Urdu translation of USA: Report on the March 12th Mega Rally in Madison, Wisconsin (March 18, 2011)
تحریر: رپورٹ
:جوش لوکر(سی ایم پی ایل)
ترجمہ:اورنگزیب خان چنگاری ڈاٹ کام،26.03.2011
امریکہ کے شہر میڈیسن میں ہونے والی ریلی میں،ایک اندازے کے مطابق ، شرکاء کی تعداد 1لاکھ پچاس ہزار تھی،جبکہ شہر کی کل آبادی2لاکھ30ہزار ہے ۔ ریلی میں شریک لوگوں کا جذبہ قابل تحسین اور ولولہ انگیزتھا۔یہ منظرانتہائی عجیب وغریب بھی تھا اور انتہائی حوصلہ افزا بھی۔شہر کا شہر تو سڑکوں پر امڈآیا ہواتھا۔زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے اس ریلی میں شریک تھے ،نرسیں،ٹیچرز ،فائر فائٹرزوغیرہ وغیرہ۔ان میں سے اکثریت ان کی تھی کہ جو زندگی میں پہلی بار ایک آوازہورہے تھے اور اپنی اس آواز کی گرج کو محسوس کر رہے تھے ۔یہ ایک تازہ ہوا کی سی سرگوشی تھی جس میں سے سیاسی معصومیت اور بچپنا جھلک رہاتھا ،جس کی وضاحت ،ہم آگے چل کے کریں گے ۔
ہم ہفتے کے روز اپنے سازوسامان ،یعنی میز اور کتب رسائل کے ساتھ صبح نو بجے پہنچ گئے ،ہم سے پہلے ہزاروں کی تعداد میں لوگ وہاں پہنچے ہوئے تھے ۔ایک اہم ریاستی ادارے کی عمارت کے باہر قطاروں میں کھڑے یہ لوگ ہڑتال کا مظاہرہ کر رہے تھے ۔اس روز کی شروعات ان کسانوں کی آمد کے ساتھ ہوئی جو اپنے اپنے ٹریکٹروں کے ساتھ وہاں آئے تھے۔کسان جو روایتی طورپر قدامت پرست سمجھے جاتے ہیں ، لیکن وہ انقلابی نعرے لگا رہے تھے اور ماحول کو گرمائے ہوئے تھے ۔انہوں نے اپنے ٹریکٹروں پر نعرے اور بینرز آویزاں کئے ہوئے تھے’’انقلاب زراعت سے شروع ہو سکتا ہے‘‘۔ ’’واکر(ریاست کا گورنر) نے سوئے ہوئے دیو کو جگا دیاہے‘‘ ’’واکر کا بل‘محنت کشوں کے خلاف جنگ‘‘۔ہم نے ریاستی عمارت کی پچھلی جانب اپنا سٹال قائم کیا ۔سٹیج وہاں سے کچھ ہی فاصلے پر موجود تھا ۔اس دوران ہماری بڑی تعداد میں ہڑتال کیلئے آنے والوں کے ساتھ مفصل بات چیت ہوتی رہی ۔تیز ہوا کے ساتھ ساتھ سخت سردی نے ہمارے لئے تھوڑی بہت مشکل بھی پیدا کئے رکھی اور ہمیں اپنے پمفلٹس اور کتابوں کو بارہا سنبھالنا پڑا۔لیکن ہمارے گردتمام تر لوگوں کا ہجوم ہمہ وقت موجود رہا۔لوگوں نے ہمارے پمفلٹ ’’لیبر پارٹی کے لیے مہم ‘‘ میں بہت توجہ دی اور اسے دلچسپی سے پڑھا۔ ہزار وں لوگوں نے ہم سے پمفلٹس لئے اور اپنے ای میل ایڈریس اور رابطے ہمیں دئے ۔اور ہمارے موقف کی حمایت کرتے ہوئے دستخط بھی کیے۔
ڈیموکریٹس کا کردار
جہاں تک ریلی کے سیاسی معیار کی بات ہے تو یہاں میڈیسن میں بہت سے اختلافات پائے جاتے ہیں۔اور خاص طورپر طبقاتی جدوجہد کرنے والی قیادت کا نہ ہونا بھی دیکھا جاسکتاہے۔شروع میں جب ریلی نکالی گئی تو اس میں ٹریڈ یونین لیڈر شپ کا کوئی کردار نہیں تھا ۔اور نہ ہی انہوں نے کوئی کال دی تھی۔تب سے اب تک ٹریڈ یونین لیڈرشپ ریلی میں شریک ہونے والوں کے ساتھ جڑنے کی کوششیں کر رہی ہے ۔تحریک کے اچانک اٹھنے سے پتہ چلا کہ ایک بڑا سیاسی خلا ہے ،جسے لازمی پر بھی ہوناتھا۔