تحریر،۔
جان پیٹرسن(سوشلسٹ اپیل امریکہ)ترجمہ ، آدم پال ۔25.11.2008۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔۔ امریکہ نے نئے صدر کا انتخاب کر لیا ہے۔ بیس جنوری دو ہزار آٹھ کو
اوباما امریکہ کے44صدر کا حلف اٹھائے گا۔ معاشی صورتحال میں ڈرامائی
تبدیلیوں کے بعد یہ نہ صر ف امریکہ بلکہ عالمی سطح پر بھی ایک اہم موڑ
ثابت ہو گا۔ امریکہ کی گلیوں میں آپ ہر طرف لوگوں کو اطمینان کا سانس لیتے
ہوئے دیکھ سکتے ہیں۔ اگر لاکھوں نہیں تو ہزاروں لوگ نیو یارک، شکاگو، سینٹ
لوئس اور سان فرانسسکو میں ناچتے ہوئے نظر آرہے ہیں بلکہ کچھ لوگ تو فرط
جذبات سے خوشی کے مارے رو رہے ہیں۔نوجوان موٹر سائیکل یا گاڑی چلاتے ہوئے
،اوباما، کہتے ہوئے چیخیں مار رہے ہیں۔کچھ لوگ سال نو کے دن کی طرح خوش
ہیں اور لوگوں کے چہرے ،خاص طور پر نوجوانوں کے اور افریقی امریکیوں کے،
دمک رہے ہیں۔ یہ مناظردنیا بھر میں ہر جگہ دیکھے جا رہے ہیں اور بش کی
پالیسیوں کے خلاف نفرت ابھر کر سامنے آ رہی ہے۔کیونکہ گزشتہ آٹھ سالوں میں
یہ دنیا جہنم بن چکی ہے۔ اوباما کہتا ہے کہ وہ ،ایک نئی قسم کی سیاست ،کرے
گا۔ اس وجہ سے کئی ریاستوں میں ریکارڈ ووٹ پڑے اور کئی پولنگ اسٹیشنوں پر
پانچ پانچ گھنٹے لائن لگی رہی۔سار دن امید اور تاریخی تبدیلی کی فضا بنی
رہی۔بے شک یہ ایک تاریخ لمحہ ہے۔پہلی دفعہ ایک افریقی امریکی روئے زمین کی
سب سے طاقتورقوم کا صدر بنا ہے۔لیکن ایک سیاہ فام کے صدر بننے کا مطلب یہ
نہیں کہ نسل پرستی ختم ہو گئی ہے۔ نسل پرستی درحقیقت سرمایہ دارانہ نظام
کی پیداوار ہے اور جب تک یہ نظام قائم ہے یہ منافرت چلتی رہے گی۔ لیکن
اوباما کی فتح یہ ضرور ثابت کرتی ہے کہ امریکی بش اور اس کے حواریوں کی
پالیسیوں سے تنگ آچکے ہیں اور سفیدفام نسل پرست بھی اپنی منافرت کو ایک
طرف رکھ کر ایک ریپبلکن کے مقابلے میں سیاہ فام کو ووٹ دے رہے
ہیں۔مارکسسٹوں کے لئے صدر کی چمڑی کا رنگ اس کی طرف ہمارے رویے کا تعین
نہیں کرتا۔ جو بات اہم ہے وہ یہ کہ امیدوار کس طبقے کے مفادات کی ترجمانی
کر رہا ہے۔اس وقت اوباما میں ابہامات اپنے عروج پر ہیں لیکن یہ کوئی حادثہ
نہیں کہ اس نے میکین کے مقابلے میں اپنی کمپئین کے لئے ملٹی نیشنل کمپنیوں
سے کہیں زیادہ پیسے اکٹھے کئے۔اور اس کی فتح کی خبر کے ساتھ ہی عالمی
اسٹاک مارکیٹوں میں تیزی کا رجحان آ گیا۔ وہ بڑے کاروبار کرنے والوں کی
پسند ہے اور وہ آنے والے مشکل وقت میں اسے نجات دہندہ سمجھ رہے ہیں۔لیکن
اس کے باوجود موجودہ امریکی انتخابی ڈھانچے میں اس کی فیصلہ کن فتح بائیں
جانب ایک اہم اور صحت مند تبدیلی کی نشاندہی کرتی ہے۔ انتخابات کی رات کے
سروے کے مطابق سنتیس فیصد تبدیلی کو پہلا اہم ایشو سمجھتے ہیں۔اناسی فیصد
سمجھتے ہیں کہ ملک غلط رستے پر چل رہا ہے۔ نئے ووٹروں میں سے آٹھاسٹھ
فیصد، لاطینی امریکیوں میں سے چھیاسٹھ فیصد اور افریقی امریکیوں میں سے
نوئے فیصد نے اوباما کو ووٹ دیا۔ وہ لوگ جنہیں ماضی میں سیاست سے کوئی
دلچسپی نہیں تھی اچانک یہ سوچنے لگے کہ انہیں ووٹ ضرور دینا چاہئے ۔اوباما
کی کمپئین کے بعد سے ایسا جذبہ ابھرا تھا کہ اگر وہ انتخابی نتائج ہار
جاتا مگر پاپولر ووٹ جیت جاتا تو گلیوں اور بازاروں میں شدید بے چینی پھیل
سکتی تھی۔ فلم ڈائریکٹر مائیکل مور کے مطابق یہ ریپبلکنز اور ریپبلکنز کی
طرح کام کرنے والے ڈیموکریٹس کی آٹھائیس سالہ حکومت کا خاتمہ ہے۔ آخر کار
جنگ، دہشت گردی، اینرون، قطرینہ، داخلی جاسوسی، ڈاو¿ن سائزنگ،غیرملکی
محنت کشوں کی بے دخلیوں، یونینز پر حملوں اور گرتے ہوئے معیار زندگی کے بد
ترین بش عہد کا خاتمہ ہو گیا۔ یا ایسا نہیں ہوا؟ جیسا کہ ہم پہلے بھی کئی
بار کہہ چکے ہیں کہ اپنی بنیاد میں اوباما بش اور میکین سے مختلف نہیں اور
انہی مفادات کی ترجمانی کرتا ہے جن کی وہ کرتے تھے۔فرق صرف اتنا ہے کہ یہ
زیادہ جاذب نظر اور ذہین ہے۔ ایک چالاک سیاستدان جو بخوبی سمجھتا ہے کہ وہ
کس کے مفادات کا تحفظ کرنے کے لئے منتخب ہوا ہے اور اپنے پیشرو بل کلنٹن
کی طرح وہ بھی محنت کشوں پر حملے کرے گا جو بش نہیں کر سکا تھا لیکن اس
وقت اس کے چہرے پر ایک خوبصورت مسکراہٹ اور آنکھوں میں چمک ہو گی۔اوباما
اس لئے منتخب نہیں ہوا کے وہ کس کی نمائندگی کرتا ہے بلکہ اس لئے کہ لوگ
اس میں اپنے لئے کیا دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان بحرانوں اور بے یقینی کے دور
میں ،،امید،، اور ،،تبدیلی،، اچھے الفاظ ہیں۔لیکن جلد ہی اوباما کا اصل
رنگ سامنے آجائے گا۔ ابھی خواہ وہ بہت مقبول ہو اور لاکھوں لوگ اس کی
کامیابی سے خوش ہوں لیکن ہم پیشن گوئی کر سکتے ہیں کہ مستقبل قریب میں اس
کے بہت سے حامی کنفیوز اور مایوس ہوں گے ، اپنے آپ سے غداری ہوتی ہوئی
محسوس کریں گے اور پھر غصے میں آئیں گے۔وہ جواب تلاش کر رہے ہیں اور
موجودہ بحرانوں سے باہر نکلنے کا رستہ ڈھونڈ رہے ہیںاور انقلابی مارکسزم
اور سوشلزم کے نظریات کے متلاشی ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ معاشی
بحران ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ امریکی ووٹروں کے ذہنوں میں سب
سے اہم ایشو معیشت ہے۔اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں۔اسٹاک مارکیٹ کی غیر
یقینی کیفیت حقیقی معیشت اور محنت کشوں کی زندگیوں پر گہرے اثرات مرتب کر
رہی ہے۔ یہی محنت کش اس بحران کے نتیجے میں نقصان اٹھا رہے ہیں۔ ہمیشہ
ایسے ہی ہوتا رہا ہے معاشی عروج کے دنوں میں امیر فائدہ اٹھاتے ہیں اور
زوال کے دنوں میں غریبوں کی زندگی اور بھی مشکل ہو جاتی ہے اور انہیں اپنی
بیلٹ مزید کس کرباندھنی پڑتی ہے۔ ہاو¿سنگ مارکیٹ تباہ ہو چکی ہے ، اسٹاک
مارکیٹ سے کھربوں ڈالر بخارات کی مانند غائب ہو چکے ہیں اور سرکاری
اعداداو شمار کے مطابق بے روزگاری کی شرح چھ اعشاریہ ایک فیصد ہے۔ یہ شرح
مختلف طریقے استعمال کر کے مصنوعی طور پر کم بتائی جاتی ہے۔اس کے باجود یہ
شرح گیارہ ستمبر دو ہزار ایک کے بعد سے سب سے زیادہ ہے۔جب آپ ایک لمبے
عرصے سے بیروزگاروں اور اہلیت سے کم روزگار پر موجود لوگوں کو شامل کریں
تو یہ شرح اور بھی بڑھ جاتی ہے۔صرف ستمبر میں ایک لاکھ انسٹھ ہزار لوگ
بیروزگار ہوئے جو مارچ دو ہزار تین کے بعد سب سے زیادہ ہے۔جنوری سے اب تک
سات لاکھ ساٹھ ہزار لوگ بیروزگار ہو چکے ہیں جس میں اکتوبر کا مہینہ شامل
نہیں۔ جب آپ اس بات کو مدنظر رکھیں کے بڑھتی ہوئی لیبر فورس کو اپنے اندر
ضم کرنے کے لئے معیشت کو ہر ماہ ڈیڑھ لاکھ نئی نوکریوں کی ضرورت ہے تو
صورتحال مزید خراب نظر آتی ہے۔ گلوبل انسائیٹ کے داخلی معیشت کے چیف نگل
