پچھلے چند ماہ سے دنیا بھر کے میڈیا پر یورپ میں ایک نئی جنگ کے بارے میں چہ مگوئیاں ہو رہی ہیں۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی انٹیلی جنس سروسز کے مطابق، روس نے یوکرائن کے ساتھ اپنی سرحدوں پر ایک لاکھ پر مشتمل فوجی دستے تعینات کر دیے ہیں۔ روس نے بیلاروس کے ساتھ مشترکہ جنگی مشقیں بھی شروع کی ہیں۔ امریکہ اور نیٹو کا روس کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ چلا ہے، لیکن ان میں سے کوئی بھی ابھی تک معاملات حل نہیں کر سکا۔
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
پیوٹن کیا کرے گا؟
اس بارے میں بہت سی قیاس آرائیاں موجود ہیں کی پیوٹن کیا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ سب سے پہلے تو ہمیں اس بارے میں خبردار کرنا ہوگا کہ ”روس کے فوری حملے“ کی خبروں، جسے مشرقی میڈیا بہت زور و شور سے پھیلا رہا ہے، کو حقائق پر پرکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ سب کہانیاں رائے عامہ کو بدلنے کی غرض سے سی آئی اے کی جانب سے گھڑی جا رہی ہیں۔ یوکرائن میں زیلینسکی کی حکومت کی جانب سے کیے گئے دعوے اس سے بھی کم قابلِ اعتماد ہیں، بشمول یہ کہ روس جنگی کارروائی کو جواز فراہم کرنے کے لیے فالز فلیگ آپریشن (خود کارروائی کر کے دوسروں کو موردِ الزام ٹھہرانا) کی تیاری کر رہا ہے۔ یہ صرف ایک پراپیگنڈے پر مبنی جنگ ہے اور اسے ویسے ہی لیا جانا چاہیے، اور یہ بات ظاہر ہے پیوٹن اور روس کے وزیرِ خارجہ سرجے لاؤروف کے بیانیوں پر بھی لاگو ہوتی ہے۔
مغربی دانشوروں نے پیوٹن کے ایک طویل مضمون کی نشاندہی کی ہے جو اس نے گزشتہ برس جولائی کے مہینے میں لکھا تھا، جس میں اس نے روس اور یوکرائن کے بارے میں لکھا کہ وہ ”ایک جیسے لوگ“ ہیں۔ دوسرے کئی دانشور لاؤروف کی باتوں کی نشاندہی کر رہے ہیں جس میں اس نے نیٹو کو ایک ایسا منصوبہ قرار دیا ”جس کا مقصد وارسا کی معاہداتی تنظیم اور سوویت یونین کے انہدام کے باعث یتیم ہو جانے والی ریاستوں پر قبضہ کرنا ہے“۔ بعض افراد کے نزدیک یہ تمام باتیں اس بات کا ثبوت ہے کہ ”پیوٹن روسی سلطنت دوبارہ بحال کرنا چاہتا ہے۔“
روس کی فوج یوکرائن کی فوج سے واضح طور پر بہت عمدہ ہے اور اگر یہ چاہے تو بہت آسانی کے ساتھ ملک پر حملہ بھی کر سکتی ہے۔ یوکرائن کی فوجی انٹیلی جنس کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ”مغربی قوتوں کی مدد کی غیر موجودگی میں، روس کے بھرپور حملے کی روک تھام کے لیے درکار مقدار میں جنگی وسائل موجود نہیں ہیں۔“ اسی مضمون میں امریکہ کے سابقہ فوجی راب لی کا قول بھی ذکر کیا گیا ہے کہ روس کے میزائل ”ایک گھنٹے سے بھی کم وقت میں یوکرائن کی فوج کا ایک اہم حصہ ختم کر سکتے ہیں۔“