تحریک کی شدت کے باعث مزدور قیادت کو بائیں بازو کی سیاست اپنانی پڑی اور انہیں چاروناچار ملک گیر ہڑتال جیسے منصوبے سوچنے پڑگئے ۔البتہ آج ہونے والی ریلی کافی حد تک اپنے رویے اور جذبے میں بہت ایک انتہائی کامیاب کوشش ہے ۔اس ریلی کی وجہ سے مزدور رہنماؤں اور ڈیموکریٹک پارٹی کو تحریک میں داخل ہونے کا موقع مل گیا ۔ عام ہڑتال یا تحریک چلانے کے سوال پرتحریک کے شرکا ء میں تذبذب و اختلاف بھی پایا جاتاہے ۔تحریک چلانا اور عام ہڑتال ایک دوسرے سے الگ تھلگ نہیں ہوتے ۔اس کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ جب تحریک چلائی جا سکتی ہے تو عام ہڑتال کیوں نہیں کی جاسکتی تاکہ ریاست پر مزید دباؤ ڈالا جاسکے اور اسے مجبور کیا جاسکے کہ وہ اپنے اس مزدوردشمن قانون کو واپس لے۔ لیکن ڈیموکریٹس کسی طور عام ہڑتال نہیں چاہتے ۔عام ہڑتال صرف ایک سیاسی حربہ یا طریقہ نہیں ہواکرتاکہ یہ کسی رجعتی قانون کو ختم کرنے کا ذریعہ بنتی ہے یا بن سکتی ہے ۔بلکہ یہ ایک اہم سوال بھی جنم دیا کرتی ہے کہ ’’سماج کو چلاتا کون ہے‘‘۔ڈیموکریٹس ،سرمایہ داروں کے گماشتے ہیں اور وہ کبھی بھی نہیں چاہیں گے کہ یہ سوال سوچا اور پوچھا جائے ۔وہ یہ چاہیں گے کہ عوام کے غم وغصے کو ’’قانونی ‘‘اور’’ محفوظ ‘‘طریقوں سے ٹالا اور سنبھالا جائے اور اسے محض مسلسل احتجاجی مظاہروں تک ہی محدود رکھا جائے ۔مسلسل نو ماہ تک یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے تاکہ2012ء میں جب دوبارہ الیکشن ہوں تو محنت کش پھر سے ڈیموکریٹس اور ریپبلکن میں سے کم تر برائی کو ووٹ دیں۔حقیقت یہ بھی ہے کہ ڈیموکریٹس نے اب تک یہ اعلان یا وعدہ نہیں کیا کہ وہ اس ریاست میں اقتدار میں آکر واکر کے اس کالے قانون کو ختم کر دیں گے ۔سوال یہ ہے کہ تب تک وسکونسن کے پبلک سیکٹر کے محنت کش کیا کریں گے ۔اس وقت ان کے اجتماعی سودا کاری کے حق کو ختم کردیاگیا ہے ۔کیا وہ اپنے اپنے دستخط جمع کر کے گھر بیٹھ جائیں ۔اور اس دوران ،ان کے دیگر حقوق بھی ختم اور غصب کر دیئے جائیں !قانون کو واپس لینے کا اعلان ڈیموکریٹس کو الیکشن میں کامیابی دلا سکتا ہے ۔اور یہ بھی ممکن ہے کہ اگر کوئی خاطر خواہ اقدام نہ اٹھایاگیا تو اس قانون کے حوالے سے عوام میں مایوسی اور غم وغصہ بڑھتا چلا جائے گا۔اور وہ الیکشن میں حصہ ہی نہیں لیں گے ۔جس کے نتیجے میں ریپبلکن ،وسکونسن میں دوبارہ الیکشن جیت سکتے ہیں ۔ڈیموکریٹس کیلئے بظاہر یہ ایک موقع ہے مگر ڈیموکریٹس ہرگز یہ چاہتے ہی نہیں کہ وہ کسی عوامی تحریک کی وجہ یا اس کے نتیجے میں اقتدار میں آئیں ۔اور یوں ان سے یہ توقع وابستہ ہوجائے کہ وہ کوئی حقیقی تبدیلی لے کر آئیں گے ۔اگر اس بنیاد پر ڈیموکریٹس الیکشن جیتتے ہیں تو وسکونسن کے محنت کش ،نہ صرف ریپبلکن کے مسلط کردہ اس قانون کو ختم کرائیں گے بلکہ اپنی طاقت کا احساس و ادراک ان کو اس قابل بنا دے گا کہ اپنے مزید مطالبات اور مانگیں بھی منواسکیں گے،اور ڈیموکریٹس کبھی بھی ایسا نہیں چاہیں گے۔حقیقت یہ بھی ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے جاری بحران کی وجہ سے یہ کسی طرح کسی سطح کی اصلاحات نہیں کر سکتے ۔آخر کار ان کا سیاسی مطمع نظر اس نظام کی بقا اور بڑھوتری ہی ہے۔اس سے قطع نظر کہ معاملات کیسے چلتے اورنمٹتے ہیں،یہ حقیقت ہے کہ بڑے واقعات کیلئے فضا اور ماحول تیار ہورہاہے۔