گالٹ کہتے ہیں،”میرے خیال میں اگلے سال کے آخر تک بیروزگاری کی شرح آٹھ یا
آٹھ اعشاریہ پانچ فیصد ہو گی۔ یہ اسی کی دہائی کے بحران کے بعد بیروزگاری
کی سب سے بڑی شرح ہو گی۔ پچھلے چند ہفتوں میں مندرجہ ذیل کمپنیوں نے بڑے
پیمانے پر لوگوں کو نوکریوں سے برطرف کیا ہے۔ مرک، یاہو، جنرل الیکٹرک،
زیروکس، پریٹ اینڈ وٹنی، گولڈ مین ساچیز، ورل پول، بینک آف امریکہ،الوکا،
کوکاکولا، سٹی کارپوریشن، ڈیٹریاٹ کی گاڑیاں بنانے والی تمام کمپنیاں اور
تقریباً تمام ائیر لائنز۔صرف ستمبر کے مہینے میں دو ہزار دو سو اناہتر
کمپنیوں نے بڑے پیمانے پر ڈاو¿ن سائزنگ کی یعنی انہوں نے پچاس سے زیادہ
ملازمین کو ایک وقت میں نکالا۔ یہ پچھلی گرمیوں اور بہار سے بہت زیادہ تھا
اور ستمبر دو ہزار ایک کے بعد سب سے زیادہ ۔مالیاتی سروسز کی صنعت پچھلے
موسم گرما سے نوکریاں کم کرتی جا رہی ہے جب سے قرضوں کا بحران شروع ہوا
ہے۔کچھ اندازوں کے مطابق بینکوں اور دوسرے مالیاتی اداروں سے تین لاکھ
نوکریاں ختم ہو جائیں گی۔صرف چند ماہ پہلے انہیں’ محفوط‘ سفید پوش نوکریا
ں سمجھا جا رہا تھا۔ ابھی تک یہ واضح نہیں تھا کہ ملک باقاعدہ کساد بازاری
میں داخل ہوا ہے یا نہیں۔ لیکن اب یہ واضح ہو چکا ہے۔کساد بازاری کی ایک
ٹیکنیکل تعریف یہ ہے کہ جی ڈی پی میں گراوٹ کی مسلسل دو سہ ماہی۔ ملک کی
معیشت کی صحت کا سب سے اہم اعشاریہ جی ڈی پی جولائی ستمبر سہ ماہی میں صفر
اعشاریہ تین فیصد کم ہوا جو دو ہزار ایک کے بعد اس سہ ماہی میں سب سے بد
ترین ہے۔ یہ اپریل جون سہ ماہی کی دو اعشاریہ آٹھ فیصد بڑھوتری کے مقابلے
میں بہت کم ہے۔اکثر معیشت دان چوتھی سہ ماہی میں مزید کمی کی پیشن گوئی کر
رہے ہیںآئی ایچ ایس گلوبل انسائیٹ کے معیشت دان برائن بیتھیون کے
مطابق”ٹرین پٹری سے اتر چکی ہے“۔اور بوسٹن میں ایٹن وانس کارپوریشن کے چیف
اکانومسٹ رابرٹ میکنٹاش کے مطابق،”بہت مایوس کن۔اس کا مطلب ہیں ہم زوال
میں ہیں ، یہ بہت سادہ ہے۔ مینوفیکچرنگ کے شعبے میں زوال۔ سوال یہ ہے کہ
یہ کتنا لمبا اور گہرا ہو گا؟،، مینوفیکچرنگ جو کسی بھی معیشت میں ریڑھ کی
ہڈی ہوتی ہے ، اس پر ڈرامائی ضرب لگی ہے۔ انسٹیٹیوٹ فار سپلائی مینجمنٹ کی
مینوفیکچرنگ کے پیمانے میں تیزی اکتوبر میں آٹھاتیس اعشاریہ نورہ گئی جو
کہ ستمبر میں ترتالیس اعشاریہ پانچ تھی۔ پچاس سے کم کوئی بھی عدد کمی ظاہر
کرتا ہے۔ایک بار پھر ستمبر دو ہزار ایک کے بعد یہ سب سے زیادہ کمی
تھی۔لیکن اس دفعہ کسی دہشت گردی کے حملے کی وجہ سے کمزور معیشت پیچھے نہیں
گئی تھی جیسا کہ سات سال پہلے ہوا تھا۔اس دفعہ یہ سرمایہ دارانہ نظام کے
بحران کا براہ راست نتیجہ ہے۔ صارفین کے اخراجات جو ملک کی معیشت کا ستر
فیصد ہے اب ختم ہو چکی ہیں۔یہ اخراجات اس ادھار کے معیار زندگی اور مکانوں
پر لئے جانے والے قرضوں پر مبنی ہےں جن کو اب واپس کرنے کا وقت آگیا ہے،
سود سمیت۔ تیسری سہ ماہی میں امریکیوں کی آمدنی میں آٹھ اعشاریہ سات فیصد
کمی ہوئی ہے۔ یہ انیس سو سنتالیس سے لے کر اب تک سب سے زیادہ کمی ہے۔ اس
اعشارئے کا آغاز انیس سو سنتالیس میں ہوا تھا۔امریکیوں نے اپنے اخراجات
میں تین اعشاریہ ایک فیصد کمی کر دی ہے جو گزشتہ سات سالوں میں پہلی کمی
ہے اور پچھلے آٹھائیس سالوں میں سب سے زیادہ ہے۔ کانفرنس بورڈ کے مطابق
صارفین کے اعتماد میں کمی آئی ہے اور وہ ستمبر میں اکسٹھ اعشاریہ چارسے گر
کر اکتوبر میں آٹھاتیس رہ گیا ہے۔ ایک سال پہلے یہ اعشاریہ پچانویں اعشاریہ
دوپر تھا۔آج یہ آٹھاتیس پر ہے۔
کاروبار میں بھی اخراجات کم ہوئے ہیں۔مکان بنانے والوں نے اخراجات میں
انیس اعشاریہ ایک فیصد کمی کی ہے۔ سافٹ وئیر اور دفتری سامان پر اخراجات
میں پانچ اعشاریہ پانچ فیصد کمی ہوئی ہے۔ عالمی معاشی بحران کے بعد دنیا
میں امریکی اشیاءکی مانگ میں بھی کمی ہوئی ہے۔ برآمدات کے آرڈر بھی کمترین
سطح پر آ گئے ہیں ۔ انیس سو آٹھاسی کے بعد سے ، جب یہ ریکارڈ رکھنا شروع
کیا گیا تھا یہ کم ترین سطح ہے۔اس سے ستر مہینوں کی مسلسل بڑھوتری کا
سلسلہ ختم ہو گیا ہے۔گاڑیوں کی فروخت میں پچیس سال میں سب سے زیادہ کمی
ہوئی ہے جس میں جنرل موٹرز کی سیلز میں ریکارڈ پنتالیس فیصد کمی ہوئی ہے۔
لیکن ایک اور انتہائی اہم اعشاریہ درج ذیل ہے۔امریکہ کی لوہے کی صنعت کے
پاس اناتیس بلاسٹ فرنس ہیں جو معیشت کے اہم شعبوں کو لوہا فراہم کرتی
ہیں۔ان میں سے سترہ آدھے سے زیادہ بند ہونے جا رہی ہیں۔ اس سے پوری معیشت
میں مزید بے روزگاری اور کساد بازاری پھیلے گی۔
اب فیڈرل ریزرو نے شرح سود میں مزید کمی کر دی ہے۔جس سے قرضے دینے کے عمل
کو مزید فرغ ملے گا۔ افراد اور کمپنیوں کی حقیقی حدود سے باہر نکلنے کے
امکانات بڑھیں گے اور آخر کار افراط زر میں اضافہ ہوگا۔پیٹرول کی قیمتوں
میں کمی ہوئی ہے لیکن نقصان پہلے پہنچ چکا ہے۔صرف ایک کمپنی ایگزان موبل
نے پچھلے سال چا لیس ارب ڈالر کا منافع کمایا ہے۔یہ صرف ایک کمپنی ہے۔اس
کا مطلب ہے کہ لاکھوں محنت کشوں کے پاس مزید اربوں ڈالر روٹی ، کپڑے،
مکان، تعلیم اور صحت کے لئے نہیں ہوں گے۔ اور پھر کئی سالوں سے ہمیں یہ
بتاتے رہنے کے بعد حکومت کے پاس تعلیم، صحت، نوکریوں اور تعمیری کاموں کے
لئے کوئی پیسے نہیں حکومت ان جواریوں کے لئے دنوں میں اربوں ڈالر لے آئی
جنہوں نے اس بحران کا آغاز کیا تھا۔ یہ منڈی کے پوشیدہ ہاتھ کے منہ پر
طمانچہ ہے۔ یا ایک تجزیہ نگارکے مطابق منڈی کا پوشیدہ ہاتھ اب عام آدمی کی
جیب میں پہنچ گیا ہے۔حکومت ،جس میں ڈیموکریٹس جن میں اوباما بھی شامل ہے
اور ریپبلکن جن میں میکین بھی شامل ہے،نے سات سو ارب ڈالر کے بیل آو¿ٹ
(بچاو¿)پیکج کی منظوری دے دی ہے۔ دوسرے الفاظ میں پیسے خرچ کرنے کی
منظوری دے دی گئی ہے لیکن کوئی بھی نہیں جانتا کہ انہیں کیسے خرچ کیا
جائے۔ سو اس طرح جب وال اسٹریٹ میں بیٹھے جواریے لاکھوں ڈالر کی تنخواہیں
لے رہے ہیں اور ہر ہفتے عراق اور افغانستان کی جنگ پر اربوں ڈالر خرچ ہو
رہے ہیں اسی وقت لاکھوں لوگ اپنے گھروں ، علاج، تعلیم ، روزگار، کھانے اور
مستقبل کی امید سے محروم ہورہے ہیں۔ بہت سے حوالوں سے موجودہ بحران انیس
سو اناتیس کے بحران سے ابھی بھی زیادہ تباہ کن ہے۔امریکہ کی آمدن کی تقسیم
آج بھی تقریباً انیس سو آتھائیس جیسی ہے جب امیر ترین ایک فیصد لوگوں کے
پاس کل آمدن کا چو بیس فیصد جاتا تھا۔آج یہ تائیس فیصد ہے لیکن ظاہر ہے
رقم کا کل حجم کئی گنازیادہ ہے۔ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ انیس سو اناتیس
میں وال سٹریٹ کے زوال کے دو تین سال بعد تک بڑا بحران شروع نہیں ہوا تھا۔
لہٰذا اسٹاک مارکیٹوں میں خواہ تیزی مندی ہوتی رہے لیکن موجودہ بحران ابھی