تاہم، جیسا کہ عراق اور افغانستان پر امریکی حملوں میں دیکھا گیا، اگرچہ ابتدائی حملہ نسبتاً تیزی سے جیتا جا سکتا ہے، مگر کسی ملک پر قابو پانا یا اسے اپنے میں ضم کرنا ایک بالکل ہی الگ معاملہ ہے۔ پیوٹن کو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ بھلے ہی وہ حملہ کرنے میں کامیاب ہو جائے لیکن اسے مقامی بغاوت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ مختلف رائے شماریوں کے مطابق 58 فیصد آدمی یا ایک تہائی شہریوں نے حملے کی صورت میں روس کے خلاف لڑنے پر رضامندی کا اظہار کیا ہے۔ نیو یارک ٹائمز کے مطابق یوکرائن کے ایک کمانڈر، اولیگزینڈر پاؤلیک نے اس بات کا دعویٰ کیا ہے کہ ضرورت پڑنے پر ملک (عوام کو متحرک کر کے) ”اجتماعی جنگ کا آغاز“ بھی کرے گا۔
یہ بالکل واضح بات ہے کہ اگر روس یوکرائن میں مداخلت کرتا ہے تو یوکرائن کی آبادی کی اکثریت اسے رد کرے گی۔ 2014ء میں ’میدان تحریک‘، جس نے ینوکووِچ کی حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا، کے بعد سے ہم نے دیکھا ہے کہ ریاست رجعتی روس مخالف یوکرائنی قوم پرستی اور انتہائی دائیں بازو کے نظریات کو تقویت دے رہی ہے۔ روس کی کریمیا میں مداخلت کے بعد والے سالوں میں یوکرائن میں نیٹو کی حمایت میں شدت کے ساتھ اضافہ ہوا ہے۔ حالیہ رائے شماری کے مطابق، ریفرنڈم کی صورت میں یوکرائن کے قریباً 60 فیصد عوام نیٹو کی رکنیت کے حق میں ووٹ دیں گے، اگرچہ ملک میں جغرافیائی بنیادوں پر اختلاف موجود ہے، جہاں مغربی اور وسطی علاقے اس کی حمایت جبکہ مشرقی اور جنوبی علاقے اس کی مخالفت کرتے ہیں (اس رائے شماری میں دونباس کے وہ حصے شامل ہیں جن پر یوکرائن کا قبضہ ہے)۔ چنانچہ روس بندوق کی نوک پر یوکرائن کو خود میں ضم کرنے کی سکت نہیں رکھتا۔
امریکہ کی فوجی اکیڈمی میں عسکری تاریخ کے سابقہ پروفیسر، ڈاکٹر فریڈ کیگن کے اندازے کے مطابق یوکرائن پہ قبضہ کرنے کے لیے ہر بیس باشندوں پر ایک روسی فوجی کا ہونا ضروری ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ صرف جنوب اور مشرق کے اندر کیئف اور یوکرائن کے دیگر بڑے شہروں پر قبضہ کرنے کے لیے تین لاکھ پچیس ہزار فوج درکار ہو گی۔ پیوٹن اس کام کے لیے اتنی بڑی قیمت چکانے پر کبھی بھی رضامند نہیں ہو گا۔
پیوٹن کیا چاہتا ہے؟
روس نے امریکہ اور نیٹو سے کچھ مطالبات کیے ہیں، جن میں سابقہ مشرقی بلاک میں جنگی سرگرمیوں سے اجتناب؛ میزائل روس کے اتنے قریب نصب نہ کرنا جو اس پر مارے جا سکتے ہوں؛ اور مشرق میں نیٹو کے پھیلاؤ کا خاتمہ شامل ہے۔
مغربی میڈیا نے ان کو بالکل غیر معقول مطالبات کے طور پرپیش کیا ہے، لیکن یہ نری منافقت ہے۔ 1989ء میں، تب کے امریکی وزیرِ خارجہ جیمز بیکر نے وعدہ کیا تھا کہ ”نیٹو کے دائرہ کار میں کوئی توسیع نہیں کی جائے گی۔۔۔مشرق کی جانب ایک انچ کی بھی نہیں۔“ تب سے لے کے اب تک نیٹو مشرق میں ایک ہزار کلو میٹر تک وسعت اختیار کر چکا ہے اور اس نے مزید یہ وعدہ کیا ہے کہ یوکرائن اور جارجیا دونوں ایک دن اس کے رکن بن جائیں گے۔
