات غیر جانبدار نہیں تھے۔ 1992ء کے اندر افراطِ زر میں بے تحاشا اضافے، وائٹ ہاؤس میں گولیاں چلنے، چیچنیا میں جنگ شروع ہونے، اور مختلف کمپنیوں میں ریاستی شراکت داری کی نجکاری (لون فار شیئرز سکیم) کے بعد یلسن کو کچھ ہی فیصد سے زیادہ حمایت حاصل نہیں تھی۔ البتہ، انتخابات کے نتائج آنے کے بعد وہ جیت گیا۔ کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ چند مہینوں کے اندر اندر 4 فیصد حمایت کو 50 فیصد سے زائد حمایت کی سطح تک لانے کے لیے ملک کے اندر کیا کچھ کرنے کی ضرورت پڑی ہوگی؟“ (کومرسانٹ اخبار سے اخذ شدہ، 106، 2016ء)

مگر ان حالات میں، جب انتخابات کے نتائج کو مسترد کرنے کے لیے تمام قسم کے قانونی و سیاسی جواز موجود تھے، یلسن کو سب سے پہلے جیت کی مبارکباد دینے والا شخص کون تھا؟ درست جانا، وہ گنادی زیوگانوف ہی تھا۔ یہ غداری کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔ پارٹی افسر شاہی نے بغیر لڑے سرمایہ داروں کی جیت تسلیم کر لی۔ قیادت کو ہتھیار ڈالتے دیکھ کر، عوام مایوسی اور الجھن کا شکار ہو گئے۔ بعد میں زیوگانوف کے اپنے اقدامات کی وضاحت میں دیے جانے والے بیانات تضادات سے بھرپور تھے۔ کبھی اس نے کہا کہ خانہ جنگی کے اندیشے سے خوف طاری ہو گیا تھا۔ حتیٰ کہ اس نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ممکنہ جیت کے مفروضے غلط بیانی پر مبنی تھے۔ مگر حقیقت یہی ہے کہ حکمران ٹولے نے اسی لمحے میں پارٹی اور محنت کش طبقے سے غداری کی جب وہ قانونی طور پر اقتدار حاصل کرنے سے ایک قدم کی دوری پر تھا۔

افسر شاہی کی اس غداری کے پیچھے کیا وجوہات کارفرما تھیں؟ کمیونسٹ پارٹی کی بحالی کے بعد سے، حکمران اشرافیہ اس کے مادی وسائل پر مکمل مسلط ہو گئی ہے، جو پارٹی کے عام ممبران کو انتظامی امور سنبھالنے، فیصلہ سازی کرنے اور پارٹی کو اپنے قابو میں رکھنے سے دور رکھتی ہے۔ نئی افسر شاہی نے آغاز سے ہی پارٹی کے اندر اپنی مراعات کو دوبارہ بحال کیا۔ سنجیدہ مباحثوں کی گنجائش کو مکمل طور پر ختم کیا گیا۔ پارٹی کی تنظیموں کا سوال ہو یا قیادت کا، تنظیم تعمیر کرنے کا لیننسٹ اصول یہ ہے کہ اسے نچلی سطح سے شروع کر کے اوپر تک لے جانا چاہیے جس میں حتی الامکان اندرونی جمہوریت قائم کر کے نظم و ضبط کے ساتھ فیصلہ سازی کی جائے۔

مگر یہی وہ چیز تھی جس کے لیے زیوگانوف کا ٹولہ بالکل بھی تیار نہیں تھا۔ اسے تو اپنے مادی مفادات کی حفاظت کے لیے پارٹی کے اوپر مکمل قبضہ چاہیے تھا، اسی لیے انہیں پارٹی تعمیر کرنے کے حوالے سے لینن کے خیالات اور اصولوں کی خلاف ورزی کرنی پڑی۔ ان کے مخصوص مفادات نے ناگزیر طور پر انہیں حکمران طبقے کے ساتھ گٹھ جوڑ بنانے اور پارٹی کے عمومی مفادات سے غداری کرنے پر مجبور کیا۔ اس دوران بہت سارے پارٹی ممبران افسر شاہی کی بد عنوانی کے خلاف آواز اٹھانے کے لیے تیار نہیں تھے، جو سمجھتے تھے کہ پارٹی کا بحیثیت کل دفاع کرنا چاہئیے۔ مگر اس کی قیمت پارٹی کی مجموعی زوال پذیری، محنت کش طبقے کے بیچ اس کی حمایت میں کمی اور پارٹی اشرافیہ کی جانب سے جبر میں اضافے کی صورت میں بھگتنی پڑی۔