ختم ہونے سے بہت دور ہے۔ہم ابھی یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ کتنا گہرا اور
لمبا ہو گا لیکن موجودہ حالات کے مطابق یہ بہت تباہ کن ہو گا۔
امریکی محنت کش کے لئے یہ بات پریشان کن ہے کہ ہم ابھی تک جن حالات میں رہ
رہے تھے وہ بہترین حالات ہیں جو سرمایہ دارانہ نظام دے سکتا ہے۔یہ عروج کا
دور تھا۔یہ ”اچھے“ لمحات تھے۔ اور اس کے باوجود دنیا کے سب سے امیر ملک
میں امیر اور غریب کے درمیان خلیج بڑھ رہی تھی۔کوئی حیرانگی کی بات نہیں
کہ امریکی بے چینی سے تبدیلی کی خواہش کر رہے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔۔
تاریخ کی سب سے مہنگی انتخابی مہم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جارج بش کو
ہٹانے کی مہم اکیس ماہ جاری رہی۔اس دوران ہمیں امیدوار گرتے اور ابھرتے
ہوئے نظر آتے رہے ۔ ہم نے روڈی گئیلیانی، ہیلر ی کلنٹن،مٹ رامنی،جان
ایڈورڈز اور مائیک ہکابی کو دوڑ میں شامل ہوتے ہوئے دیکھا اور آخر کار
اوباما اور میکین حتمی امیدواروں کے طور پر نظرآئے۔تبدیلی اور نئی قسم کی
سیاست کی باتوں کے باوجود پیسہ ایک مرتبہ پھر امیدوار کی کامیابی اور اس
کی حیثیت کاحقیقی پیمانہ تھا۔
شروع میں اوباما نے اپنی مہم کے لئے عوامی فنڈ کی بات کی تھی۔جب ڈیموکریٹ
پارٹی میں اسے سنجیدگی سے لیا گیا تو اس نے اپنی نظریں ان لاکھوں ڈالروں
پر لگا لیں جو نجی کمپنیوں کے پاس موجود تھے۔ امریکہ کی تاریخ میں پہلی
دفعہ کسی الیکشن میں امیدواروں نے ایک ارب ڈالر سے زیادہ چندہ اکٹھا
کیا۔اوباما نے اندازاً چھ سو چالیس ملین ڈالر اکٹھے کئے ۔ صرف ستمبر میں
ایک سو پچاس ملین ڈالر۔جان مکین ”صرف“تین سو ساٹھ ملین ڈالر اکٹھے کر
سکا۔پچھلے انتخابات میں ریپبلکنز نے ڈیموکریٹ کے مقابلے میں زیادہ رقم
اکٹھی کی تھی۔کارپوریٹ امریکہ بے وقوف نہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اپنی روٹی کی
کس سائیڈ پر مکھن لگنا
ہے۔ اور اگر آپ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ اوباما کن لوگوں کے مفادات کا تحفظ
کرے گا تو ان خرچہ کرنے والوں کا پتہ کرلیں۔صرف اتنا کہنا کافی ہوگا کہ
لاکھوں لوگ جنہوں نے معمولی چندہ دیا ہے وائٹ ہاو¿س کی دعوتوں میں شریک
نہیں ہو سکیں گے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ کیا اوباما سوشلسٹ ہے؟ ۔ ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔تمام بنیادی ایشوز پر اوباما اور مکین ایک ہی تھیلی کے
چٹے بٹے ہیں۔دونوں میں سے کوئی بھی سرمایہ داری سے علیحدہ نہیں ہونا
چاہتا، جو نظام محنت کشوں کے استحصال پر مبنی ہے۔ان کا اگر کوئی اختلاف ہے
تو وہ یہ کہ اس نظام کو بچانے کا بہترین طریقہ کیا ہو سکتا ہے۔اوباما کا
پیغام ”تبدیلی، جس پر ہم یقین کر سکیں“لاکھوں لوگوں کے دلوں تک پہنچا جو
جنگ،دیوالیہ پن، بیروزگاری اور ڈاو¿ن سائزنگ سے تنگ آچکے تھے۔اوباما نے
بڑی اچھی تقریریں کی ہیں جو جذباتی تو بہت ہیں لیکن ان میں کوئی ٹھوس وعدہ
نہیں۔اسے کم ازم کم الفاظ میں وال سٹریٹ کی لالچ کی مذمت کرنا پڑی، بش کی
عراق کی جنگ کی حکمت عملی پر تنقید کرنا پڑی اور واشنگٹن کے ’اسٹیٹس کو‘
کو نشانہ بنانا پڑا۔
میکین نے بھی یہی ایشو زابھارے لیکن ذرا مختلف زاویے سے۔یہ بات اہم ہے کہ
اس دوران اصل بنیادی ایشوز سامنے آئے جبکہ کے ماضی کے انتخابات میں اسقاط
حمل، ہم جنس پرستی،اسلحہ پر پابندی اور دہشت گردی جیسے فروعی ایشوز سامنے
آئے۔ میکین کی پارٹی کو معاشی بحران کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا اور اسے شروع
میں ہی اس ذمہ داری کا بوجھ بہت مہنگا پڑا۔اس کی عمر اور اس کی اسٹیج پر
فضول حرکا ت بھی اسے نہ بچا سکیں۔ اس لئے وہ امریکی انتخابات کے پرانے
حربے آزمانے پر مجبور ہو گیا کہ اپنے حریف پر کمیونسٹ اور سوشلسٹ ہونے کا
الزام لگا دو۔کچھ سال پہلے یہ حربہ فیصلہ کن نہ سہی اہم ضرور ہو سکتا تھا۔
یہ بات اہم ہے کہ اس بڑھتے ہوئے معاشی بحران میں لفظ”سوشلزم“ دوبارہ ابھر
کر سامنے آیا ہے۔یہ بھی اہم ہے کہ میکین کے الزامات اوباما کا کچھ نہیں
بگاڑ سکے۔کچھ لوگوں نے اس پرصرف ہلکا سا مسکرانا کافی سمجھا ۔دوسری طرف وہ
یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اوباما کا دور سے بھی سوشلزم سے واسطہ نہیں۔اس کے
علاوہ لفظ’سوشلزم‘ کے ساتھ وہ برائیاں بھی اب نہیں چپکی ہوئی جو کچھ سال
پہلے تھیں۔
اوباما نے یہ واضح کر دیا ہے کہ وہ کچھ بھی ہوسکتا ہے لیکن سوشلسٹ نہیں۔اس
کے صحت،تعلیم اور معیشت کے منصوبوں کا حقیقی سوشلزم سے کوئی واسطہ
نہیں۔اپنی پوری مہم کے دوران وہ ”مڈل کلاس“ سے اپیل کرتا رہا ہے اور محنت
کشوں کے بارے میں شاید ہی بات کی ہو اور غریبوں کو تو بالکل نظر انداز کیا
ہے۔ اس نے مکین کے ایک حملے کا جواب یوں دیا،
”اب چونکہ وہ جانتا ہے کہ اس کے معاشی منصوبے کام نہیں کریں گے اس لئے
پچھلے چند دنوں سے وہ مجھے ہر اس نام سے بلا رہا ہے جو کتابوں میں لکھا
ہے۔ حال ہی میں اس نے مجھے سوشلسٹ کہا ہے اور وہ ان پالیسیوں کے لئے جن
میں بش کی طرف سے دی گئی امراءکو ٹیکسوں کی چھوٹ کو ختم کرنا شامل ہے تا
کہ ہم مڈل کلاس کو ٹیکسوں میں رعایت دے سکیں۔ میں یہ نہیں جانتا کہ اگلا
حملہ کیا ہوگا۔ ہو سکتا ہے کہ ہفتے کے آخر میں وہ مجھے ایک خفیہ کمیونسٹ
کہے کیونکہ میں بچپن میں اپنے کھلونے دوسروں کو کھیلنے کے لئے دیتا رہا
ہوں۔کہ میں نے اپنا مکھن اور سینڈوچ بھی کسی سے شئیر کیا تھا۔“ مذاق ایک
طرف رکھتے ہوئے اوباما جس ”سوشلزم“ کی حمایت کرتا ہے وہ ”وال سٹریٹ
سوشلزم“ ہے۔
امیر ترین پانچ فیصد لوگوں کے لئے ٹیکس میں اضافہ کرنے کی بات کرنے کے
باوجود اس نے سات سو ارب ڈالر کے بیل آو¿ٹ پیکج کی حمایت کی ہے جو کہ
”الٹا سوشلزم“ ہے ۔اس میں امیروں کو ایک بڑی رقم دی گئی ہے جسے غریبوں پر
بھاری ٹیکس لگا کر اور ان کا خون چوس کر پورا کیا جائے گا اور ان کا معیار
زندگی مزید گرے گا۔لیکن ایک حقیقت اپنی جگہ موجود ہے، امریکی عوام آج بھی
حقیقی سوشلزم کے نظریات سننا چاہتے ہیں۔اس خواہش کے مستقبل میں اہم اثرات
مرتب ہوں گے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نتائج ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ اوباما
کو انتخابات جیتنے کے لئے دوسو ستر انتخابی ووٹ درکار تھے۔ تازہ خبروں کے
مطابق اس مضمون کے لکھتے وقت چھیاویں فیصد ووٹ گنے جاچکے ہیں اور اس کے
پاس تین سو آٹھاتیس انتخابی ووٹ ہیں۔ سیاہ فام ووٹروں کو دھمکیوں کی خبروں
کے باوجود وہ فتح مند ہوا ہے۔مثال کے طور پر سینٹ لوئس میں سیاہ فام