یہ ایک جنگی معاہدہ ہے جسے روس اپنے لیے ایک خطرہ سمجھتا ہے۔ یوکرائن بھی امریکہ سے جنگی امداد لینے والے بڑے ممالک میں سے ایک ہے، جس نے 2014ء سے لے کے اب تک امریکہ سے 2.5 ارب ڈالر حاصل کیے ہیں۔ کینیڈا یا میکسیکو اگر روس یا چین کے ساتھ جنگی اتحاد بناتے ہیں تو اس پر امریکی سرکار کا کیا ردِ عمل ہو گا، اس کا صرف تصور ہی کیا جا سکتا ہے۔ مزید برآں، 1988ء میں آئی این ایف معاہدے (جس میں بیلسٹک میزائلوں کی تعداد نہ بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا تھا) پر دستخط کر کے، امریکہ نے 2019ء میں یکطرفہ طور پر اس سے منہ موڑ لیا۔
امریکہ ”قومی خود مختاری“ اور ”سرحدوں کا احترام“ کے مقدس اصولوں کی بالادستی کی بات کرتا ہے۔۔۔مگر صرف اپنے سامراجی مقاصد کو مدنظر رکھتے ہوئے۔ امریکہ اس کرہ ارض پر سب سے طاقتور سامراجی ملک ہے اور یہ اپنے سرمایہ دار طبقے کے مفادات کا دفاع کرنے کی غرض سے حکومتوں کو گرانے اور ملکوں پر حملہ کرنے میں کبھی بھی نہیں ہچکچاتا۔
اس نے عراق اور افغانستان کے خلاف جنگوں کا آغاز کیا اور روس کے معاملات میں بھی مسلسل بے جا مداخلت کرتا رہا ہے۔ اس نے روس کو نیٹو کی فوجی چوکیوں سے گھیرا ہوا ہے اور جارجیا اور یوکرائن میں ’سازشی انقلابات‘ (کلر ریولوشن) منظم کیے ہیں جن میں ایسی حکومتیں قائم کی گئی ہیں جو مغرب کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھتی ہیں۔ میدان کی تحریک کو جرمنی اور امریکہ کی سامراجیت نے اشتعال دیا تھا۔ اس نے روس کو یوکرائن کی معیشت، جو تاریخی وجوہات کی بنا پر روس کے ساتھ مضبوطی سے منسلک ہے، سے بے دخل کرنے کی دھمکی دے کر روس اور مغربی ممالک کے توازن کو بگاڑ دیا۔
پیوٹن روسی سرمایہ دار طبقے کے مفادات کے دفاع کے لیے نیٹو کو پیچھے دھکیلنا چاہتا ہے۔ 2008ء میں جارجیا کی جنگ اس حوالے سے ایک اہم موڑ تھا۔ مغربی سامراجیوں کے ہاتھوں کئی سال ذلیل ہونے کے بعد روس نے کہا ”بہت ہو گیا“۔ ایسے میں امریکہ بھی کچھ زیادہ نہیں کر سکتا تھا۔
ایسا ہی کچھ معاملہ 2013ء میں شام کے اندر اوباما کی نام نہاد ”ریڈ لائنز“ کا بھی تھا۔ اس سلسلے میں، اسد، جو روس کا پرانا رفیق کار تھا، کا تختہ الٹنے کی غرض سے مغرب نے اسلامی بغاوت کو بڑھاوا دینے کی مہم چلائی۔ البتہ جلد ہی یہ بات واضح ہو گئی کہ امریکہ اس کام کی تکمیل کے لیے اپنی زمینی فوج بھیجنے کو تیار نہیں تھا۔ چنانچہ روس نے اسد کی حکومت کو سہارا دینا اور بحیرہ روم میں روس کا واحد فوجی اڈا برقرار رکھنا محفوظ سمجھا۔ امریکہ روس اور ایران کے ہاتھوں شام میں اپنی جہادی پراکسیوں کو تباہ ہوتے ہوئے دیکھنے کے سوا کچھ نہیں کر سکا۔
اس کے تھوڑے عرصے بعد روس نے 2014ء میں کریمیا کو اپنے ساتھ ملحق کر دیا، جو روس کے حکمران طبقے کے لیے حکمتِ عملی اور تاریخی حیثیت سے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اس پر واشنگٹن نے احتجاج کیا اور پیوٹن کو نتائج بھگتنے کے بارے میں دھمکایا۔ روس کے اوپر پابندیاں نافذ کی گئیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ آٹھ سالوں بعد بھی کریمیا روس کے حصّے کے طور پر برقرار ہے اور اس حوالے سے امریکہ کچھ خاص کردار ادا نہیں کر پا رہا۔