قیادت کی ضرورت
کچھ بھی ہو ،یونینوں کے پاس ایک ہی حل موجود ہے کہ وہ پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر کے محنت کشوں کے ساتھ مل کر ایک عام ہڑتال کی کال دیں ۔محنت کشوں کی اکثریت اس بات کو صحیح طورپرسمجھتی ہے لیکن اس رویے اور سمجھ بوجھ کا ہونا اور بات ہے جبکہ اس پر عمل پیرا ہونا بالکل اور بات ہے ۔اس وقت تو درست بات یہ ہے کہ یہاں لڑاکا قیادت کی کمی ہے ۔ریلی تین بجے ختم ہوئی اور ڈیموکریٹک پارٹی کے سینیٹرز نے تقاریر بھی کیں ۔ان تقاریر میں احتجاج جاری رکھنے ،اپنے موقف پر ڈٹے رہنے اور زیادہ مظاہرین کو شریک کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔
عام ہڑتال کی کال کئی ہفتوں پہلے SCFLنے دی تھی اور یہ کال بھی مزدوروں کے دباؤ پر دی گئی تھی ۔جسے ڈیموکریٹس نے انتہائی چالاکی و عیاری سے صرف احتجاج جاری رکھنے تک محدود کر دیا۔ان تقاریر کے دوران سینٹ لوئیس سے آئے ہوئے میرے ایک دوست نے ،جو یہاں کے واقعات سے متاثر ہوکر ان میں شریک ہونے آیاتھا،مجھ سے پوچھا کہ کیا ریلی میں شریک لوگ یہ نہیں سمجھ پارہے کہ ڈیموکریٹس ،ان کی تحریک کو گمراہ کر رہے ہیں؟اور یہ سوال ایک سچائی بھی تھی جو ریلی کے دوران محسوس ہو رہی تھی۔ابھی تک یہی کیفیت ہے اور پھر اس مرحلے پر یہ بھی بچپنا ہی ہوگا کہ مزدوروں سے اس بات کی فوری توقع رکھی جائے کہ وہ نتائج کو بروقت اور برمحل اخذ بھی کریں۔ہم نے پہلے بھی کہاہے کہ یہ ریلی کسی جنگ کے خلاف یا مزدوروں کی روایتی ریلی کی طرح کی ریلی نہیں ۔اس میں اکثریت پہلی بار شریک ہوئی ،اور ان سے ایک سیاسی بچپنا صاف جھلک رہاتھا۔لیکن پھر خود اپنے اپنے تجربے سے لوگوں کا شعور بدل بھی رہاہے اور بہتر بھی ہورہاہے ۔ان لوگوں میں وہ لوگ بھی بڑی تعداد میں تھے کہ جنہوں نے ریاست کی حکمران ریپبلکن پارٹی کو ووٹ دیے تھے لیکن اب وہ ریپبلکن کی قانون سازی کے خلاف دلجمعی سے ریلی میں شریک ہیں ۔اس سے واضح ہوتاہے کہ لوگوں کا شعور کتنی جلدی بدلتاہے۔بحث مباحثے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ لوگوں کی شعوری اور سیاسی جانکاری میں کیا بدلاؤاور بہتری آرہی ہے۔ یہ سب لوگ عام لوگ ہیں،کام کرنے والے عام لوگ جن میں اکثر پہلی بار سیاست پر بحث کر رہے ہیں ۔یہ لوگ سوچنا شروع کر چکے ہیں ۔وہ بھی سیاست کے بارے،اور صرف سوچ ہی نہیں رہے بلکہ اپنے دماغوں میں جنم لینے والے سوالوں کا جواب بھی تلاش کر رہے ہیں۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ جب بھی ایسے مراحل آتے ہیں تو لوگ اپنی روایتی پارٹی کی طرف رجوع کرتے ہیں ۔