ووٹروں کو موبائل پر پیغام پھیجا گیا کہ اوباما کے ووٹر منگل کی بجائے بدھ
کو ووٹ ڈالیں۔شہر کے جس علاقے میں ووٹنگ مشین خراب ہوئی وہ نارتھ سٹی تھا
جس میں سیاہ فام لوگوں کی اکثریت ہے۔اس سب کے باوجود اوباما کو بڑی اکثریت
ملی اور ریپبلکنز نے آدھی رات سے پہلے ہی شکست تسلیم کر لی۔ ایک بڑی لیبر
پارٹی نہ ہونے کہ وجہ سے زیادہ تر نظریں دونوں سرمایہ دار پارٹیوں پر جمی
ہوئی تھیں۔ اوباما مانیا ہونے کی وجہ سے تیسری پارٹیوں کے امیدواروں کو
بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔لیکن اس کے باوجود رالف نادر کو چھ لاکھ ووٹ
ملے۔اس
نے اپنی انتخابی مہم کے لئے چالیس لاکھ ڈالر اکٹھے کئے تھے۔ سنتھیامیکنی
کو ایک لاکھ بیس ہزار ووٹ ملے ۔ اس کا انتخابی بجٹ ایک لاکھ آٹھاسی ہزر
ڈالر تھا۔ان امیدواروں اور بائیں بازو کے دوسرے امیدواروں کو چھوٹی دائیں
بازو کی پارٹیوں کے مقابلے میں زیادہ ووٹ ملے۔ سان فرانسسکو کے ڈسٹرکٹ آٹھ
میں سنڈی شیہن نے ڈیموکریٹ پارٹی کی اسپیکر نینسی پیلوسی کو چیلنج کیا جو
جنگ پر اپنے بیانات کی وجہ سے بہت غیر مقبول ہو چکی ہے۔سنڈی شیہن اس
طاقتور اور امیر عورت کے خلاف جیت تو نہ سکی لیکن اسے سترہ فیصد ووٹ ملے۔
اوباما کی فتح کے بعد یہ ضرور نظر آرہا ہے کہ ملک میں بائیں اور دائیں میں
تضاد بڑھ رہا ہے اور بائیں جانب ہلکا سا لیکن ایک مضبوط جھکاو¿ ہے۔اس بات
سے یہ ا مکا ن بھی روشن ہو جاتا ہے کہ اگر یونینز ڈیموکریٹس سے علیحدہ
ہوتی ہیں تو ایک لیبر پارٹی بھی وجود میں آسکتی ہے۔ذرا سوچیں کہ ٹریڈ
یونینز کی طرف سے جو تین سو ملین ڈالر اوباما کو دیے گئے وہ ایک لیبر
پارٹی کی تعمیر پر صرف ہوتے اور ایسے امیدوار کھڑے کئے جاتے جو محنت کش
طبقے کے مفادات کی ترجمانی کرتے؟ اب ڈیموکریٹس کے پاس ہاو¿س اور سینٹ
دونوں جگہ بھاری اکثریت ہے۔جب دو ہزار چھ میں ڈیموکریٹس کو کانگریس میں
اکثریت ملی تھی اس وقت بہت سے لوگ یہ سوچ رہے تھے کہ وہ عراق کی جنگ پر
ہونے والے اخراجات میں کمی کریں گے۔انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ان انتخابی
نتائج کے بعد ان کے پاس لاکھوں لوگوں کا خون پی کر عراق کی جنگ پر ہونے
والے اخراجات میں کمی کرنے کے لئے واضح اکثریت ہے اور ان کے پاس اب کوئی
بہانہ نہیں۔ امریکی سیاست پر ان کی فتح مکمل ہو چکی ہے۔ اور کچھ عرصہ پہلے
بہت سے تجزیہ نگار کہہ رہے تھے کہ یہ پارٹی ختم ہو چکی ہے۔ہم نے دو ہزار
دو میں لکھا تھا جب ڈیموکریٹ پارٹی کو مڈٹرم انتخابات میںبد ترین شکست
ہوئی تھی، ©©” بطور مارکسسٹ ہمیں ڈیموکریٹ پارٹی میں کوئی ابہام نہیں جو
اپنے آپ کو امریکی سرمایہ داری کے ایک ”نرم “چہرے کے طور پر پیش کرتی
ہے۔وہ ہر لحاظ سے امریکی سرمایہ دار طبقے سے بندھے ہوئے ہیں اور کبھی بھی
محنت کش طبقے کے مفاد کے لئے کام نہیں کریں گے۔وہ کم اہمیت کے ایشوز پر
شاید مزاحمت کریں لیکن وہ لاکھوں سالوں میں ایک مرتبہ بھی سرمایہ دار طبقے
کے خلاف محنت کش طبقے کے مفاد میں کھڑے نہیں ہوں گے۔وہ بورژوا جمہوریت کی
حدود میں کام کرتے ہیں، یعنی امیروں اور طاقتور کے لئے جمہوریت۔ یہ نام
نہاد ” سڑک کے درمیان“ چلنے والی پالیسی ایک ایسی سڑک پر ہے جسے سرمایہ
دار طبقہ کنٹرول کرتا ہے۔آخر کار وہ سرمایہ دارانہ نظام کی حمایت کرتے
ہیںاور عوام کو صرف یہ دھوکہ دیتے ہیں کہ اس معاشی نظام میں بھی حالات
بہتر ہو سکتے ہیں۔ ڈیموکریٹس بہت زیادہ ’درمیان‘ میں چلے گئے ہیں،، وہ
بائیں طرف کبھی نہیں گئے تھے ،،کہ وہ اپنے نظریاتی مخالفین سے الگ پہچانے
ہی نہیں جا سکتے۔ الٹرا ڈیموکریٹ جیمز کارویل کے مطابق اس مہم میں وہ
ریپبلکنز کے مقابلے میں پہچانے ہی نہیں جا رہے تھے۔اگر آپ ان چند لوگوں
میں سے ہیں جنہوں نے ووٹ ڈالے تو آپ سوچتے ہوں گے کہ ان ”مخالفین“ کو کیوں
ووٹ ڈالیں جبکہ ان کی سیاست وہی ہے جو لوگ اقتدار میں ہیں۔جیسا کہ کہا
جاتا ہے کہ دوڑ کے درمیان میں گھوڑے کیوں تبدیل کریں۔ بش جنگ کو جاری
رکھنے میں اچھا کام کر رہا ہے تو کیوں نہ اسے اور اس کی پارٹی کو اس کی
پالیسی جاری رکھنے دیا جائے اور دیکھیں کہ کیا ہوتا ہے؟ ” اپنی حالیہ
ناکامی اور اس حقیقت کے باوجود کہ عوام نے ان انتخابات میں انہیںرد کر دیا
ہے ڈیموکریٹ پارٹی حکمران طبقے کے پاس ایک اہم ہتھیار ہے۔ محنت کشوں کی
روایتی پارٹی کی عدم موجودگی کی وجہ سے حکمران طبقہ ڈیموکریٹ پارٹی اور اس
کی ورکرز فیڈریشن سی آئی او ۔ اے ایف ایل سے تاریخی وابستگی کومحنت کشوں
کی تحریک کو زائل کرنے کے لئے استعمال کرے گا۔اس وقت حکمران طبقہ بش اور
اس کے حواریوں کی جارحانہ پالیسیوں کو استعمال کرنا چاہتا ہے۔لیکن یہ لمبے
عرصے تک نہیں چلے گا۔حکمران طبقہ جس بات پر توجہ نہیں دے رہا وہ یہ کہ
ابھی تک امریکی محنت کش طبقہ تازہ دم ہے اور اسے کوئی شکست نہیں ہوئی۔وہ
ایک خاص مرحلے پر حرکت میں آئے گا۔ سطح کے نیچے بہت بڑی نفرت ہے۔انہوں نے
بل کلنٹن کے ساتھ بھی یہی کیا جب ریگن کے دور کی نفرت بڑھتی جا رہی تھی۔یہ
تاریخی طور پر درست ہے کہ عوام کے دباو¿ کی وجہ سے اوردوسری جنگ عظیم کے
بعدمعاشی عروج کی بنا پر ڈیموکریٹ محنت کش طبقے کو کچھ مراعات دینے میں
کامیاب ہوئے۔وہ کئی دہائیوں تک اسی وجہ سے چلتے رہے لیکن ان کا اصل چہرہ
اب سامنے آیا ہے جب کلنٹن نے دہائیوں کے بعد مزدور دشمن قانون ساز ی کی۔اس
نے سرمایہ دار طبقے کے لئے گندا کا م کیا، گو اس کے چہرے پر ایک خوبصورت
مسکراہٹ تھی۔اب ان کی حالت کافی خراب ہے ان کی قسمت آنے والے دور میں بدلے
گی جب سرمایہ دار بش اور اس کے حواریوں کے ذریعے کھل کر حکومت نہیں کر
سکیں گے۔“امریکہ۔ دو ہزار دو کے مڈ ٹرم انتخابات، وہ عوامل
جن کی وجہ سے ریپبلکن کامیاب ہوئے،، ڈیموکریٹ کی قسمت تبدیل ہوئی ہے۔لیکن
ڈیموکریٹ پارٹی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔یہ ابھی تک وہی پارٹی ہے جس کے
بارے میں ہم نے چھ سال پہلے لکھا تھا۔صرف امریکہ کے معروضی حالات اور عوام
کا موڈ ڈرامائی طور پر تبدیل ہوا ہے ، اسی لئے ڈیموکریٹس کو دوبارہ سرمایہ
داری کا ”نرم“ چہرہ دکھانے کے لئے سامنے لایا گیا ہے تا کہ نظام کو بچایا
جا سکے۔نیچے سے دباو¿ کی وجہ سے شاید وہ مالکان کی میز سے ایک دو مراعات
چرا کر عوام کو دے دیں لیکن وہ محنت کش طبقے کے لئے کوئی اہم تبدیلی نہیں
کر سکیں گے۔ان کا پروگرام ہمارے معیار زندگی میں مزید کمی پر مشتمل ہو
گا۔یہ امیدوں پر پانی پھیر دے گا اور محنت کش طبقے کا شعور تیزی سے تبدیل
ہو گا۔ ہم یہ بھی بتاتے چلیں کے دو ہزار چارکے انتخابات کی کامیابی کے بعد
ہم نے بش کے بارے میں لکھا تھا کہ بش کا خاتمہ امریکہ کے قابل نفرت ترین