ان سب واقعات نے پیوٹن کی ہمت کو اور بڑھاوا دیا، اور اس کا مشرقی یورپ اور وسطی ایشیا میں روس کو بطور مرکزی علاقائی طاقت مسلط کرنے کا عزم مزید مضبوط ہو گیا۔ اس میں مزید اضافہ اس وقت ہوا جب اس نے بیلاروس اور قزاقستان کی حکومتوں کو سہارا دینے کے لیے مداخلت کی، جس سے روس پر ان دونوں ممالک کے انحصار میں اضافہ ہوا۔
افغانستان میں امریکہ کی شکست کے پیشِ نظر، پیوٹن کا خیال ہے کہ روسی سرمایہ داری کے مفادات مستحکم کرنے اور مغرب کو پیچھے دھکیلنے کے لیے یہ صحیح وقت ہے۔ وہ خود کو غالب کرنے کے لیے اپنے مخصوص غنڈہ گردی کے انداز میں عالمی سطح پر دھمکیوں کا استعمال کرتا ہے۔ پولیٹیکو (سیاسی خبروں کی ایک میڈیا کمپنی) کا دعویٰ ہے کہ نومبر میں اس نے سفارتکاروں کو بتایا تھا کہ تناؤ کی ایک مخصوص مقدار مغرب کو روس سنجیدگی سے لینے پہ مجبور کرے گی۔ یوکرائن کی سرحدوں پہ بڑی تعداد میں فوجی دستوں کی تعیناتی خاص اسی منصوبے کے تحت کی گئی ہے۔
ایک سائبر حملہ جس نے یوکرائن حکومت کی 70 ویب سائٹس کو غیر فعال کر دیا، کے بارے میں بعض افراد کا کہنا ہے کہ یہ پیوٹن کی ہدایات پر کیا گیا۔ مذاکرات کے دوران روس نے فوجیوں اور ٹینکوں کی گولیاں چلانے کی مشقیں بھی شروع کر دی تھیں اور اب بیلاروس میں بھی مزید جنگی مشقوں کی خبریں مل رہی ہیں۔ پیوٹن مشرقی یورپ سے نیٹو کے انخلاء کے لیے امریکہ اور نیٹو کو مذاکرات پر مجبور کرنے کے لیے اور مِنسک معاہدے (روس کے مشرقی علاقہ جات کی حیثیت پر یوکرائن کے ساتھ کیا گیا امن معاہدہ جس سے یوکرائن کے اندر روس کا اثر و رسوخ مضبوط ہوگا) کے نفاذ کے لیے یوکرائن کو دھمکیاں دینے کا ارادہ رکھتا ہے۔
اگرچہ مکمل قبضہ ناممکن ہے، مگر پیوٹن کی دھمکیاں مکمل کھوکھلی نہیں ہیں۔ ممکن ہے کہ یوکرائن کی فوجی تعیناتیوں کے خلاف روس ایک ’چھوٹی جنگ‘ یا سرجیکل سٹرائیک کرے۔ مغربی تبصرہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اس میں دونباس کے علاقے کا مکمل الحاق بھی شامل ہو سکتا ہے، جو کہ پہلے سے ہی روس کے حامی افواج کے قبضے میں ہے؛ اس سے ماضی میں ملحق کیے گئے کریمیا کے لیے ایک راہداری میسر ہوگی؛ یا نام نہاد ’نیا روس‘ کا منصوبہ بحال کیا جائے گا، جس میں ”یوکرائن کو بحیرہ اسود سے منقطع“ کرنے کی کوشش بھی شامل ہوگی۔
تاہم، ایسا لگ نہیں رہا کہ پیوٹن دونباس ملحق کرنا چاہے گا۔ ان علاقہ جات کو موجودہ حالت پر چھوڑ دینا پیوٹن کے لیے زیادہ سود مند ہے، جو یوکرائن کا حصہ ہونے کے باوجود روس کے اثر و رسوخ کے تحت ہیں۔ اسی طرح ’نیا روس‘ کے منصوبے میں اوڈیسا پر قبضہ کرنا بھی شامل ہوگا، ایک ایسا شہر جو دس لاکھ سے زیادہ آبادی رکھتا ہے، جس کی 68 فیصد آبادی نسلی طور پر یوکرائنی ہے، ایسا کرنا خطرے سے بھرپور ہوگا جہاں اس قبضے کے خلاف بغاوت کا آغاز بھی ہو سکتا ہے۔ اس لیے ایسا لگتا ہے کہ اگر، جبکہ ایسا ممکن تو نہیں لگتا، پیوٹن کوئی جنگی حکمتِ عملی اپناتا ہے تو زیادہ امکانات یہ ہیں کہ اس کا ہدف دونباس اور کریمیا کو ملانے والی راہداری کا قیام ہوگا۔
