Urdu

لاہور جسے پاکستان کا دل کہا جاتا ہے آج ایک بار پھر محنت کش خواتین کے احتجاج کا مرکز بنا ہوا ہے۔ دو ہفتے پہلے پورے پنجاب سے لیڈی ہیلتھ ورکرز اپنی کئی مہینے کی تنخواہوں کی عدم ادائیگی پر پنجاب اسمبلی کے سامنے دھرنا دیا تھا۔ آج اسی پنجاب اسمبلی کے سامنے نوجوان نرسز بھی اپنے حقوق کے لئے سراپا احتجاج ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس استحصالی نظام میں جہاں مزدور کو اس کا جائز حق دینا ظالم سرمایہ دار حکمرانوں کے لیے ایک ’’گناہ عظیم‘‘ بن گیا ہے وہاں اسی حکمران طبقے کی طرف سے 8 مارچ کو خواتین کا عالمی دن بڑے زور و شور سے لاکھوں روپے خرچ کر کے منایا گیا اور بورژوازی کی نمائندہ خواتین کو

...

دنیا بھر سے اپنے قارئین کی پر زور فرمائش پر ہم طبقاتی جدوجہد کی 33ویں کانگریس 2014ء کے دونوں دنوں کی مکمل تصاویر شائع کر رہے ہیں۔ (فوٹو گرافی: کامریڈ علی منگول)

برسوں بیت گئے پاکستان کے عوام کی سماعتوں نے کچھ اچھا نہیں سنا۔ آنکھیں ہیں کہ ہر روز کسی نئے صدمے سے پھٹی ہی چلی جا رہی ہیں۔ احساس شل ہو چکے ہیں اور حق بولنے والوں کی زبان گونگی ہوتی جا رہی ہے اور میڈیا ہے کہ گولی، بارود، موت، جرائم، دہشتگردی، ٹارگٹ کلنگ جیسی لفاظی کا اس قدر عادی ہو چکا ہے کہ کہنا کچھ بھی چاہ رہا ہو اصطلاحات یہی استعمال کرتا ہے۔

سوویت یونین کے انہدام کے بعد بائیں بازو کے لیڈروں، نظریہ دانوں اور سیاسی کارکنان کی ایک پوری نسل نظریاتی تنزلی اور مایوسی کا شکار ہوگئی تھی۔ دو دہائیاں گزر گئیں۔ تذبذب اور بیگانگی بڑھتی رہی۔ سٹالن ازم کے پاش پاش ہونے پر سامراجیوں نے مارکسزم کی ناکامی اور موت کا اعلان کردیا۔ مارکسسٹوں کو کتنی دہائیاں سٹالن ازم کو بے نقاب کرنے میں لگ گئیں لیکن جب سٹالن ازم کا بت ٹوٹا تو پھر ہر الزام، ہر جرم اور ہر ناکامی کے لئے مارکسزم کو مورد الزام ٹھہرایا جانے لگا۔ ایک زمانے میں ماسکو اور بیجنگ کی پوجا کرنے والے حکمرانوں کی اس یلغار کا حصہ بن گئے۔

طبقاتی جدوجہد کی 32ویں کانگریس 8-9 مارچ کو ایوان اقبال لاہور میں منعقد ہونے جارہی ہے۔ ہم اپنے قارئین کے لئے اس کانگریس کی تیسری مجوزہ دستاویز ’’پاکستان تناظر‘‘ شائع کر رہے ہیں۔

PDF فائل ڈاؤن لوڈ کرنے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مستونگ میں ہزارہ کمیونٹی کا حالیہ قتل عام ماضی قریب میں شروع ہونے والے ایک ایسے سلسلے کی کڑی ہے جس کا انت پورے خطے میں بربریت کا بھیانک تناظر پیش کررہا ہے۔ شام اور مشرقِ وسطیٰ میں ایک دوسرے سے متصادم مذہبی آمریتیں پاکستان میں بھی معصوم لوگوں کو اپنی پراکسی جنگ کا ایندھن بناتی چلی جارہی ہیں۔ کیا یہ خونی کھیل کبھی ختم ہوگا یا مذہبی عقائد کو جواز بنا کر اس مظلوم قومیت کا ایک ایک بچہ ذبح کر دیا جائے گا؟اس نظام کی سیاست اور ریاست کے پاس اس دہشت گردی کا کوئی حل ہے نہ ہی حکمران اپنی رعایا کے اس حصے کو تحفظ فراہم کرنے کے خواہاں نظر آرہے ہیں۔