صدر کی صورت میں ہو گا۔اور یہ کہ اس کے پاس کوئی مینڈیٹ نہیں اور وہ اپنی
مدت کے خاتمے پر ایک مردہ بطخ ہو گی۔یہ پیشن گوئی بھی درست ثابت ہوئی
ہے۔اور آج ہم یہ پیشن گوئی بھی کرسکتے ہیں کہ اپنی مدت کے خاتمے تک اوباما
کے بارے میں تبدیلی کے تمام ابہامات ریزہ ریزہ ہو چکے ہوں گے ۔ لاکھوں
امریکی ان خیالات کو سننا چاہیں گے کہ ڈیموکریٹس سے علیحدہ ہونا ضروری ہے
اور ایک ایسی پارٹی کی تعمیر ضروری ہے جو واقعی محنت کشے طبقے کے مفادات
کا دفاع کرے۔ ایک عوامی لیبر پارٹی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ صدر
اوباما ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اوباما کے عہد میں کس قسم کی
صدارت ہو گی؟اس نے اپنی مہم کے دوران بے شک بہت سی جذباتی اور انوکھی
باتیں کی ہوں لیکن اگرغور سے دیکھیں تو وہ بہت زیادہ وعدے کرنے کے بارے
میں بہت محتاط رہا ہے۔بلکہ منتخب ہونے پہلے ہی وہ اپنے بہت سے وعدوں سے
مکر گیا تھا تا کہ بڑھتی ہوئی امیدوں کو کچھ کم کیا جا سکے۔ لیکن جب
مائیکل موور جیسے لوگ اسے ایک ”جنت کی سرزمین “ قرار دے رہے ہوں تو تو یہ
بات یقینی ہے کہ لوگ نتائج چاہتے ہیں اور جلد۔اوباما کے مشیر اور میڈیا یہ
بات بخوبی جانتے ہیں اور وہ تیزی سے بڑھتی ہوئی امیدوں کو کم کرنے کے لئے
حرکت میں آئے ہیں۔انتخابات کی رات ایم ایس این بی سی کے تجزیہ نگار یہ بات
کہہ رہے تھے کہ ووٹروں کو مایوسی ہو سکتی ہے۔اوباما کے ایک سینئر مشیر نے
برطانیہ کے اخبار ’دی ٹائمز‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ انتخابات کے بعد
پہلے چند ہفتے بہت اہم ہوں گے” تا کہ خوشی اورجذبے سے بھرپور موڈ مایوسی
میں نہ بدل جائے“۔ دی ٹائمز نے اپنے مضمون”بارک اوباماانتخابات میں جیت کے
بعد امیدوں کو ختم کرنے کے منصوبے بناتا ہوا“میں لکھا، ”کولوراڈو ریڈیو
اسٹیشن کو انٹرویو دیتے ہوئے اوباما امیدویں کم کررہے تھے۔جب ان سے پوچھا
گیا کہ وہ اپنے پہلے سو دنوں میں کیا کریں گے تو انہوں نے کہا کہ انہیں
اتنے بڑے ، اہم اور مہنگے معاملات سے نپٹنے کے لئے زیادہ وقت چاہئے جیسے
صحت کے شعبے میں اصلاحات، گلوبل وارمنگ اور عراق جیسے ایشوز ہیں۔اوبامانے
کہا’ پہلے سو دن بہت اہم ہیں لیکن پہلے ہزار دن شاید کوئی فرق ڈال سکیں
گے‘۔وہ عوامی اجتماعات میں یہ بات باور کرواتا رہا ہے کہ ان معاملات سے
نپٹنا کتنا مشکل ہے اور اسے اپنے مقاصد حاصل کرنے میں وقت لگے گا۔ساراسوٹا
، فلوریڈا میں اوباما نے ایک جلسے میں کہا کہ”میں یہاں کھڑا ہو کر یہ نہیں
کہنا چاہتا کہ یہ کرنا بہت آسان ہو گا۔خاص طور پر معاشی بحران اور عراق کی
جنگ کے اخراجات کے بارے میں ‘۔“ امریکی معاشرے میں دائیں اور بائیں جانب
تضاد بڑھ رہا ہے۔ انتخابی مہم کی گرما گرمی میں بہت سی طاقتیں کنٹرول سے
باہر نکل چکی ہیں جنہیں واپس لانا بہت ضروری ہے۔سابقہ مد مقابل کو متحد ہو
کر سکون اور استحکام کو واپس لانا ہے۔مکین نے شکست تسلیم کرتے ہوئے اپنی
تقریر میں نئے صدر کے لئے قومی اتحاد اور حمایت کی اپیل کی۔اپنی جیت کے
بعد کی تقریر میں اوباما نے صدارت کے لئے اپنا لہجہ تبدیل کر لیا۔ہم یہاں
چند اقتباسات پیش کرتے ہیں، ”میں جانتا ہوں کہ آپ نے یہ صرف الیکشن جیتنے
کے لئے نہیں کیا اور یہ صرف میرے لئے نہیں کیا۔آپ نے یہ اس لئے کیا کیونکہ
آپ آنے والے چیلنجز کی اہمیت سے بخوبی آگاہ ہیں۔آج جب ہم جشن منا رہے ہیں
تو ہم جانتے ہیں کہ کل ہمیں اپنی زندگی کے سب سے بڑے چیلنجز کا سامنا ہے
۔دو جنگیں ، تباہی کے دہانے پر موجود سیارہ اور صدی کا سب سے بد ترین
معاشی بحران۔آج رات جب ہم یہاں کھڑے ہیں تو ہم یہ جانتے ہیں کہ عراق کے
ریگستانوں میں بہادر امریکی جاگ رہے ہیں اور افغانستان کے پہاڑوں میں وہ
اپنی زندگیاں ہمارے لئے داو¿ پر لگائے بیٹھے ہیں۔بہت سے ماں باپ اس وقت
جاگ رہے ہوں گے جب ان کے بچے سو رہے ہوں گے کہ وہ مکان کا قرضہ کیسے ادا
کریں گے یا ڈاکٹر کا بل کیسے ادا کریں گے اور کالج کی فیس کے لئے بچت کیسے
کریں گے۔اب نئی طاقت پیدا کرنی ہو گی اور نئی نوکریاں تخلیق کرنی ہوں
گی۔نئے سکول بنانے ہوں گے، نئے خطروں سے نمٹنا ہو گا اور اتحادوں کودرست
کرنا ہو گا۔ ”آنے والارستہ بہت لمبا ہو گا۔ہمارے چڑھائی بہت ہی عمودی ہو
گی۔ہم وہاں شاید ایک سال یا ایک مدت(ٹرم) میں نہ پہنچ پائیںلیکن اے
امریکہ! میں آج رات پر امید ہوں کہ ہم وہاں ضرور پہنچیں گے۔میں آپ سے وعدہ
کرتا ہوں کہ ہم عوام وہاں ضرور پہنچیں گے۔ ” ہمیں ناکامیاں بھی ہوں گی
شروع یں غلطیاں بھی ہوں گی۔بہت سے لوگ ہوں گے جو ان پالیسیوں اور فیصلوں
سے اتفاق نہ کریں جو بطور صدر میں کروں۔اور ہم جانتے ہیں کہ حکومت ہر
مسئلہ حل نہیں کر سکتی۔لیکن میں آنے والے چیلنجز میں آپ کے ساتھ دیانت دار
رہوں گا۔ میں آپ کو سنوں گا خاص طور پر اس وقت جب ہم متفق نہ ہوں۔اور سب
سے بڑھ کر میں آپ سے کہوں گا کہ ٓائیں اور اس قوم کی دوبارہ تعمیر میں آگے
بڑھیں جیسا کہ امریکہ کی تاریخ میں دوسو اکیس سال سے ہو رہا ہے، اینٹ سے
اینٹ جوڑتے ہوئے ،ہاتھ سے ہاتھ ملاتے ہوئے۔ ”جو کام اکیس ماہ پہلے سردیوں
کی راتوں میں شروع ہوا تھا اس خزاں میں ختم نہیں ہونا چاہئے۔ہم صرف
کامیابی کی صورت میں تبدیلی نہیں چاہتے تھے۔ابھی ہمیں صرف موقع ملا ہے کہ
ہم تبدیلی لائیں۔اور یہ اس وقت نہیں ہو سکتا جب ہم پرانے رستے پر چلیں۔یہ
آپ کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ ” توآئیں اور حب الوطنی کے ایک نئے جذبے کو
ابھاریں۔خدمت اور ذمہ داری کا جذبہ اجاگر کریں جہاں ہم اور زیادہ کام کریں
اور صرف اپنا خیال نہ رکھیں بلکہ دوسروں کا بھی۔ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ
اس معاشی بحران نے جو ہمیں سکھایا ہے وہ صرف یہ ہے کہ وال سٹریٹ اس وقت
آگے نہیں بڑھ سکتی جب تک عام گلیوں میں ظلم ہو رہا ہو۔اس ملک میں ہم ایک
قوم کے طور پر ابھرتے اور گرتے ہیں ، ایک عوام کے طور پر۔ ”ہمیں اس لالچ
کی مزاحمت کرنی چاہئے جس نے ماضی کی سیاست میںمعمولی پن، نابالغ پن اور
اندھی تقلید کا زہر گھولا۔ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ اسی ریاست کے ایک شخص
نے ریپبلکن پارٹی کا جھنڈا وائٹ ہاو¿س میں پہنچایا۔ایک ایسی پارٹی جو خود
اعتمادی ،شخصی آزادی، اور قومی یکجہتی پرقائم ہوئی۔یہ اقدار ہم سب کی ہیں
اور جب آج ڈیموکریٹ پارٹی انتخابات جیت چکی ہے تو ہم عاجزی اور استقامت سے
اس تفریق کو ختم کریں گے جس نے ہمیں پیچھے دھکیلا ہے۔جیسا کہ لنکن نے ایک
قوم کو کہا تھا جو ہم سے کہیں زیادہ تقسیم ہو چکی تھی ہم دشمن نہیں دوست
ہیں ، جذبات ہمیں اتنا دور نہ لے جائیں کہ ہم محبت کے رشتوں کو توڑ دیں“۔