قیادت کی غداری کے سارے نتائج ایک ہی وقت میں سامنے نہیں آئے، بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ واضح اور شدید ہوتے گئے، جیسا کہ کینسر کا ٹیومر بتدریج ً بڑھتا جاتا ہے اور بالآخر جسم کی کمزوری اور موت کا سبب بنتا ہے۔ زیوگانوف کے ٹولے کی دائیں جانب حرکت نے سال گزرنے کے ساتھ ساتھ ایک نمایاں کردار اپنا لیا۔ مثال کے طور پر اس کا واضح اظہار مندرجہ ذیل عوامل کے ذریعے ہوا:

1۔ پارٹی اشرافیہ کاروباری شخصیات کے ساتھ جڑتی اور تعاون کرتی رہی، یہاں تک کہ انتخابات کے دوران وفاقی سطح پر انہیں کمیونسٹ پارٹی کے امیدواران کے طور پر نامزد کرنا شروع کیا گیا؛

2۔ محنت کش طبقے پر انحصار کرنے اور انتخابات میں ایک واضح کمیونسٹ پروگرام پیش کرنے سے انکار کیا گیا، پارٹی پروگرام کو در اصل سوشل ڈیموکریٹک پروگرام میں تبدیل کر دیا گیا؛

3۔ پارٹی میں انتہائی دائیں بازو والے بیگانہ عناصر کی موجودگی کی وجہ سے سلطنتِ روس کے شاؤنزم والے خیالات کو ابھرنے کا موقع دیا گیا؛

4۔ پارٹی کے فنڈ کو ممبرشپ فیس کی بجائے ریاستی امداد اور بڑے کاروباری شخصیات کے ’عطیات‘ پر استوار کیا گیا (اس کے ساتھ، پارٹی بجٹ کا تقریباً ایک چوتھائی حصہ حکومتی اداروں کو برقرار رکھنے پر لگایا جا رہا ہے!)؛

5۔پارٹی کے دستور میں ترامیم کر کے مرکزی کمیٹی کو پارٹی کے سب سے بالا ادارے کانگریس کے اختیارات دیے گئے۔

6۔ افسر شاہانہ جبر کا سلسلہ جاری رکھ کر ضلعی اور ذیلی برانچوں سمیت انفرادی طور پر بھی پارٹی اور کومسومول کے ان ممبران کو بر طرف کیا گیا جنہوں نے اس غدارانہ اور خودکش راستے پر چلنے کے اوپر تنقید کرنے کی جرأت کی تھی۔

2002ء سے یہ طریقے منظم طور پر رائج کیے گئے ہیں۔ 2008ء کے اندر بائیں بازو کے پارٹی ممبران کے خلاف افسر شاہانہ جبر کے اقدامات میں ایک نئی معیاری جست لگی، جب لینن گراڈ شہر کی پوری تنظیم کو بر طرف کر دیا گیا۔ پچھلے عرصے کے دوران ماسکو، پینزا، چیلیا بنسک، ساراتوف، تاتار، اولیانوسک اور دیگر تنظیموں کو تطہیر کے عمل سے گزارا گیا۔ چوواشیا میں، شرچانوف کے افسر شاہانہ گروہ نے مرکزی کمیٹی کی حمایت سے، مقامی کومسومول کے اندر اس وجہ سے تطہیر کی کیونکہ اس کا جنرل سیکرٹری ایوانکوف بائیں بازو کے حزبِ اختلاف کا مؤقف اپنا رہا تھا۔ پارٹی اور کومسومول سے بر طرف کیے جانے والے ممبران کی فہرست بھیانک حد تک طویل ہے۔