اس ملک کی اشرافیہ اور ان کی نمائندگی کرنے والے دانشور پچھلی کئی دہائیوں سے جمہوریت اور آمریت کی بحث کرتے چلے آرہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں اخبارات کی شہ سرخیوں کی زینت بننے والے پرویز مشرف کے نام نہاد ٹرائل نے اس بحث کو ایک بار پھر سے گرم کر دیا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکی سامراج نے سرد جنگ کے پس منظر میں اپنے سیاسی، معاشی اور اسٹریٹجک مفادات کے تحفظ کے لئے دنیا بھر میں فوجی آمریتیں مسلط کی تھیں۔ پاکستان میں ایوب خان اور ضیا الحق، چلی میں جنرل پنوشے اور سپین میں جنرل فرانکو سمیت سابقہ نوآبادیاتی ممالک میں دائیں بازو کی وحشیانہ آمریتوں کو مالی اور سفارتی امداد کے ذریعے مضبوط کیا گیا۔ سوویت یونین کے انہدام، چین میں سرمایہ داری کی بحالی اور سرد جنگ کے خاتمے کے بعد پیدا ہونے

...

بیسویں صدی کے عظیم مارکسسٹ فلاسفر، بالشویک انقلاب کے قائد اور تمام عمر سامراجیت کے خلاف عالمگیر سوشلسٹ انقلاب کی جنگ لڑنے والے محنت کش طبقے کے انتھک سپاہی کامریڈ ولادیمیر لینن کی 90ویں برسی کے موقع پر ہم ان کی شہرہ آفاق کتاب ’’سامراج، سرمایہ داری کی آخری منزل‘‘ اپنے قارئین کے لئے شائع کر رہے ہیں۔

طبقاتی جدوجہد کی 32ویں کانگریس 8-9 مارچ کو ایوان اقبال لاہور میں منعقد ہونے جارہی ہے۔ ہم اپنے قارئین کے لئے اس کانگریس کی پہلی مجوزہ دستاویز ’’عالمی تناظر‘‘ شائع کر رہے ہیں۔

19 جنوری کو بنوں میں ہونے والے بم دھماکے میں ایف سی کے 22 اہلکار ہلاک ہوئے ہیں۔ 15 زخمیوں کی حالت تشویشناک ہے۔ 20 جنوری کی صبح راولپنڈی میں جی ایچ کیو کے قریب آر اے بازار میں بم دھماکے سے تیرہ افراد جاں بحق ہوگئے جبکہ بچوں سمیت انتیس سے زائد افراد زخمی ہیں۔ تحریک طالبان نے دونوں دھماکوں کی ذمہ داری قبول کی ہے اور کہا ہے کہ ’’حکومت خلوص ثابت کرے تو مذاکرات کے لئے تیار ہیں۔ ‘‘ اس بیان کا ہر لفظ اس ملک کے حکمرانوں کے منہ پر زور دارطمانچہ ہے۔

طالبان کے ساتھ ’’مذاکرات‘‘ اور ’’جنگ‘‘ کا معاملہ سٹینڈ پر کھڑے اس سائیکل کے مانند ہے جس کا پہیہ تو گھوم رہا ہے لیکن باقی سب کچھ ساکت ہے۔ ’’اچھے طالبان‘‘ اور ’’برے طالبان‘‘ کی بے معنی اصطلاحات ایک بار پھر استعمال کی جارہی ہیں۔ یہاں ’’اچھائی‘‘ اور ’’برائی‘‘ مطلق نہیں بلکہ اضافی ہے۔ امریکی سامراج کے پالے ہوئے طالبان پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کوبرے لگتے ہیں جبکہ پاکستانی ریاست کے ’’اسٹریٹجک اثاثے‘‘ امریکیوں کی نظر میں برے ہیں۔ پھر مذہبی جنونیوں کے کچھ مسلح گروہ ایسے بھی ہیں جو دونوں قوتوں کے لئے بیک وقت اچھے یا برے ہیں۔ اچھے برے طالبان کی پیچیدگیوں میں پھنسے ہوئے پاکستانی حکمرانوں کے بے حسی دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ نہ تو ان میں دہشتگردی اور مذہبی انتہا پسندی کے عفریت پر قابو پانے کی

...