پیوٹن کا ایک اور واضح مقصد روس میں قوم پرستی کی آگ کو ہوا دینا ہے تاکہ عوام کی توجہ ملک میں موجود مسائل سے ہٹائی جا سکے۔ بہت سالوں کے لیے، پیوٹن تیل کی قیمتوں میں اضافے کے باعث مقبول ہو رہا تھا اور اس کی مقبولیت کی شرح قریباً 70 فیصد تک پہنچی ہوئی تھی۔ کریمیا کو ملحق کرنے کے بعد وطن پرستی کی جنونیت کے باعث اس شرح میں 85 فیصد تک کا اضافہ ہوا۔ تاہم، اس کی شہرت دوبارہ انہدام پذیر ہے، جو 2020ء میں 50 فیصد کے لگ بھگ گر گئی تھی اور حالیہ رائے شماری میں تو اس میں مزید کمی واقع ہوئی ہے۔
اس کی وجہ متعدد عناصر ہیں۔ حکومتی اعدادو شمار کے مطابق، کرونا وباء کی وجہ سے قریباً تین لاکھ بیس ہزار روسی جاں بحق ہوئے ہیں۔ 2008ء کے بحران کی وجہ سے تیل کی قیمتوں میں گراوٹ کے ساتھ روسی معیشت بھی مشکلات میں گھر گئی۔ نتیجتاً، 2013ء سے 2020ء تک حقیقی آمدن میں 11 فیصد تک کی کمی آئی۔ اس کے علاوہ افراطِ زر ابھی 8 فیصد تک پہنچ چکی ہے، جس کی وجہ سے محنت کش طبقے کا معیارِ زندگی مزید گر گیا ہے۔ پچھلے سال نوالنی کی گرفتاری کے خلاف ابھرنے والے احتجاجوں اور پیوٹن کی یونائیٹڈ رشیا پارٹی کے مایوس کن انتخابی نتائج کی اصل وجہ یہی تھی۔
اس لیے پیوٹن کی رجعتیت پر مبنی قوم پرستی کے جنون کو ایک بار پھر سے سلگانے کی کوشش اسی مقصد کا حصہ ہے تاکہ روس کے سماج میں پنپتے ہوئے طبقاتی غصے پر قابو پایا جا سکے۔ مگر جنگ کی دھمکی کے ذریعے قوم پرستی کے جذبات کو ابھارنا ایک طویل اور مہنگی جنگ کو چلانے سے بالکل مختلف چیز ہے، جس کے اُلٹ اثرات بھی مرتب ہو سکتے ہیں۔ بھرپور انداز میں فوجی مداخلت کے امکانات کم ہونے کی یہ ایک اور وجہ ہے، کیونکہ ایسا کرنا پیوٹن کے مفادات کے لیے نقصان دہ ہوگا۔
امریکہ کی کمزوری
امریکہ کے سامراجی نمائندوں نے روس کو جواب میں لفاظی سے زیادہ کچھ نہیں دیا۔ وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری، جین ساکی نے یہ کہتے ہوئے روس کے مطالبات رد کر دیے ہیں کہ وہ ”ان بنیادی اصولوں پہ کوئی سمجھوتا نہیں کر سکتے جو یورپ کے تحفظ کی ساکھ ہیں“۔ امریکی وزیرِ اینتونی بلنکن نے اعلان کیا کہ امریکہ ”بھرپور قوت کے ساتھ روس کی بڑھتی جارحیت کا جواب دینے کے لیے تیار ہے“۔
تاہم، مزید تفتیش کے مطابق یہ بھرپور قوی ردِ عمل محض ”سخت معاشی اقدامات“، ”یوکرائن کے لیے اضافی دفاعی سامان“ اور ”مشرق میں نیٹو کے اتحادیوں کی قلعہ بندی“ کے وعدے پر مشتمل ہے۔ اسی طرح اگرچہ نیٹو کے سیکریٹری جنرل ینس ستولتنبرگ نے کہا ہے کہ ”ہمارے پاس دستے اور افواج موجود ہیں“، اس نے اس بارے میں کوئی تفاصیل پیش نہیں کی ہیں کہ واضح طور پر کیا کِیا جا سکتا ہے۔ بائیڈن نے بھی اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ یوکرائن کے دفاع کے لیے امریکی افواج کے پیش کرنے کو ”زیرِ بحث نہیں لایا گیا ہے“!