تو لیجئے ہم نے سیدھا صدر کے منہ سے سب سن لیا۔ہمیں اپنے اختلافات بھلانے
ہیں، زیادہ محنت کرنی ہے،اپنے پر انحصار کرنا ہے،حکومت سے زیادہ امیدیں
وابستہ نہیں کرنی، اپنی بیلٹوں کو زیادہ کسنا ہے اور مزید قربانیاں دینی
ہیں اور سب نے دوست بن کر رہنا ہے۔اپنی بنیاد میں یہ تقریباً وہی پیغام ہے
جو بش نے گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد عوام کو دیا تھا جب اس نے قومی
یگانگت کی بات کی تھی۔”قومی اتحاد“ کا نعرہ ان لاکھوں لوگوں کے لئے کشش
رکھتا ہے جو جنگوں، تقسیم اور جنس پرستی سے تنگ آچکے ہوں۔لیکن سرمایہ داری
میں ”قومی اتحاد “کا مطلب محنت کش طبقے کی اکثریت کے مفادات کو چند سرمایہ
داروں کے تابع کرنا ہے۔بے شک ہم سب ”امریکی“ ہیں لیکن ہم سب ’برابر‘
نہیں۔امریکی سماج طبقات میں بٹا ہوا ہے اور ان طبقات کے ناقابل مصالحت
تضادات ہیں۔ایک طبقہ دوسرے کے استحصال اور اس کی محنت پر زندہ ہے۔ایک طبقہ
دولت کے وسیع ذخائر اپنے پاس مجتمع کر لیتا ہے جبکہ دوسرے طبقے کے لاکھوں
لوگ غربت کی زندگی گزارتے ہیں۔ایک طبقہ ملک کی سیاست اور حکومت کو کنٹرول
کرتا ہے۔ایک طبقہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے تمام قوانین لاگو کرتا ہے۔
اور اگر اندھی تقلید اتنی ہی ’معمولی‘، ’نا بالغ‘ اور زہریلی ہے تو پھر دو
پارٹیوں کے جھوٹ کو ختم کیوں نہ کر دیا جائے جبکہ دونوں پارٹیاں درحقیقت
ایک ہی جماعت کے دو ونگ ہیں۔یہ بات بھی اہم ہے کہ اوباما نے لنکن کے پہلے
افتتاحی خطاب کا حوالہ دیا۔ہم یہ یاد کروانا چاہتے ہیں کہ لنکن کے دوستانہ
الفاظ کے باوجود ایک لمبی اور خونی داخلی جنگ کی وجہ سے اس قوم کے
اختلافات ختم ہوئے تھے۔اس وقت ملک میں تفریق سرمایہ دار شمال اور غلاموں
کے مالکوں جنوب میں تھی۔آج ملک دو طبقوں میں بٹا ہوا ہے۔ محنت کش طبقہ اور
سرمایہ دار طبقہ۔ان کی مصالحت کرنے کا مطلب دائرے کو چوکور بنانا
ہے۔اوباما اور اس کے قریبی لوگ جانتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں طبقاتی جنگ
کے بڑے دھماکے ہونے والے ہیں۔اس کا فریضہ ہے کہ وہ اس جدوجہد کو ”محفوظ“
حدود میں رکھے۔ اس لئے اوباما کو سطحی تبدیلیاں کرنی ہوں گی۔اس کو یہ ظاہر
کرنا ہو گا کہ وہ کچھ مختلف اورنیا کر رہا ہے۔بش اور ا سکے حواریوں کے آٹھ
سالوں کے بعد ہنی مون کا دور ہوگاکیونکہ لوگ مہینوں اور سالوں تک انتظار
کرسکتے ہیں ۔وہ اپنی انتظامیہ کو حتمی شکل دے سکتا ہے جبکہ بش اپنے آخری
ماہ گزار رہا ہے۔اوباما جلد ہی ”مڈل کلاس“ کے لئے ٹیکس میں کٹوتیاں کر
سکتا ہے تا کہ انہیں امیر بنانے کی کوشش کر سکے۔درحقیقت وہ بش کے امیروں
کو دئے جانے والے ٹیکسوں کی چھوٹ کو ختم کرے گا جو ہمیں ٹیکسوں کے اس دور
میں واپس لے جائے گی جو ریگن، بش سینئر اور کلنٹن کادورتھا یعنی اس وقت جب
سوشل سروسز میں کٹوتیاں اور دفاعی بجٹ میں اضافہ شروع ہوا تھا۔خواہ وہ
امیروں کے ٹیکس میں اضافہ کردے لیکن وہ کتنا دیتے ہیں یہ وقت ہی بتائے
گا۔ان کے پاس سرکاری ٹیکس سے بچنے کے لاکھوں طریقے ہیں۔ اس نے پہلے ہی کہا
ہے کہ اخراجات میں اضافہ بجٹ میں دوسری جگہوں پر کٹوتیاں لگا کر کیا جائے
گا۔ٹیکس کی مد میں وصولیاں کم ہونے اور بڑھتے ہوئے دفاعی بجٹ(پانچ سو ارب
ڈالر سالانہ) کی وجہ سے پبلک سیکٹر میں مزید کٹوتیاں ہونے کے امکانات ہیں۔
فیڈرل پروگراموں میں کٹوتیاں ہونے کا مطلب ہو گا کہ ریاستوں اور مقامی
حکومتوں کو اخراجات اٹھانے پڑیں گے۔اخراجات پورے کرنے کے لئے یا تو انہیں
پراپرٹی ٹیکس اور سیلز ٹیکس بڑھانا پڑیں گے یا پھر سکولوں اور انفراسٹرکچر
کی حالت زار کو جوں کا توں رہنے دینا ہو گا۔دونوں طرف سے بوجھ محنت کشوں
کے کندھوں پر ہی گرے گا۔ اوباما کے قریب لوگوں کے چندپر لطف بیانات اس سے
لگی امیدوں کی حقیقت بتاتے ہیں۔اوباما کے نائب صدر جو بائیڈن نے حالیہ
انٹرویو میں کہا کہ اوباما کے اقتدار کے پہلے چھ ماہ میں اس کے حامیوں کی
وفاداری کا امتحان ہو گا اور انہیں اس کا ساتھ دینا ہو گا۔ یہ آنے والی
کسی متنازعہ پالیسی کی طرف واضح اشارہ ہے۔ڈیموکریٹ کے سینٹ میں سابق لیڈر
اور وائٹ ہاو¿س میں اوباما کے متوقع چیف آف اسٹاف ٹام ڈیشل نے حال ہی میں
کہا کہ اس انتخاب کے فاتح کے اگلے دو ہزار بارہ کے انتخاب جیتنے کے
امکانات صرف پچاس فیصد ہیں۔ دوسرے الفاظ میں اس کے قریب ترین شخص کے مطابق
اس کی پالیسیاں غیر مقبول ہوں گی۔ہمیں ایسے شخص سے اور کیا توقعات رکھنی
چاہییں جس نے پیٹریاٹ ایکٹ کی حمایت کی تھی اور جس نے امریکی شہریوں پر
حکومت کی کڑی نگرانی کی بھی پرزور حمایت کی تھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔۔ تیل کی بڑی کمپنیاں اور اوباما کی خارجہ پالیسی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بہت سے لوگ بش اور اور اس کے تیل کی بڑی کمپنیوں سے تعلقات سے
تنگ آچکے ہیں لیکن اوباما کی انرجی پالیسی کو غور سے دیکھنے پر محسوس ہو
گا کہ اس کے حامیوں اور ماحولیات کے لوگوں کو کچھ اور سوچنا چاہئے۔جہاں وہ
شمسی اور ہوا کی تونائی کے استعمال میں اضافہ چاہتا ہے وہیں وہ جوہری
توانائی اور کوئلے ( گو اسے وہ ’صاف کوئلہ‘ کہتا ہے)کے استعمال میں بھی
اضافے کا خواہشمند ہے۔مکین کی طرح وہ سمندر سے تیل نکالنے کا بھی حامی ہے
۔ اوباما نے دو ہزار پانچ میں بش اور ڈک چینی کے انرجی بل کی بھی یہ کہتے
ہوئے حمایت کی تھی کہ ”ابھی کرنے کے لئے یہی بہترین ہے‘۔حیرت کی بات یہ ہے
کہ مکین نے اس کے خلاف ووٹ دیا تھا۔ جب خارجہ پالیسی کی بات آتی ہے تو
اوباما بش اور نیو کونز کی بجائے کلنٹن اور میڈلین البرائٹ کی طرح
ہے(جنہوں نے عراق،سوڈان، افغانستان اور یوگوسلاویہ پر بمباری کی اور جن کی
عراق پر پابندیوں کے باعث لاکھوں لوگ ہلاک ہوئے)۔دوسرے الفاظ میں وہ
امریکی سامراج کے مفادات کا دفاع کرتا رہے گا گو کہ اس میں تفاخر کم اور
سفارتی چرب زبانی زیادہ ہو گی۔اس کاجو بائیڈن کا انتخاب ( جس نے عراق کے
ٹکرے کرنے کی حمایت کی تھی)صرف ایک اشارہ ہے۔
توجہ معاشی بحران کی طرف مرکوز ہو چکی ہے لیکن نئی انتظامیہ کو جن چیلنجز
کا سامنا ہو گا ان میں عراق اور افغانستان میں جنگیں، پاکستان کی صورتحال،
مشرقِ وسطیٰ اور لاطینی امریکہ،اور ایران، چین اور روس سے تعلقات شامل
ہیں۔اوباما مشرقِ وسطیٰ میں کسی جگہ پر وہاں کے بارے میں نئی پالیسی پر
جلد تقریر کرے گا۔ہو سکتا ہے وہ خطے میں فوجوں میں تبدیلی کرے اور شام اور
ایران کے ساتھ ”مذاکرات“ کی بات کرے جس میں میز پر تمام امکانات موجود
ہوں۔لیکن خطے میں یہ نئی پالیسی بش کی پالیسی سے زیادہ مختلف نہیں ہو
گی۔یہ کوئی حادثہ نہیں کہ ڈیموکریٹ پارٹی کا امیدوار بننے کے بعد وہ وہ سب