نہ کہ ان لوگوں یا گروپوں کے پاس جاتے ہیں کہ جو خوشنما نعرے لگا رہے ہوں یا معیاری لیفلیٹ بانٹ رہے ہوں۔امریکہ میں جہاں مزدوروں کی کوئی بڑی پارٹی موجود نہیں ہے،لوگ ایسے میں ٹریڈ یونینوں کی طرف گئے ہیں۔ریلی کے آخر میں بولتے وہی تھے کہ جنہیں لوگ وقت آنے پر سننا چاہتے ہیں۔یعنی یونین لیڈرز اور کسی حد تک ڈیموکریٹس کو۔قدرتی طورپر لوگوں کو ان سب سے بڑی امیدیں وابستہ ہیں کہ یہ جو کہیں اور کریں گے وہ ان کے حق میں بہترہوگا۔یقینی طورپر وہ جانتے ہیں کہ وہ کیا کررہے ہیں ۔کسی نہ کسی وجہ سے یہی مقررین ہی ان لوگوں کے لیڈرز ہیں۔ لوگ بیوقوف نہیں ہوتے۔ابھی تک تو ڈیموکریٹس ،لوگوں کو بہلانے پھسلانے میں کامیاب رہے ہیں۔لیکن پھر احتجاج میں پہلی بار نئے آنے والے جو اس طبقاتی لڑائی کو سمجھ رہے ہیں ،واقعات سمیت ان لیڈروں کے لفظوں اوران کی حرکتوں سے اور خود کو ہونے والے دھوکوں سے نئے نئے سبق سیکھیں گے ،قیمتی نتائج اخذکریں گے۔جب وسکونسن سمیت سارے امریکہ میں جدوجہد کا دوسرا مرحلہ شروع ہو گا تو تب منظر ہی کچھ اور ہوں گے۔کھیل بھی کچھ اور ہوگا۔ عوامی پارٹی کیلئے مہم (Campaign for Mass Party)کا اس سلسلے میں ایک بہت اہم کردار بنتا ہے ۔ہم نے اس بحث کو شروع کردیاہے اور اب اسے مزید آگے اور نیچے تک لے جانا ہے کہ امریکہ کے محنت کشوں کی اپنی پارٹی ہونی چاہئے ۔یہی وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے ۔
عام ہڑتال
ہفتے کے روز ہی IWWکی جانب سے عام ہڑتال کے ایشو پر ایک میٹنگ طلب کی گئی۔ یوں ہم دیکھتے ہیں کہ عام ہڑتال کا سوال اور ذکر ہر جگہ ہورہاہے ۔ہر کوئی اس پر سوچ بھی رہاہے اور سنجیدگی سے اس پر بحث بھی کر رہاہے۔چاہے اس پر کوئی راضی یا متفق نہ بھی ہورہاہو ۔اس سے محنت کشوں کے شعور میں معیاری تبدیلی وبڑھوتری کا اندازہ ہوجاتاہے۔ڈیموکریٹس اور ٹریڈ یونین قیادتیں محنت کشوں کو عام ہڑتال کے قانونی پہلوؤں وغیرہ سے ڈرانے دھمکانے کی کوششیں کر رہے ہیں ۔ محنت کشوں کیلئے یہ ایک انتہائی اہم اور فیصلہ کن سوال ہے ۔وہ اس وقت تک قانون کے خلاف نہیں جائیں گے کہ جب تک وہ یہ نہ جان جائیں گے کہ ان کی ایسی قیادت موجود ہے جس میں لڑنے اور جرات مندانہ فیصلے کرنے کی صلاحیت موجودہے ۔ محنت کشوں کے پاس ان کی زندگیاں ہوتی ہیں ،ان کے اہل خانہ ہوتے ہیں ۔چنانچہ عام ہڑتال کا نعرہ ان کیلئے بہت اہم ہوجایاکرتاہے اوریہ کسی طور کسی سیرگاہ پر جانے یا چھٹی منانے اور عیش کرنے کا موقع نہیں ہواکرتا۔کہیں بھی کسی جگہ بھی ایک عام ہڑتال کا منعقد اور منظم کیاجاناایک انتہائی سوچے سمجھے طریقے اور سلیقے سے مرتب کیا جانا ضروری ہوتاہے ۔اس کیلئے محنت کشوں کی وسیع پرتوں کا جمہوری انداز میں بحث کرنا اور فیصلہ کرنا بہت ضروری ہوتا ہے ۔اگر محنت کش عام ہڑتال میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو اس کے نتیجے میں ریاست کو ٹریڈ یونین حقوق کے خلاف قانون کو نافذ کرنا بہت مشکل ہو جائے گا۔آخر کار قانون کے صفحات پر لکھی گئیں سطریں،کسی مخصوص وقت میں،سماج کی مختلف طاقتوں کے مابین توازن ہی کی عکاس ہواکرتی ہیں۔