کیا اس قسم کی ’طہارت‘ سے پارٹی کی قوت میں اضافہ ہوا ہے؟ بالکل بھی نہیں۔ ’ریڈ بیلٹ‘ (سی پی آر ایف کے حامی خطے) کھوئے ہوئے زمانہ گزر گیا؛ مقامی تنظیموں کی تعداد کم ہو رہی ہے؛ اور ہر گزرتے سال کے ساتھ ساتھ وفاقی انتخابات میں حمایت کم ہوتی جا رہی ہے۔ مگر پارٹی میں موجود دائیں بازو کی اشرافیہ کے نزدیک اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا؛ وہ اپنے اختیارات اور مراعات کھونے کی بجائے پارٹی کے ”پیر پر کلہاڑی مارنا“ زیادہ پسند کریں گے۔ اسی لیے وہ سی پی آر ایف کو اس کی زوال پذیری اور موت کی جانب گھسیٹتے چلے جا رہے ہیں۔ پارٹی کے ہر با ضمیر ممبر کے لیے یہ آر یا پار ہونے کا سوال ہے؛ یا تو پارٹی افسر شاہی کو ختم کرتے ہوئے بالشویک روایات کی جانب لوٹ کر خود کو مضبوط کرے گی، یا پھر افسر شاہی اور طبقاتی مؤقف سے دوری والے عناصر پارٹی کے خاتمے کا باعث بنیں گے۔

پارٹی کی طبقاتی مؤقف سے دوری

کمیونسٹ پارٹی کے تمام تر تاریخی سفر میں اس کے اوپر بورژوازی اور پیٹی بورژوا عناصر کا بیرونی و اندرونی دباؤ پڑتا رہا ہے۔ مگر پارٹی کے لیے سب سے بڑا المیہ براہِ راست اس کی قیادت پر دیگر طبقات کے بڑھتے اثر و رسوخ کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ حالیہ عرصے میں اس قسم کے عناصر کا سب سے نمایاں نمائندہ شاید (2017ء تک مرکزی کمیٹی کا ممبر رہنے والا) ولادیمیر نیکیتن ہے، جو پارٹی کے اندر ’نیو ٹراٹسکائیٹ‘ کا سب سے بڑا شکاری، اور ’روسکی لیڈ‘ (رشین آرڈر) کا بانی ہے۔

نیکیتن کی شخصیت پارٹی میں گھسے ہوئے دائیں بازو سء تعلق رکھنے والوں کی فطرت کی عکاسی کرتی ہے، جس نے پچھلے سالوں کے دوران پارٹی کو بے تحاشا نقصان پہنچایا ہے۔

وہ کابینہ کا ایک کارندہ ہے، جو بمشکل ہی کسی حقیقی جدوجہد میں شامل رہا ہے، اس نے خاموشی کے ساتھ 90ء کی دہائی میں اپنا کیریئر بنایا، اور بہت جلد پارٹی قیادت کے سب سے اعلیٰ ادارے میں شامل ہو گیا۔ نیکیتن کو اپنے ’کارنامے‘ سر انجام دینے کا موقع 2007ء میں ملا، جب اس کی براہِ راست قیادت کے تحت، کمیونسٹ پارٹی کے سنٹرل کنٹرول کمیشن نے لینن گراڈ کے اندر نام نہاد ’نیو ٹراٹسکائیٹ‘ کو بر طرف کرنے کی مہم شروع کی، جس میں بالآخر شہر کی پوری تنظیم کو بر طرف کیا گیا۔ آگے چل کر جہاں بھی زیوگانوف کے ٹولے نے اپنے مخالفین کو کچلنا ہوتا تھا تو وہ ان پر ’نیو ٹراٹسکائیٹ‘ ہونے الزام لگا کر انہیں پارٹی سے نکالنے کی کوشش کرتا، جس کیلئے وہ ’سی پی آر ایف کے اندر نیو ٹراٹسکائیٹ مظاہر کا خطرہ‘ کے نام مشہور قرارداد کا سہارا لیتا۔

اس قرارداد کا ایک نمایاں پہلو نام نہاد ”روسی سوال“ پر زور دینا تھا۔ اکثر اوقات، حکمران ٹولے کے مخالفین پر عظیم روسی قوم پرستی کی پاسداری نہ کرنے کا الزام لگایا گیا۔ کمیونسٹ پارٹی کی تصدیق شدہ دستاویز میں ایسا مؤقف کیونکر اپنایا گیا جس کو اگر لینن دیکھ لے تو سیخ پا ہو جائے؟ یہ کوئی حادثاتی عمل نہیں تھا۔ یہ نیکیتن کے سیاسی خیالات اور پارٹی کے اندر جس رجحان کی وہ نمائندگی کر رہا ہے، کا براہِ راست نتیجہ ہے۔