اس معاملے میں امریکی سامراجیت کی کمزوری زمینی دستے تفویض کرنے کی غیر رضامندی سے عیاں ہو جاتی ہے جو امریکہ کو بازگشت کی جانب لے کر جاتی ہے اور دوبارہ اسے اس کی کمزوری سے جوڑتی ہے۔ 19 جنوری کی ایک پریس کانفرنس میں بائیڈن نے نشاندہی کی کہ اس کے ”اندازے“ کے مطابق پیوٹن ”حملہ آور ہوگا“۔ تاہم، اس نے مزید یہ کہا کہ مغرب کے ردِ عمل کا انحصار اس بات پر ہے کہ ”(روس) کیا کرتا ہے۔ اگر حملہ چھوٹا ہو تو یہ الگ بات ہوگی اور پھر ہم (نیٹو) اس بات پر بحث کرنا بند کر دیں گے کہ کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں“۔
امریکی سامراجیت کے نقطہ نظر سے اس کے یورپی اتحادیوں کے ساتھ پھوٹ کو منظرِ عام پہ ظاہر نہیں ہونا چاہیے۔ البتہ، امریکہ اپنی کمزوری کی وجہ سے اس قابل بھی نہیں کہ روس کا مقابلہ کرنے کے لیے نیٹو کو متحدہ طور پر استعمال کر سکے۔ اس کا اظہار اس سے بھی ہوتا ہے کہ فرانس کے صدر ایمانئیل میکرون نے حال ہی میں روس کے ساتھ یورپ کے علیحدہ مذاکرات کی تجویز پیش کی تھی۔
امریکہ دنیا کے سامنے کمزور ثابت ہونے کے بارے میں واضح طور پر پریشان ہے، جس کی وجہ سے امریکی حکمران طبقے کے کچھ دھڑے نا قابلِ مصالحت مؤقف پر اتر سکتے ہیں۔ لیکن جو کچھ وہ کر سکتے ہیں اس کی بھی کچھ حدود ہیں۔ عراق اور افغانستان کی دو کٹھن جنگوں کے بعد امریکہ میں جنگ کی بہت مخالفت پائی جا رہی ہے۔ یہ سب امریکی سامراجیت کے زوال کی عکاسی کرتا ہے، جو ماضی کی طرح پوری دنیا کے حوالدار کا کردار ادا کرنے کے قابل نہیں رہا۔ اس کی اپنے اتحادیوں کو متحد رکھنے پر مجبور کرنے کی اہلیت کم ہوئی ہے، اور چھوٹی طاقتوں کے لیے علاقائی سطح پر چالیں چلنے اور اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لیے میدان کھل گیا ہے۔
پابندیاں
امریکہ اور نیٹو کا انحصار مزید پابندیاں لگانے تک ہی محدود ہو چکا ہے۔ مذاکرات میں یہ باتیں زیرِ بحث لائی گئیں کہ روس کو سوفٹ (SWIFT) پے منٹس سسٹم سے خارج کیا جائے، جس سے اس کی عالمی منڈی میں حرکت کرنے کی صلاحیت میں رکاوٹ پیدا ہو گی؛ یا سمارٹ فون اور گاڑیوں کے پارٹس جیسی اشیاء کی درآمدات پر پابندی عائد کی جائے؛ یا نارڈ سٹریم 2 کی گیس پائپ لائن، جو روسی گیس کو یوکرائن سے گزرتے ہوئے روس سے سیدھا جرمنی منتقل کرے گی، کے منصوبے کو منسوخ کیا جائے۔
اگر روس واقعی یوکرائن پر حملہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہو تو اسے روکنے کے لیے ان پابندیوں کے اقدامات ناکافی ہوں گی۔ اہمیت کی حامل بات یہ ہے کہ روس پر ماضی میں لگائی جانے والی پابندیوں نے اندازوں کے مطابق اس کی معیشت کو سالانہ طور پر 2.5 سے 3 فیصد تک گرایا ہے، مگر جس مقصد کے لیے پابندیاں عائد کی گئی تھیں اسے حاصل نہیں کیا جا سکا ہے۔ ان میں سے بہت سی پابندیاں کریمیا کے ساتھ الحاق کے آغاز میں نافذ کی گئی تھیں، مگر یہ پیوٹن کو الحاق منسوخ کرنے پر مجبور نہیں کر سکیں۔
اس کے علاوہ، جیسا کہ فنانشل ٹائمز نے وضاحت کی، روسی ریاست نے عالمی مالیاتی نظام پر اپنا انحصار کم کرنے کی کوششیں کی ہیں۔ اس بات کا مطلب یہ ہے کہ یہ پابندیاں روس سے زیادہ دراصل یورپی یونین پر اثر انداز ہو سکتی ہیں۔ یورپی یونین اپنی 40 فیصد گیس اور اپنے تیل کا چوتھائی حصہ روس سے درآمد کرتا ہے، چنانچہ روس کو سوِفٹ پے منٹس سسٹم کے استعمال سے روکنا یا نارڈ سٹریم 2 کا منصوبہ منسوخ کرنا، بالخصوص تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے یورپی یونین کے رہنماؤں کے لیے ناگوار اقدام ہوگا۔
