Urdu

پنشن کے اوپر صدر ایمانوئل میکرون کے حالیہ حملوں کے خلاف 19 جنوری کو فرانس کے اندر 200 سے زائد ریلیوں میں 10 لاکھ سے زائد افراد نے سڑکوں پر نکل کر ملک گیر ہڑتال کی۔ ریل، پیرس ٹرانسپورٹ سسٹم، تیل ریفائنریوں، اور میڈیا کے محنت کشوں سمیت اساتذہ، سرکاری ملازمین، ٹرک ڈرائیوروں اور بینکوں کے عملے نے مل کر میکرون کی جانب سے ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھانے کے منصوبوں کے خلاف احتجاج کیا۔ محنت کشوں میں ٹکر لینے کی صلاحیت موجود ہے، مگر کیا مزدور قائدین آگے بڑھنے کی ہمت کریں گے؟

7 دسمبر 2022ء کو عجلت میں اپنی ’زیرو کووِڈ‘ پالیسی کو ترک کرتے ہوئے چینی ریاست نے اپنے ’دس نئے اقدامات‘ جاری کیے، جسے وہ ”روک تھام کے درست اقدامات“ کہتی ہے۔ درحقیقت، یہ کرونا وبا پر قابو پانے کے لیے کیے گئے سخت گیر اقدامات کو مکمل طور پر ترک کرنا ہے۔ سرمایہ دارانہ ”چینی کمیونسٹ پارٹی“ کی حکومت کے مطابق، ’دس اقدامات‘ کا مقصد کرونا وائرس میں تبدیلیوں کوصورت حال کے مطابق نشانہ بنانے میں ”سائنسی درستگی“ کو بہتر بنانا ہے۔

جیمز ویب سپیس ٹیلی سکوپ سے موصول ہونے والی تصاویر نے پوری دنیا کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔ انسانوں نے اس سے پہلے کائنات کی اتنی شفاف اور دور کی تصاویر کبھی حاصل نہیں کی تھیں۔ توقعات کے مطابق، اٹلی میں رومن کیتھولک چرچ کے فلکیات کے شعبے سے وابستہ ایک ماہرِ فلکیات نے ان تصاویر کے بارے میں کہا کہ ”ہمارے سامنے خدا کی تخلیق عیاں ہو رہی ہے، اور ان میں ہم اس کی انتہائی حیرت انگیز طاقت اور خوبصورتی کے لیے اس کا پیار، دونوں دیکھ سکتے ہیں۔“

دسمبر کے شروع میں، چین کے اندر حکومت کی جانب سے نافذ کیے جانے والے سخت کرونا لاک ڈاؤن کے خلاف احتجاجوں میں تیزی سے اضافہ دیکھنے کو ملا، جن میں سے کئی نے جلد ہی سیاسی نوعیت اختیار کر کے چینی کمیونسٹ پارٹی (سی سی پی) کی پوری سرمایہ دارانہ حکومت کو للکارنا شروع کیا۔ اگرچہ انفرادی طور پر یہ احتجاج چھوٹے تھے، ریاست واضح طور پر اس سے خوفزدہ تھی کہ کہیں یہ وسیع تر پرتوں کو متحرک نہ کر دیں۔ اب، جبکہ ریاست کریک ڈاؤن کر رہی ہے، وہ ’زیرو کووڈ‘ پالیسی (کرونا متاثرین کی تعداد صفر پر لانے کے لیے کیے جانے والے سخت ترین اقدامات) میں نرمی لانے پر بھی مجبور ہے۔ مگر ایسا کرتے ہوئے، انہیں چینی سرمایہ داری میں مزید عدم استحکام کا سامنا ہے۔

ترکی کے روزنامہ برگن نے ’مارکسزم کے دفاع میں‘ ویب سائٹ کے ادارتی بورڈ کے ممبر جارج مارٹن کا پیرو میں ہونے والی حالیہ دھماکہ خیز پیش رفت کے بارے میں انٹرویو کیا۔ کانگریس میں ہونے والے کُو کے نتیجے میں بائیں بازو کے صدر پیدرو کاستیلو کو عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے اور انہیں گرفتار کر لیا گیا ہے۔ اس اقدام نے ایک عوامی احتجاجی تحریک کو جنم دیا ہے، جس کی قیادت مزدور اور غریب کسان کر رہے ہیں۔

اِس مہینے سوویت یونین کے انہدام کو 30 سال ہو گئے ہیں۔ دنیا کی سب سے طاقتور مسخ شدہ مزدور ریاست ٹوٹ پھوٹ اور انتشار کا شکار ہو رہی تھی جبکہ نام نہاد کمیونسٹ ریاستی اثاثوں کی لوٹ مار کر رہے تھے۔ اس ساری صورتحال پر مغربی سامراجی فتح کے شادیانے بجا رہے تھے۔ سرمایہ داری اپنے خوفناک پنجے پھر سے گاڑ رہی تھی اور سوویت یونین کے مزدوروں کو اسکا خمیازہ بھگتنا پڑا۔

”بالشویزم کے متعلق کوئی کچھ بھی سوچتا ہو مگر یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ روسی انقلاب کا شمار نسل انسانی کے عظیم ترین واقعات میں ہوتا ہے اور بالشویکوں کا اقتدار عالمگیر اہمیت کا حامل مظہر ہے“ (جان ریڈ، یکم جنوری 1919ء ،دنیا کو جھنجوڑ دینے والے دس دن، صفحہ نمبر 13)۔

ایرانی نوجوانوں کی انقلابی بغاوت، جو بہت بڑے جبر کے باعث ماند پڑ گئی تھی، کے دو ماہ بعد 16 سے 19 نومبر تک احتجاجوں کا نیا مرحلہ دیکھنے کو ملا، جو اس بات کا اظہار ہے کہ ردّ انقلاب کا کوڑا تحریک کو بڑھاوا دے رہا ہے۔ حتمی فتح حاصل کرنے کے لیے، بڑے پیمانے پر اور منظم انداز میں محنت کش طبقے کی شمولیت لازم ہے!