رسمی طور پر وہ پارٹی کے اصولوں کے ساتھ جڑے رہنے کا اظہار کرتے ہیں، مگر در حقیقت وہ ان سب چیزوں کے مخالف ہیں جس کو ساتھ لے کر پارٹی کو آگے بڑھنا چاہئیے تھا؛ یعنی مارکسزم، محنت کش طبقے کے مفادات، سائنس اور ترقی۔ نیکیتن کس چیز کی نمائندگی کرتا ہے؟ اس کا جواب وہ خود دیتا ہے: ”تکمیل کا روسی فلسفہ“۔ یہ خیال پرست اور رجعتی سوچ کی ایک چال ہے، جو کمیونسٹ پارٹی کے اندر کمیونسٹ اصولوں کی جگہ قومی سوشلزم (یعنی فسطائیت) رائج کرنے کی کوشش ہے۔ اس کا سب سے عمدہ اظہار سی پی آر ایف کے اندر ’نیو ٹراٹسکی ازم‘ کے خلاف لڑنے والوں کی صورت میں ہوتا ہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ پارٹی کے اندر زیوگانوف ٹولے کے ساتھ قریبی اتحاد میں موجود تباہ کن دائیں بازو کے رجحان کی سب سے نمایاں مثال نیکیتن ہے، جو حقیقی کمیونسٹوں کو بر طرف کر کے پارٹی کو انہدام کی جانب لے جا رہا ہے۔ چنانچہ ہم طبقاتی شعور رکھنے والے پارٹی کے ہر ممبر سے اپیل کرتے ہیں، جب وہ ٹراٹسکائیٹ خیالات کے خلاف لڑنے کے احکام سنیں، یہ ضرور سوچیں: ”یہ احکامات کن طبقاتی قوتوں کے مفادات میں جاری کیے گئے ہیں؟“

لینن نے لکھا تھا: ”لوگ سیاست میں ہمیشہ دھوکے اور خود فریبی کا احمقانہ شکار بنتے رہے ہیں اور ہمیشہ بنتے رہیں گے، جب تک کہ وہ تمام اخلاقی، مذہبی، سیاسی اور سماجی عبارات، بیانات اور وعدوں کے پیچھے کار فرما مخصوص طبقات کے مفادات کی شناخت کرنے کے اہل نہیں ہو جاتے۔“

اس قول کو دیکھتے ہوئے اس سوال کا جواب دینا مشکل نہیں ہے کہ بائیں بازو کے ممبر پارلیمان کو کیوں جبر کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور انہیں پارٹی سے بر طرف کرنے کی کوششیں کیوں کی جا رہی ہے؟ پارٹی قیادت کا اوپری ٹولہ اگرچہ انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے کا عزم کرتا ہے، مگر ان کی اولین ترجیح اپنے اختیارات اور مراعات برقرار رکھنا ہوتا ہے۔ جب تک قیادت دائیں بازو کے موقع پرستوں کے ہاتھ میں رہے گی، پارٹی کی مزید زوال پذیری اور لیننسٹ اصولوں سے دوری کا خطرہ موجود رہے گا، جس کا نتیجہ اس کے مکمل انہدام کی صورت میں نکل سکتا ہے۔

ایک زمانے میں اٹلی اور فرانس کی بہت طاقتور کمیونسٹ پارٹیاں آج کہاں ہیں؟ ان کو قیادت میں موجود انہی دائیں بازو کے عناصر نے برباد کر دیا، جنہوں نے ان کی حیثیت چھوٹے چھوٹے گروہوں میں تبدیل کر دی جو سیاست پر اثر انداز ہونے کی اہلیت سے محروم ہیں۔ ان کا اپنے اپنے ممالک کے محنت کش طبقے سے رابطہ منقطع ہو چکا ہے۔ اگر روسی کمیونسٹ پارٹی کے اندر موجود با شعور کمیونسٹ ان دایں بازو کی مفاد پرستوں کے خلاف اعلان جنگ نہیں کرتے تو اس کا بھی یہی حشر ہو سکتا ہے۔

مگر کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ سی پی آر ایف انقلابی تحریک میں کوئی کردار ادا نہیں کر سکتی؟

پارٹی اور نوجوانوں کی خاطر، اور انقلابی قوت تعمیر کرنے کے لیے لڑو!