یورپ کے بڑے سرمایہ دار ملک جرمنی پر یہ بات بالخصوص صادق آتی ہے، جو معاشی لحاظ سے سب سے زیادہ روس پر انحصار کرتا ہے۔ اسی وجہ سے جرمنی کے سرمایہ دار ان پابندیوں کے شوقین نہیں ہیں، جنہوں نے امریکہ کے نسبت نمایاں طور پر کم جارحانہ مؤقف اپنایا ہے۔ جرمنی کی بحری فوج کے سربراہ کو یہ بات سرِعام کہنے پر استعفیٰ دینے پر مجبور کیا گیا کہ کریمیا کی سابقہ حیثیت کو بحال نہیں کیا جائے گا اور پیوٹن اپنی خواہشات کا حق رکھتا ہے جس کی ”عزت کرنی چاہیے“۔ سوئچٹویچا زائتنگ اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے جرمن چانسلر اولاف شولز کا کہنا تھا کہ یوکرائن پر حملے کے جواب میں روس پر عائد کی جانے والی پابندیوں کے متعلق ”محتاط“ رہنا ہوگا کیونکہ ”کوئی بھی دل میں یہ وہم نہ پالے کہ ہمارے کسی اقدام کے ہم پر کوئی نتائج مرتب نہیں ہوں گے۔“ موجودہ صورتحال میں واشنگٹن چاہتا ہے کہ اس کے یورپی اتحادی روس کے ساتھ نمٹیں تاکہ وہ خود چین کی طرف متوجہ ہو سکے۔
مزید یہ کہ جہاں تک روس کی ٹیکنالوجی کی درآمدات پر پابندی لگانے کا سوال ہے تو اس پابندی کو غیر مؤثر بنانے کے لیے چند ممالک ہی کافی ہوں گے۔ جیسا کہ امریکہ روس کی منڈی میں جانے والے سمارٹ فونز یا اپنی مرضی کی کسی دوسری چیز پر پابندی عائد کر سکتا ہے، مگر اس بات کو آسانی سے تصور کرنا ممکن ہے کہ چین اس خلا کو پُر کرنے کے لیے بخوشی آمادہ ہوگا۔
کیا کوئی معاہدہ کیا جا سکتا ہے؟
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ صورتحال آگے کس طرف جائے گی؟ امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان کے مطابق، امریکہ کا بنیادی ہدف ”یوکرائن کی ریاست میں روسی فوج کی مزید مداخلت کو روکنا ہے“۔ امریکی سامراجیت مشرقی یورپ پر اپنا تسلط برقرار رکھنا چاہتی ہے، لیکن چین پہ اپنی توجہ مرکوز کرنے کے لیے وہ یورپ اور مشرقِ وسطیٰ سے پیچھے ہٹ رہا ہے۔ اس سے روس کو مغرب کی پُر خطر پیش قدمی کے خاتمے کا موقع ملے گا۔
امریکہ یوکرائن کے دفاع کے لیے فوجی دستے استعمال کرنے سے گریز کر رہا ہے اور پابندیاں پیوٹن کو پیچھے ہٹنے پہ مجبور کرنے کے لیے ناکافی ہوں گی، جس کا مطلب ہے کہ امریکہ مزید رعایتیں دینے پر مجبور ہوگا۔ پہلے سے ہی اس بارے میں سرگوشیاں ہو رہی ہیں۔ جیسا کہ دی اکانومسٹ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ سلیوان کی مذکورہ بالا بات روس کا یوکرائن کے حریت پسند علاقہ جات کو خود میں ضم کرنے کے امکانات کو ظاہر کرتا ہے۔ ایک بات یہ بھی گردش کر رہی ہے کہ امریکہ مشرقی یورپ میں اپنی فوج کی موجودگی کم کرنے کے بارے میں غور کر رہا ہے۔ بائیڈن نے اس بات سے انکار کیا تھا لیکن جب سی این این پر اینتونی بلنکن سے پولینڈ میں بھاری جنگی ہتھیار نصب کرنے کے بارے میں سوال کیا گیا تو اس نے گھما پھرا کے جواب دیا۔ دیگر افراد، جیسا کہ روس کی قومی سلامتی کونسل کے سابقہ ڈائریکٹر، کا کہنا ہے کہ نیٹو کئی سالوں کے لیے یوکرائن کے نیٹو میں شریک ہونے پر رسمی طور پر پابندی لگا سکتا ہے۔