آخری تجزیے میں ،کسی بھی سماج میں حتمی اور فیصلہ کن تبدیلی فیکٹریوں تعلیمی اداروں سڑکوں اور چھاؤنیوں میں موجود انسانوں کی تاریخ کے میدان میں اجتماعی مداخلت وشرکت سے ہی واقع ہواکرتی ہے۔ذرا سوچئے کسی بھی سکول یا کالج کے ان بدمعاش لڑکوں کے بارے کہ جو باقی لڑکوں سے ان کا کھانا چھین لیا کرتے ہیں۔اور کھانا مانگنے پر ان کی پٹائی کر دیاکرتے ہیں ۔سکو ل کے قانون کا اطلاق سکول کے ہر بچے پرہواکرتا ہے لیکن عملدرآمد نہیں ہوتا۔عام طور پر محنت کش بھی ریاست کے سبھی قوانین کو بلا چون وچرا مانتے چلے آرہے ہوتے ہیں۔لیکن سکول کے چند ایک بدمعاش لڑکوں کا قانون جیسا کہ باقی سب لڑکوں کو ماننے پر مجبور کیا جاتاہے۔البتہ جب لوگ یہ سوچنا اور کہنا شروع کر دیتے ہیں کہ بس بہت ہوگئی اب مزید نہیں،اور وہ اجتماعی طورپر بدمعاشوں کے قانون اور دھونس دھاندلی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں تو یہ سب قانون اور دھونس دھاندلی غائب ہونا شروع ہوجاتے ہیں ،تب سبھی بدمعاش جو مرضی آئے کرلیں ،وہ اکٹھا ہوجانے والوں کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتے۔
عوام کی اس طاقت کو الیکشن کے ذریعے زائل کرنے کی کوشش کی بجائےSCFLکو چاہئے کہ وہ اپنی قراردادپر عملدرآمد کی کوشش کرے جس میں عام ہڑتال کا کہا گیاہے۔اس عام ہڑتال کی تاریخ مقرر کر کے اس پر فوری عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے ۔AFL-CIO،Change to WinاورNEAکے ساتھ مل کر ان کے صلاح مشورے کے ساتھ ایک دن مقرر کیا جائے ۔ایک تحریک شروع کی جائے جو کہ وفاقی حکومت سے یہ مطالبہ رکھے کہ ریاست اور لوکل گورنمنٹ کیلئے پانچ سو بلین ڈالرکا بجٹ مختص کرے۔حالات کے دن بدن بڑھتے ہوئے دباؤ کے پیش نظراس وقت محنت کش فوری طور پر ریپبلیکن سے جان چھڑانا چاہتے ہیں۔اورکمتر برائی کے طورپر ایسے میں وہ ڈیموکریٹس کی طرف جھکاؤ کریں گے۔ایسے میں محنت کش طبقے کیلئے ایک بڑی پارٹی کی تعمیر وتشکیل وقت کا اہم ترین اور فوری تقاضا بن کر سامنے آچکاہے ۔ بلاشبہ اس وقت یہ مطالبہ اور تقاضا دھارے کے خلاف چلنے کے مترادف ہے ۔14فروری کیلئے عوام کے بے پناہ جوش وجذبے کے باوجودکمپئین فار ماس پارٹی آف لیبرکو بے تحاشا سراہا گیا۔صرف ایک ہی شخص نے اس موقف کے برعکس ڈیموکریٹس کے حق میں بات رکھی۔جبکہ باقی ہر ایک نے کمپین کو سراہا۔اگر یونینوں کی قیادت اس پر توجہ اور زور دے تو یہ نظریہ بہت جلد عوام میں اپنی جگہ بنا لے گا۔
اگلے روز ہم Hudson,WIگئے جہاں ریلی توبہت چھوٹی تھی مگر ہماری توقع سے کہیں بڑی تھی۔یہ ایک انتہائی قدامت پرست ، دیہاتی و زرعی قسم کا علاقہ ہے ۔جہاں سڑکوں کے اردگرد پانچ سو سے زائدافراد بینروں سمیت موجود تھے ،یہ بلیو کالر ورکرز تھے ۔ہم نے ان میں بھی کمپئین کے لیفلٹ تقسیم کیے جسے انہوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا اور ہمارے موقف کی بھرپور تائید وحمایت کی۔
Source: Chingaree.com