سے پہلے امریکن اسرائیل پبلک افئیرز کمیٹی کے پاس گیا تھاجو بش کی سب سے
بڑی حامی اور اسرائیل کا حامی لابنگ کرنے والا گروپ ہے۔ انتہائی چالاکی سے
عراق پر کوئی بڑا وعدہ نہ کرتے ہوئے اوباما
کامیابی سے جنگ مخالف ووٹوں کو ایک جنگ کی حمایت کرنے والے امیدوار کی طرف
لایا ہے۔اس نے واضح طور پر کہا ہے کہ عراق سے واپس لائے جانے والے فوجیوں
کو افغانستان بھیجا جائے گا۔ امریکی سامراج کی عراق میں جارحیت ناکام ہو
گی اور اس کی فوجوں کو واپس لانا ہی پڑے گا۔لیکن پینٹاگان اور بڑے بڑے
ٹھیکیداران فوجی چھاو¿نیوں کو برقرار رکھنے کی پوری کوشش کریں گے
جنہیںعراق میںتعمیر کیا گیا ہے۔اپنی فوجوں کو ان چھاو¿نیوں میں واپس لاتے
ہوئے اوباما جنگ میں کمی کا دکھاوا کر سکتا ہے اور ساتھ ہی مشرقِ وسطیٰ
میں امریکی سامراج کی جارحیت بھی برقرا رکھے گا۔ وہ ایران کے بارے میں بھی
انتہائی جارحانہ رویے سے بات کرتا ہے اور پاکستان میں حملے کو بھی خارج از
امکان قرار نہیں دیتا اور وینزویلا کے جمہوری طور پر منتخب صدر شاویز کو
ڈکٹیٹر کہتا ہے۔ اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ وہ چوتھے امریکی بحری بیڑے
کو واپس بلائے جسے اس سال لاطینی امریکہ اور کیربئین کا ”گشت“ کرنے پر
مامور کیا گیا ہے۔اس نے گوانتانامو میں جیل ختم کرنے کا وعدہ کیا ہے اور
شاید وہ اسے پورا بھی کرے۔یہ کام علامتی طور پر اس کے تشخص کو مدد دے
گااور اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ وہ وہاں موجود قیدیوں کو کہیں اور بھیج
دے گا۔ ہم اس کی خارجہ پالیسی کے متعلق اس وقت مزید جان پائیں گے جب وہ
اپنی کابینہ کا اعلان کرے گا( تمام عہدے غیر منتخب ہیں)۔لیکن اس کی
انتخابی مہم کے مشیروں پر ایک نظر ڈالنے سے اس کے ارادوں کی نشاندہی ہوتی
ہے۔انتخابی مہم کے دوران خارجہ پالیسی پر اس کا مشیر سابقہ نیشنل سکیورٹی
مشیرزبگنیف برزنسکی ( جس نے افغانستان میں مجاہدین بنائے جو طالبان کے
پیشرو تھے)، سابقہ نائب وزیر خارجہ سوزن رائس(جس کی استاد میڈلین البرائٹ
تھی)، بحریہ کے سابق وزیر رچرڈڈینزگ( جس کے تحت امریکہ نے یوگوسلاویہ پر
بمباری کی)،سابق انسداد دہشت گردی چیف رچرڈ کلارک(جو بش اور کلنٹن کے تحت
کام کرتا رہا)، جنرل میرل میکپیک( جو مشرقی تیمور پر انڈونیشیا کے قبضے کا
حامی تھا) اور ڈینس راس(جو مغربی کنارے پر اسرائیل کے قبضے کا حامی
ہے)تھے۔کہتے ہیں کہ آپ کسی شخص کو اس کے دوستوں سے پہچان سکتے
ہیں۔’دوستوں‘ کی یہ فہرست خود ہر بات کی گواہی دیتی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایک نیا”نیا معاہدہ“ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔۔ فرینکلن
روزویلٹ نئے معاہدے کے پلیٹ فارم پر منتخب نہیں ہو اتھا۔وہ امریکی سرمایہ
دارانہ نظام کو سوشلسٹ انقلاب سے بچانے کے لئے عوامی فلاح و بہبود کے کام
کرنے پر مجبور ہوا تھا۔لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ انیس سو تیس کی دہائی
میں امریکہ سب سے بڑا قرضے دینے والا ملک تھا اور اس کے پاس سونے کے وسیع
ذخائر تھے۔اس کے علاوہ جب روزویلٹ صدر بنا تو معاشی بحران کا آغاز ہوئے
چار برس بیت چکے تھے۔امریکہ اس وقت دنیا کا سب سے بڑا مقروض ملک ہے اور
معاشی بحران کا ابھی آغاز ہوا ہے۔ اگر اوباما ایسی پالیسیاں لاتا بھی ہے
تو(پھر عوامی دباو¿ اور انقلاب کو زائل کرنے کے لئے ) اس سے خسارے میں
اضافہ ہو گا اور مستقبل میں پیچیدگیاں بڑھیں گی۔امریکی سرمایہ داری اور
سامراج کے لئے بچ نکلنے کا کوئی آسان رستہ نہیں۔معاشی استحکام کو واپس
لانے کے لئے وہ جو بھی کریں گے اس سے سیاسی اور سماجی عدم استحکام پیدا
ہوگا اوراگر سماجی استحکام لانے کی کوشش کریں گے تو معاشی عدم استحکام
پیدا ہوگا۔ اس لئے بنیادی طور پر بہت کم تبدیل ہو گااور اوباما کے لئے بہت
کم رستے ہوں گے۔عروج میں کچھ نہ حاصل کرنے والے محنت کشوں کو قومی مفاد
میں اب ”تکلیف بانٹنے“کی ترغیب دی جائے گی۔لیکن غریب اور محنت کش امیروں
کی نسبت کہیں زیادہ دکھ اٹھائیں گے جیسا کہ وال سٹریٹ کے بیل آو¿ٹ میں
کچھ ہفتے پہلے نظر آیا ہے۔ہم کہتے ہیں کہ ”امیر یہ قیمت ادا کریں۔غریب لوگ
امیروں کے بحران کی قیمت کیوں ادا کریں؟ اسے واضح کرتے ہیں۔کیا اوباما
مزدور دشمن قانون ٹافٹ-ہارٹلے کو ختم کرے گا؟کیا وہ ایک اوسط اجرت مقرر
کرے گا؟کیا وہ ایچ ایم او ختم کرے گا اور مفت صحت کی سہولیات مہیا کرے
گا؟کیا وہ دفاعی بجٹ میں کمی کرے گا اور ان اربوں ڈالر کو تعلیم ،
ہاو¿سنگ اور انفرااسٹرکچر میں لگائے گا؟کیا وہ انرجی،گاڑیوں کی صنعت اور
ائر لائنز جو ملکی معیشت کے لئےایڑھ کی ہڈی ہیں کو نیشنلائز کر کے مزدوروں
کے جمہوری کنٹرول میں دے گا؟کیا وہ غیر ملکی محنت کشوں پر ریڈ اور بے دخلی
ختم کرے گا اور ان کی ان کے تمام خاندان کے لئے عام معافی کا اعلان کرے
گا؟ کیا وہ ایک بڑے عوامی پروگرام کو شروع کرے گا تا کہ لاکھوں نئی یونین
کی نوکریاں پیدا کی جا سکیں؟ سب کو رہائش کی سہولت دے گا، پبلک ٹرانسپورٹ
کو جدید اور بہتر بنائے گااور ہمارے بکھرتے ہوئے انفرااسٹرکچر کو تعمیر
کرے گا؟ اپنی سانسیں نہ تھامیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ سرمایہ داری
بحران میں سوشلزم ہی حل ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ اوباما کے
انتخابات اس وقت ہوئے ہیں جب مایوسی بڑھ رہی تھی۔نہ صرف موجودہ ہحالات کے
بارے میں بلکہ مستقبل کے بارے میں بھی۔لوگوں یقین کرنا چاہتے ہیں کہ حالات
بہتر ہوں گے۔اسی لئے سوشلزم کے نظریات میں دلچسپی بڑھ رہی ہے۔سوویت یونین
کے انہدام کے بعد سے اب تک مارکس اور سوشلزم کا نام اتنا زبان زد عام نہیں
جتنا اب ہے مکین، اوباما، پالن اور بائیڈن، وال سٹریٹ جرنل اور ہر خاص و
عام یہی لفظ دہرا رہا ہے۔جرمنی میں مارکس کی داس کیپیٹل دوبارہ سب سے
زیادہ فروخت ہونے والی کتاب بن چکی ہے۔بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں یہی سوال
ابھر رہا ہے کہ ، کیا مارکس درست تھا؟ مارکسزم اور سوشلزم کے نظریات کے
خلاف کئی سال تک تعصب ابھارنے کے باوجود آج بھی لوگ ان نظریا ت کو
سنناچاہتے ہیں کیونکہ وہ دیکھ رہے کہ سرمایہ داری ٹھیک کام نہیں کر
رہی۔ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ سوویت یونین کے انہدام کے بعد ہمارے ساتھ ایک
ایسے امریکہ کا وعدہ کیا گیا تھا جس میں ہر کسی کے لئے روزگار ہو گا،امن
ہو گااور آج سے بہتر کل ہو گا۔ لیکن ہمیں کیا ملا ہے؟جنگ، دہشت گردی،معیار
زندگی میں گراوٹ،لاکھوں نوکریوں کا خاتمہ اور فوج پر اخراجات میں اضافہ۔
لاکھوں امریکی کہتے ہیں کہ وہ سیاست یا معیشت میں دلچسپی نہیں رکھتے۔وہ ان