کسی بھی قوم یا ملک کے دوبنیادی اثاثے ہوتے ہیں، اس کے باسی یا اسکے ذرائع پیداوار اور وسائل۔ اگر ہم پاکستان کے حکمرانوں کے بیانات اور تقاریر کاجائزہ لیں، ذرائع ابلاغ کے پروگراموں اور ترانوں پر غور کریں تو ہمیں ہر طرف سے ’’قومی مفادات‘‘، ’’حب الوطنی‘‘، ’’ملکی سا لمیت‘‘ وغیرہ کے نعرے ہی نعرے سنائی دیتے ہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ ان حکمران طبقات کو ملک اور وطن کا اتنا درد ہے کہ وہ جان بھی دے دیں گے۔ لیکن اگر ان کی پالیسیوں، عزائم اور عملی وارداتوں کا جائزہ لیں تو یہ وطن پر جان نچھاور کرنے والے حکمران دوہرے معیاروں منافقت اور وطن فروشی کے سردار نظر آئیں گے۔ حب الوطنی، قوم پرستی اور ملکی سالمیتوں کے نعرے عوام کو اس شاونزم کی جذباتیت کے ذریعے ذہنی طور پر مطیع اور محکوم بنانے کے لیے

...

موجودہ حکومت کے دوسرے سیاسی اور انتظامی فیصلوں کی طرح بلدیاتی انتخابات کا انعقاد بھی غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہے۔ سیاستدانوں کے تذبذب اور ٹھوس فیصلہ سازی میں ناکامی کے پیش نظر ہر معاملے میں عدلیہ مداخلت کررہی ہے۔ پچھلے چند سالوں کے دوران ریاستی معاملات میں عدلیہ کا کردار جتنا بڑھ گیا ہے اس کی مثال ملکی تاریخ میں نہیں ملتی ہے۔ اقتصادی اور سیاسی طور پر نحیف حکمران طبقے کے لئے فیصلے کرنا مشکل بلکہ ناممکن ہوتا چلا جارہا ہے۔ حکمران دراصل عدلیہ کی مداخلت سے خوش بھی ہیں کیونکہ اس طریقے سے پیچیدہ معاملات تاخیر زدگی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ عدالتی اور ریاستی نظام میں اشرافیہ کی سہولت کے لئے رکھے جانے والے چور راستوں کی وجہ سے کیس ہمیشہ کے لئے التوا کا شکار ہو کر عوام کی یادداشت اور

...

’’ذوالفقارعلی بھٹو کے ہئیر سٹائل اور باڈی لینگویج کی نقالی کر لینے سے پارٹی کو 1970ء کی طرح عوام میں مقبول نہیں بنایا جاسکتا۔ پارٹی کو ایک نئے جنم اور ازسر نو ابھار کے لئے ایک بار پھر انقلابی سوشلزم کا پروگرام اپنانا ہوگا۔‘‘

ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے اپنے الفاظ کی حرارت میں اضافہ کرتے ہوئے 3 جنوری 2014ء کو یہ دھماکہ خیز بیان دیا ہے کہ وہ ’’اردو بولنے والے سندھیوں‘‘ کے لئے الگ صوبہ یا ملک بنانے کی طرف جائیں گے۔ یہ دراصل کراچی میں آپریشن کرنے والی پاکستانی ریاست کے لئے ایک دھمکی ہے۔ یوں محسوس ہورہا ہے کہ دو عشروں سے زیادہ عرصہ تک کسی نہ کسی شکل میں اقتدار کا حصہ رہنے کے بعد اب ایم کیو ایم کو اقتدار سے باہر رہنا مشکل محسوس ہورہا ہے۔ سرکاری طور پر کراچی میں جاری حالیہ آپریشن کا مقصد اگرچہ دہشت گرد وں اور بھتہ خوروں کا خاتمہ بتایا جارہا ہے تاہم محسوس یہ ہورہا ہے کہ انتخابی سیاست میں ایم کیو ایم کی برتری قائم رکھنے میں اہم کردار ادا کرنے والے ’’کچھ عناصر‘‘ بھی اس آپریشن کی زد میں آرہے ہیں۔

...