30 اکتوبر 2022ء کو ورکرز پارٹی (پی ٹی) کے لولا ڈا سلوا نے انتہائی دائیں بازو کے امیدوار بولسونارو کو صدارتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں چھوٹے مارجن کے ساتھ شکست دے دی۔ اگرچہ محنت کشوں اور نوجوانوں کا اس نتیجے پر جشن منانا بنتا ہے، مگر ہمیں یہ بھی دیکھنا پڑے گا کہ بولسونارو کو توقعات سے زیادہ ووٹ ملے، جو دو مرحلوں کے دوران اپنے ووٹوں میں 60 لاکھ کا اضافہ کرنے میں کامیاب رہا، جبکہ اس کے مقابلے میں لولا کے ووٹوں میں 26 لاکھ کا اضافہ ہوا۔

پچھلے چند مہینوں میں کئی ممالک کے مرکزی بینکوں نے افراط زر کو کنٹرول کرنے کے لئے تیزی سے شرح سود میں اضافہ کیا ہے۔ پرسوں فیڈرل ریزرو (امریکی مرکزی بینک) نے شرح سود میں 0.75 فیصد اضافہ کیا اور گزشتہ روز بینک آف انگلینڈ نے بھی اضافہ کر دیا ہے۔ شرح سود میں ہیجانی اضافے نے مارٹگیج شرح (گھر رہن کی شرح) اور حکومتی قرضوں کے حصول کی شرح میں اضافہ جبکہ عالمی کساد بازاری کے خطرات کو تیز تر کر دیا ہے۔ یہ ساری صورتحال عام عوام کے لئے بہت تکلیف دہ ہے لیکن کیا حکمران طبقات اپنے مقاصد حاصل کر سکیں گے؟

مندرجہ ذیل لیف لیٹ، عالمی مارکسی رجحان کی جانب سے، ایرانی نوجوانوں کی انقلابی تحریک کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے طور پر منعقد ہونے والے مظاہروں اور تقریبات کے اندر تقسیم کرنے کے لیے جاری کیا گیا ہے۔ اس میں ہمارا موقف پیش کیا گیا ہے کہ کیسے اس متاثر کُن تحریک کو آگے بڑھنا چاہیے۔ ملّا حکومت مردہ باد! سامراجیت مردہ باد! سرمایہ داری مردہ باد!

ایران کی ملک گیر احتجاجی تحریک چوتھے ہفتے میں داخل ہو چکی ہے، مگر ریاستی جبر کا نتیجہ محض عوام کو مزید مشتعل کرنے اور نئی پرتوں کے متحرک ہونے کی صورت نکل رہا ہے۔ سڑکوں پر موجود نوجوانوں کے ساتھ اب ہزاروں کی تعداد میں سکول کے طلبہ اور بازار کے تاجروں سمیت محنت کشوں کی اہم پرتیں بھی شامل ہو گئی ہیں۔ سب سے اہم بات یہ کہ تیل اور پیٹرو کیمیکل کے شعبے، جو ایرانی معیشت کا کلیدی حصہ ہے، کے اندر ہڑتالوں کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔

13 ستمبر کو ایرانی ’اخلاقی پولیس‘ نے جینا ایمینی نامی ایک کرد لڑکی کو حراست میں لیا، جو اپنے بھائی کے ساتھ ایرانی کردستان کے شہر سیقیز سے تہران آئی تھی۔ اس کے بھائی نے مداخلت کرنے کی کوشش کی اور پولیس سے پوچھا: ”ہم یہاں غیر ملکی ہیں، آپ اسے کیوں گرفتار کر رہے ہیں؟“، تو انہوں نے اسے بھی مارا پیٹا۔ اس کے بعد انہوں نے جینا کواس وقت تک تشدد کا نشانہ بنایا جب تک وہ بے ہوش نہیں ہوگئی۔ اسے ہسپتال لے جایا گیا، اور جمعہ 16 ستمبر کو وہ زخموں کی شدت کی وجہ سے انتقال کر گئی۔

ایک کہاوت ہے کہ عوام کو وہی حکومت ملتی ہے جس کی وہ حق دار ہے۔ ٹراٹسکی نے اپنے شاہکار مضمون ”طبقہ، پارٹی اور قیادت“ میں نشاندہی کی تھی کہ یہ کہاوت غلط ہے۔ ایک ہی عوام کو قلیل عرصے میں مختلف قسم کی حکومتیں مل سکتی ہیں اور ملتی بھی ہیں۔

بے قابو افراطِ زر کو کنٹرول کرنے کے لئے مرکزی بینک شرح سود بڑھا رہے ہیں اور نتیجتاً کساد بازاری جنم لے رہی ہے۔ ہر لمحہ سنگین ہوتا سرمایہ دارانہ بحران حکمران طبقے میں تقسیم کو بڑھا رہا ہے۔ ایک سوشلسٹ انقلاب ہی اس بند گلی سے باہر نکلنے کا راستہ فراہم کر سکتا ہے۔