حالات سے بیگانہ ہیں اور وہ ٹی وی فٹبال میچ یا پسندیدہ ڈارامہ دیکھنا
پسند کرتے ہیں۔لیکن چاہے آپ سیاست یا معیشت میں دلچسپی نہ رکھتے ہوں ،
سیاست اور معیشت آپ میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اپنے تجربات کی بنیاد پر لاکھوں
امریکی سیاست اور معیشت میں دلچسپی کو دوبارہ زندہ کر رہے ہیں۔دو جماعتی
نظام میں لاکھوں امریکی اپنے مسائل کا حل ڈھونڈنے میں کنفیوز ہیں۔اوباما
کے پاس رضاکاروں کی ریکارڈ تعداد ہے۔پہلی دفعہ انہیں خیال آیا کہ انہیں
سیاست میں دلچسپی لینی چاہئے۔آج سیکھے ہوئے تجربے مستقبل میں ان کے کام
آئیں گے۔ لیکن یہ ریپبلکنزاور ڈیموکریٹ کے لئے اچھا نہیں ہو گا۔ایک نئی
عوامی لیبر پارٹی کی بنیادیں رکھی جا چکی ہیں۔ دہائیوں سے ہمیں دھوکہ دیا
جاتا رہا ہے۔ ہمیں بتایا جاتا رہا ہے کہ آزاد منڈی سب سے عظیم ہے اور یہ
کہ سوشلزم اور مارکسزم چل نہیں سکتے، کہ سرمایہ داری بہترین نظام ہے اور
کوئی متبادل نہیں ۔اور اگر کسی جھوٹ کو متعدد بار دہرایا جائے تو لوگ اس
پر یقین کرنے لگتے ہیں۔لیکن اس کے باوجود سچے نظریات آج بھی موجود ہیں اور
لوگوں میں تبدیلی کے خیالات ابھارتے ہیں۔سوشلزم دراصل ہے کیا؟سوشلزم سے
ہماری مراد حقیقی نیشنلائزیشن ہے۔پانچ سو بڑے بینکوں اور کارپوریشنوں پر
قبضہ کرنااور انہیں معاشرے کی بھلائی کے لئے مزدوروں کے جمہوری کنٹرول میں
چلانا۔یہ اتنا پیچیدہ نہیں ۔ ہم چاہتے ہیں کہ محنت کش طبقے کی اکثریت کا
ذرائع پیداوار، تقسیم اور تبادلے پر جمہوری کنٹرول ہو۔دوسرے لفظوں میں
ہمیں ایک منطقی اور جمہوری پیداوار کے منصوبے کی ضرورت ہے جس کا مقصد
منافع کی بجائے انسانی ضرورت پورا کرنا ہو۔
لیکن آپ اس کی منصوبہ بندی نہیں کرسکتے جس پر آپ کا کنٹرول نہ ہو۔اسی لئے
ریاست کو معیشت کے کلیدی شعبوں پر قبضہ کرنا ہو گا۔اور یہیں پر بہت سے لوگ
پریشان ہو جاتے ہیں۔وہ اس حکومت پر بھروسہ نہیں کرتے جس کے تحت ہم رہتے
ہیں اور ہر اس چیز کے متعلق تشویش میں مبتلا ہو جاتے ہیں جس میں ریاستی
کنٹرول زیادہ ہو گا۔تو سوال یہ ہے کہ ریاست کو کون کنٹرول کرتا ہے۔ہمارے
خیال میں ہمیں ایک مزدور ریاست کی ضرورت ہے ۔ ایسی ریاست جو سماج کی
اکثریت یعنی محنت کش طبقے کی نمائندگی کرے بالکل اس ریاست کے الٹ جس کے
تحت ہم آج رہ رہے ہیں جو ایک ایسی ریاست ہے جس کا مقصد ایک اقلیت یعنی
سرمایہ دار طبقے کا تحفظ ہے۔ بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ امریکی ایک سوشلسٹ
انقلاب کے لئے بہت رجعتی ہیں۔لیکن حالات بہت تیزی سے تبدیل ہو سکتے
ہیں۔ذرا ان بڑے واقعات کے متعلق سوچیں جو پچھلے چند سالوں میں رونما ہو
چکے ہیں۔انران کا انہدام، گیارہ ستمبر، دو ہزار اور دو ہزار چار کے الیکشن
فراڈ، قطرینہ کا طوفان اور اس کے اثرات۔ کرہ ارض کے سب سے امیر ملک میں
مالیاتی بحران، ایک سیاہ فام کا صدر بننا۔ دراصل لوگوں کا رجعتی ہوناہی وہ
وجہ ہے جس کی وجہ سے درندے کے پیٹ میں انقلابی تحریک ابھرے گی۔لوگ استحکام
چاہتے ہیں۔وہ ایک پر سکون نوکری چاہتے ہیں جس میں تمام مراعات ہوں۔وہ
معیاری صحت کی سہولیات اور تعلیم چاہتے ہیں۔اپنے پیاروں اور گھر والوں کے
ساتھ رہنے کے لئے ایک محفوظ جگہ۔لیکن سرمایہ داری نظام یہ بنیادی چیزیں
بھی مہیا نہیں کر سکتا۔ ہم تیز ترین تبدیلیوں کے عہد میں رہتے ہیں ۔ ایک
ایسا عہد جس میں بڑے واقعات کی وجہ سے شعور میں تبدیلیاں رونما ہوتی
ہیں۔عام حالا ت میں ایسا نہیں ہوتا۔عام طور پر کئی سال اور دہائیاں گزر
جاتی ہیں اور ایسا لگتا ہے کچھ نہیں ہوا۔لیکن موجودہ حالات عام حالات
نہیں۔حقیقت یہ ہے کہ کچھ بھی مستقل نہیں ۔ ہر چیز بدلتی ہے۔ہر چیز تبدیلی
کے مسلسل عمل میں ہے۔آتش فشاں سے لے کر زلزلوں تک اور قوموں کے درمیان
تعلقات اور شعور تک سب کچھ تبدیل ہوتا ہے۔ بہت سے لوگ اوباما کی فتح کے
متعلق بہت خوش ہیں اور کچھ عرصہ ہنی مون رہے گا۔مجبور عوام کی امید کچھ
عرصے کے لئے تو بحال ہوئی ہے۔یہاں تک منڈیاں بھی اس کامیابی سے خوش
تھیں۔الیکشن والے دن ڈاو¿ جونز میں تین سو پوائنٹس کا اضافہ ہوا۔لیکن جلد
ہی خوشی کی جگہ ترش حقیقت لے گی۔کوئی بھی بنیادی تبدیلی نہیں ہوئی۔ ہم
ابھی بھی سرمایہ دارانہ نظام میں رہ رہے ہیں۔جس میں بیروزگاری، جنگیں،
بربریت، مہنگائی،نسل پرستی،لاکھوں دوسرے درجے کے شہری اور محنت کش،کم
اجرتیں،گرتے ہوئے حالات زندگی اور خستہ حال انفرااسٹرکچر سب وہی ہیں۔ سطح
سے نیچے موجود نفرت کے پھٹنے کے امکانات موجود ہیں۔مثال کے طور پر تارکین
وطن محنت کشوں کے مظاہرے،ٹرید یونین کی صفوں میں بے چینی اور وال سٹریٹ کے
بیل آو¿ٹ کے خلاف خود رو مظاہرے۔ یہ آنے ولے دور کے آغاز کا آغاز ہے۔ ہم
نے پہلے کہا تھا کہ ان انتخابات میں دراصل محنت کش طبقہ ہی ہارے گا۔لیکن
اس وقت لاکھوں نوجوان اور محنت کش فاتح محسوس کر رہے ہیں۔ہم جانتے ہیں کہ
لوگوں کو اوباما سے بہت سی امیدیں ہیں۔پچھلے کچھ سال بہت سخت تھے۔لیکن ہم
اپنے مو¿قف پر قائم ہیں۔ہم نے پہلے بھی کہا تھا اور پھر کہتے ہیں کہ جب
تک دوسرمایہ دار پارٹیاں امریکی سیاست پر حاوی رہیں گی واشنگٹن میں ہمارے
مفادات کا تحفظ نہیں ہو سکے گا۔اس لئے ٹریڈ یونینز کو ڈیموکریٹ پارٹی سے
علیحدہ ہو کر اپنی ایک عوامی لیبر پارٹی بنانی چاہئے۔اس پارٹی کے پاس بے
تحاشا مواقع ہیں۔یہ پارٹی زیادہ عرصے تک تھرڈ پارٹی نہیں رہے گی۔ہم اسے
فرسٹ پارٹی بنانا چاہتے ہیںکہ ڈیموکریٹ اور ریپبلکنز تھرڈ پوزیشن کے لئے
جھگڑتے رہیں یا ایک سنگل پارٹی بن جائیں۔ جن لوگوں کے اوباما میں
دیانتدارانہ ابہام ہیں ان کی طرف ہمارا رویہ ددوستانہ ہونا چاہئے۔لیکن
اوباما کی تقریر واضح کرتی ہے کہ کوئی جادوگری ہونے والی نہیں ۔اس نے کہہ
دیا ہے کہ راتوں رت کوئی تبدیلی نہیں ہو گی بلکہ ایک لمبے عرصے تک بھی کچھ
نہیں ہوگا۔درحقیقت حالات مزید خراب ہوں گے۔ انتخابات کی رات سی این این نے
ایک انتباہ کیا جب ایک انٹرویو کرنے والے نے کہا کہ معاشی تبدیلی راتوں
رات نہیں ہوتی اور فاتح کے لئے بہت مختصر ہنی مون ہو گا۔ ایسوسی ایٹڈ پریس
کی ٹاپ سٹوری کا عنوان تھا،”منتخب صدر کو بڑے چیلنجز کا سامنا ہے“۔یہ
حقیقت کا درست ادراک ہے۔ دو ہزار آٹھ کے انتخابات بے شک تاریخی نوعیت کے
ہیں۔وہ امریکی محنت کش طبقے کے شعور میں تبدیلی کے ایک نئے مرحلے کی عکاسی
کرتے ہیں۔بہت سے لوگ دو جماعتی نظام کو توڑ چکے ہیں اور اوبا ما کے میٹھے
الفاط کے اندر جھانک سکتے ہیں۔لیکن بہت سے محنت کشوں اور نوجوانوں کو مشکل
طریقے سے سمجھ آئے گی، اپنے تجربات کے ذریعے۔زندگی سکھاتی ہے۔”ڈیموکریٹس
کے سکول “ میں خوش آمدید۔
Source: Chingaree.com