پابندیوں کی دھمکی کے علاوہ نیٹو ”اسلحے کے قواعد و ضوابط“ کے حوالے سے رعایتوں اور ”عسکری سرگرمیوں کی شفافیت“ بڑھانے کی کوششوں کی پیشکش کرنے کے لیے بھی تیار ہے۔ اسی طرح، وائٹ ہاؤس کے ایک سینئیر افسر نے انکشاف کیا کہ امریکہ ”(عسکری) مشقوں کی وسعت کو باہمی طور پر محدود کرنے کی کوششوں“ کے لیے تیار ہے۔ روسی مذاکراتی نمائندے سرجے ریابکوف نے اس خبر کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ کریملن کے بنیادی مطالبات پر رعایتوں کے پورا نہ اترنے کے بعد مذاکرات ”بند گلی“ میں پھنس چکے ہیں۔ بہ الفاظِ دیگر، روس اس سے بھی بڑی رعایتوں کے حصول کے مواقعوں کی تاک میں بیٹھا ہے۔
ریابکوف کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کی ناکامی کے بعد ایک حالیہ پریس کانفرنس میں بائیڈن نے رعایتوں کے حوالے سے نئی ممکنات پر بات کی۔ اس کے مطابق، یوکرائن کے بارے میں روس کی سب سے اہم دو خواہشات یہ ہیں کہ وہ ”نیٹو کا حصہ کبھی نہ بنے“ اور یہ کہ ”یوکرائن میں سٹریٹیجک ہتھیار نصب“ نہ ہوں۔ یوکرائن کے نیٹو میں شمولیت کے امکانات کے سوال پر اس نے نشاندہی کی کہ ”مستقبل قریب میں“ اس کے ”زیادہ امکانات نہیں ہیں“ اور اس کا مطلب یہ ہے کہ ”اگر وہ ایسا چاہے تو اس کے لیے مہم چلانی ہوگی۔“ اس نے یہ نشاندہی بھی کی کہ پیوٹن کے ساتھ اجلاس ”ممکنات“ میں سے ہے۔
پابندیوں کے ذریعے روس کو پیچھے نہیں دھکیلا جا سکے گا اور یوکرائن کا عسکری میدان میں دفاع کرنے کے حوالے سے امریکہ کا کوئی ارادہ نہیں ہے جو روس اور پیوٹن کی فتح ہی کے مترادف ہے۔ یہ بات 21 جنوری کو بلنکن اور لاؤروف کے بیچ ملاقات سے صاف واضح ہو گئی۔ بائیڈن کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ پیوٹن کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کے لیے ”مکمل تیار“ ہے۔ دوسری جانب، پیوٹن کا ارادہ بائیڈن کو پریشان حال چھوڑنے کا نظر آ رہا ہے، جبکہ لاؤروف کا کہنا تھا کہ مستقبل کے مذاکرات ”سنجیدہ تیاری“ پر منحصر ہوں گے۔ امریکی صدر کے ساتھ اجلاس منعقد کرانا اپنے آپ میں پیوٹن کی ہی کامیابی ہے۔
چنانچہ سب سے زیادہ امکانات امریکہ اور روس کے بیچ مذاکرات کے ہیں، جس کا اختتام بالآخر امریکہ کا کچھ قسم کی رعایتیں دینے پر مجبور ہونے کی صورت ہوگا۔ روس کی جانب سے چھوٹے حملوں کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا، مگر یوکرائن کے اوپر بھرپور انداز میں چڑھائی کے امکانات انتہائی کم ہیں۔ امریکہ اپنی جانب سے دی ہوئی رعایتوں کو خفیہ رکھنے کی کوشش کرے گا اور مذاکرات کا چاہے جو بھی نتیجہ نکلے اسے اپنی فتح کے طور پر پیش کرے گا۔ بہرحال، یہ سب اس بات کا اظہار ہے کہ امریکہ یقیناً ”پیچھے نہیں ہٹا ہے“، اور پیوٹن اس حقیقت سے پوری طرح واقف ہو کر صورتحال کا بھرپور فائدہ اٹھا رہا ہے۔
یوکرائن کی صورتحال سے عالمی صورتحال کی عکاسی ہوتی ہے۔ جب سرمایہ دارانہ نظام عمومی ترقی کے دور سے گزر رہا ہو، اور مختلف سرمایہ دار دھڑوں کے بیچ تقسیم کے لیے لوٹ کا کافی مال ہو، تو نظام مستحکم نظر آتا ہے۔ البتہ، جب نظام بحران کا شکار ہو، ہر قومی ریاست اپنے حکمران طبقے کے مفادات کے حصول کو زیادہ شدت کے ساتھ ترجیح دیتی ہے، جس کا نتیجہ عدم استحکام اور تصادم کی صورت نکلتا ہے جیسا کہ آج دیکھنے کو مل رہا ہے۔ اس کی ایک وجہ امریکی سامراجیت کا بحران بھی ہے، جس کا بین الاقوامی تعلقات کے اوپر ماضی کی طرح اثر و رسوخ نہیں رہا، اور یوں صورتحال کو مستحکم کرنے سے قاصر ہے۔ اس کے برعکس، وہ خود ہی عدم استحکام کا شکار ہے۔ یہ بڑھتا ہوا عدم استحکام اس دور کا خاصہ ہے جس میں ہم زندہ ہیں۔ یہ ایک بیمار نظام کا عکاس ہے۔