یہاں زیرِ بحث لائے گئے تمام پہلوؤں کے باوجود، یہ سوچنا غلط ہوگا کہ پارٹی کی حیثیت بالآخر حکومتی کارندے کے علاوہ کچھ بھی نہیں رہی ہے، اگرچہ زیوگانوف کا ٹولہ یہی چاہتا ہے۔ پارٹی کی موجودہ حالت اور اس کا مکمل طور پر بورژوازی کا آلہ کار بننے میں ایک ”چھوٹی سی“ رکاوٹ حائل ہے؛ عام کمیونسٹ ممبران۔

آج بھی پارٹی اور کومسومول کے ہزاروں ممبران کمیونسٹ مؤقف کو برقرار رکھتے ہیں اور پارٹی کی پالیسی کو اپنے اصولوں کے تحت استوار کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ اگرچہ ابھی تک وہ پارٹی کی افسر شاہی کے لیے براہِ راست خطرہ نہیں بنے، پارٹی کے اوپری اور نچلے حصے کے بیچ بے آہنگی کا اظہار انہی کے ذریعے ہوتا ہے۔ خاص کر کومسومول کی صفوں میں اس عمل کو دیکھا جا سکتا ہے، جہاں پارٹی کے نوجوانوں کی جانب سے ایک خالص کمیونسٹ پروگرام اور اسے براہِ راست محنت کش طبقے تک پہنچانے کا مطالبہ بڑھتا جا رہا ہے۔

بہرحال، وقت ہاتھ سے نکلتا جا رہا ہے۔ جتنا زیادہ عرصے تک پارٹی کے بائیں بازو پر مفاہمت اور ’چھوٹے کاموں‘ کا غلبہ رہے گا، اتنا زیادہ پارٹی کا بطورِ کمیونسٹ قوت کے مر جانے کا خطرہ موجود رہے گا۔ وقت چاہے جتنا بھی لگے، دائیں بازو سے علیحدگی نا گزیر ہے۔ مگر اس کا تعین بائیں بازو کی جانب سے ٹھوس اقدامات لینے کا فیصلہ کرے گا کہ وہ پارٹی سے بھرپور قوتوں کی صورت میں علیحدہ ہوں گے، یا پھر انہیں سب کچھ شروع سے تعمیر کرنا پڑے گا۔

ضرورت کس امر کی ہے؟ اس حوالے سے مندرجہ ذیل سطور عالمی مارکسی رجحان کے روسی سیکشن نے اپنے سیاسی بیانیے میں کافی عرصہ پہلے لکھے تھے:

”کمیونسٹ پارٹی صرف اسی صورت اپنی حیثیت برقرار رکھ کر اقتدار کے لیے لڑ سکتی ہے اگر وہ بالشویزم کے راستے پر لوٹ آئے اور حقیقی معنوں میں مزدوروں کی نمائندگی کرنے لگ جائے۔ ہم یہی چاہتے ہیں اور پارٹی کی صفوں میں بھی اس پیغام کو عام کر رہے ہیں۔ مگر ہم اس بات سے بھی واقف ہیں کہ ایسا مندرجہ ذیل اہم شرائط کے بغیر ممکن نہیں ہو گا: 1) پارٹی کے اندرونی ساخت انقلابی تبدیلیوں کے ذریعے اندرونی جمہوریت اور حقیقی جمہوری مرکزیت پر استوار کر کے بالشویزم کی حقیقی روایات کی جانب لوٹنا؛ 2) محنت کش طبقے اور مارکسزم کی جانب رجوع کر کے زیوگانوف کے بورژوا ٹولے پر اعتماد کا خاتمہ کرنا، اور اس اوپری قیادت کو مکمل طور پر تبدیل کرنا جس نے پچھلے سالوں کے دوران خود کو اور پارٹی کو سیاسی حوالے سے رسوا کیا ہے۔“ (’مارکسی رجحان اور ریولوشنری ورکرز پارٹی کی یونیٹی کانگریس کا سیاسی بیانیہ‘، روسی تناظر، 4 مئی 2019ء)

آج کے لیے ان سطور کا پیغام نہ صرف موزوں ہے، بلکہ یہ کمیونسٹ پارٹی کی زندگی اور موت کا سوال بھی ہے۔ ہم تمام دیانتدار اور ثابت قدم کمیونسٹوں سے اپیل کرتے ہیں کہ دائیں بازو اور افسر شاہی کے خلاف جنگ کا آغاز کرتے ہوئے پارٹی کے لیے انقلابی بالشویک تناظر اپنانے کی جانب بڑھیں!

زیوگانوف کا غدار ٹولہ مردہ باد!
لینن اور ٹراٹسکی کی انقلابی پارٹی زندہ باد!